بجٹ اور معاشی فلاح و بہبود
تعلیم پر اخراجات کے دعوے تو بہت لیکن کہیں اسکول کی چھت گرنے، دیوار گرنے سے بچے زخمی بھی ہو جاتے ہیں
دنیا بھر کے بہت سے ترقی پذیر ملکوں میں حکمرانوں اور عام لوگوں کے درمیان بہت فاصلہ پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں حکمرانوں اور اشرافیہ یا خاص لوگوں کے درمیان خوشگوار تعلقات موجود ہوتے ہیں۔ اس کا اظہار ہر سال بجٹ کی تیاری کے موقع پر ہی ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ 30 جون تک ایسے بجٹ کی منظوری دے دی جاتی ہے جو امیر دوست ہو، جس میں اشرافیہ کی آسائشوں انھیں مزید دولت سمیٹنے کے بہت سے طریقے موجود ہوں۔
البتہ چھوٹے درجے کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ اور پنشن یافتہ غریب کمزور بوڑھے نحیف افراد کی پنشن میں صرف 5 فیصد اضافہ کرنے کا اعلان کرکے بجٹ کو بہترین قرار دے کر منظور کروا لیا جاتا ہے ۔اس سال کا بجٹ یکم جولائی سے اپنے نفاذ کے ساتھ ہی سرکاری افسران کے لیے سخت گیر احکامات لے کر وارد ہوا ہے۔
مثلاً پٹرولیم کی کھپت میں بچت، لگژری گاڑیوں کی خریداری پر پابندی، اسٹیشنری کی خریداری پر کٹ، فرنیچر کی خریداری کو پابندیوں سے جکڑ دیا گیا ہے، جو بچت کی ایک بہتر اسکیم تو ہے لیکن بجٹ کو ایسے اقدامات سے مزین کرنے کی ضرورت تھی جس سے بجٹ غریب دوست بجٹ بن کر عوام کی معاشی فلاح و بہبود کا باعث بن جائے اور ایسی معاشی ترقی ہو جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ عوام کی معاشی فلاح و بہبود میں اضافہ ہوا ہے۔
معاشی فلاح و بہبود سے مراد افراد کے معیار زندگی کا بلند ہونا اور ضروریات زندگی کا بہتر طور پر میسر آنا ہے ضروریات زندگی میں خوراک، رہائش، علاج، تعلیمی سہولیات، تفریحی سہولیات اور دیگر باتوں کے علاوہ بعض ماہرین معاشیات نے فراہمی و نکاسی آب کی سہولیات کو بھی بہت اہمیت دی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تقریباً تمام سہولیات موجود ہیں، لیکن بہت سے ترقی پذیر ممالک میں ایسا نہیں ہے البتہ ان ممالک کی معاشی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے جو کسی وقت ترقی پذیر تھے اب بتدریج یا تیزی سے ترقی یافتہ ممالک کے قریب کا درجہ حاصل کر رہے ہیں۔
انھوں نے ہر سال بجٹ میں عوام کی معاشی فلاح و بہبود کے لیے اچھی خاصی رقم مختص ہی نہیں کی بلکہ ایک ایک پائی پیسہ انتہائی ترجیحی مدوں میں خرچ کرتے رہے اور ترقی یافتہ ممالک نے بھی اسی طرح معاشی ترقی کو معاشی فلاح و بہبود کے ساتھ جوڑ کر اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور ہر سال کے بجٹ کو انتہائی عوام دوست یا غریبوں کا حامی بجٹ بناتے رہے۔ انصاف پسند ماہرین معاشیات اسی معاشی ترقی کو تسلیم کرتے ہیں جس سے معاشی فلاح و بہبود میں اضافہ ہو۔
پاکستان میں معاشی ترقی اور معاشی فلاح و بہبود کو علیحدہ علیحدہ رکھا گیا ہے۔ مثلاً کبھی معاشی ترقی کی شرح 8 فیصد 10 فیصد بھی مانی جاتی رہی لیکن وہ تمام معیارات جن کا تعلق معاشی فلاح و بہبود سے رہا ہے ان پر خرچ کی شرح نہایت ہی کم رہی ہے اور جو رقوم مختص کی جاتیں ان سے معاشی فلاح و بہبود کے انتہائی کم تر درجات حاصل کیے جاسکے۔
مثلاً تعلیم، صحت عامہ، رہائشی سہولیات، پانی کی فراہمی و نکاسی آب، سڑکوں کا نظام، نالوں کی تعمیر و صفائی اور بہت سی شہری سہولیات کی فراہمی بلدیاتی امور پر اخراجات کا مختص کرنا، ان تمام باتوں کا تعلق کسی نہ کسی طور پر بجٹ سے ہی ہوتا ہے جس کے تحت معاشی ترقی کے حصول کے لیے بہت سی رقوم مختص کی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں معاشی ترقی اور معاشی فلاح و بہبود میں برائے نام ہی تعلق رہا ہے۔
ہر سال بجٹ میں چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبائی یا پھر بلدیاتی ادارے جو رقوم مختص کرتے ہیں ان میں رہائشی سہولیات کی فراہمی کا کیا معیار ہے، کراچی کی حالیہ بارشوں میں سب کچھ دھل دھلا کر سامنے آگیا ہے۔ آدھے سے زیادہ شہر کچھ بارش کے پانی اور گٹر کے پانی سے مل کر دریا کا منظر پیش کر رہا تھا اور اکثر ہر دو چار سال بعد ایسا ہو جاتا ہے۔ لاہور، پنڈی اور دیگر کئی شہروں کی سڑکیں دریا کا روپ دھار چکی تھیں، صحت عامہ پر کتنے اخراجات ہوتے ہیں۔
ادویات کی فراہمی کے دعوے ہوتے ہیں اور ادویات کا کچھ حصہ غائب بھی ہو جاتا ہے۔ تعلیم پر اخراجات کے دعوے تو بہت لیکن کہیں اسکول کی چھت گرنے، دیوار گرنے سے بچے زخمی بھی ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا رواں مالی سال کا بجٹ جس کا نفاذ ہو چکا ہے اس میں جس شعبے میں بھی جو رقوم رکھ دی گئی ہیں اگر اس کا بہتر سے بہتر استعمال ہو جاتا ہے تو سمجھ لیں کہ معاشی فلاح و بہبود کے حصول کی طرف گامزن ہو جائیں گے۔ بشرطیکہ بہت سے منصوبے ترجیحی بنیادوں پر جلد ازجلد مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً فراہمی آب اور نکاسی آب کا بہترین نظام جسے فلاحی معیشت سے جوڑا گیا ہے اس کا حصول ترجیحی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔ پاکستان کے بہت سے شہروں میں پینے کے پانی کی وافر نہیں بلکہ ضرورت کے مطابق فراہمی کی انتہائی سخت ترین ضرورت ہے۔
بعض ایسے علاقے ہیں جہاں کے جوہڑ بھی گریہ کناں ہیں کہ یہاں انسان اور جانور ایک ساتھ پانی پیتے ہیں اور 75 برس ہوگئے نکاسی آب کی کہیں کوئی گارنٹی نہیں حالیہ مون سون کی بارشوں میں کراچی، لاہور، راول پنڈی، سکھر، حیدرآباد اور دیگر کئی شہروں میں بارش کا پانی زیادہ ترسڑکوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا اور کہیں دریا بن کر جم کے کھڑا ہو گیا۔
گلیاں، بازار، مارکیٹیں، سڑکیں، شاہراہیں، چوک، چوراہے، محلے، علاقے، کھیل کے میدان، پارکس سب کے سب ناکام نکاسی آب کے نظام کی بدولت عوام کی زندگی اجیرن بناتے رہے۔ گھروں میں پانی داخل ہوتا رہا اور رہائشی بے دخل ہوتے رہے۔ ضرورت کا سامان ادھر ادھر لے جا کر رہائش پذیر ہوتے رہے کہ رہائشی سہولیات کی عدم دستیابی عدم فراہمی کا گراف اوپر جاتا رہا اور معاشی فلاح و بہبود کی تنزلی ہوتی رہی۔
پاکستان کے پہلے پیش کردہ تمام بجٹوں میں اگر معاشی فلاح و بہبود کو ترجیح دی جاتی بلکہ ترجیح کے ساتھ مختص رقوم کی ٹھیک ٹھیک خرچ کرنے کی طرف توجہ دی جاتی تو معاشی ترقی کے ساتھ معاشی فلاح کا بلند معیار حاصل کرلیتے کیونکہ معاشی فلاح کے حصول میں ہی غربت میں کمی اور ملکی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔