ہم کب جاگیں گے

یو اے ای نے کشمیر پر اپنے پرانے موقف سے ہٹ کر اب اسے بھارت کا اندرونی حصہ کہنا شروع کردیا ہے


عثمان دموہی July 17, 2022
[email protected]

یہ بھی کیا خدا کی قدرت ہے کہ کورونا کے طویل مصیبت بھرے دور کے بعد اس سال جو حج ہوا وہ حج اکبر تھا۔ اس سال دس لاکھ مسلمانوں نے حج ہی ادا نہیں کیا بلکہ حج اکبر کی فضیلت بھی حاصل کی۔

شاید یہ مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا ایک انعام تھا جس سے اس کی ایک آزمائش سے بخیر و خوبی نمٹنے کی وجہ سے مسلمانوں کو نوازا گیا۔ کورونا کے پورے تین سال کے عرصے میں خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ میں روایتی طور پر مسلمان عبادات و زیارات نہیں کرسکے تھے۔ سعودی حکومت کی جانب سے پابندیاں عائد تھیں اور ان پابندیوں کا عائد ہونا ضروری بھی تھا اس لیے کہ اس موذی بیماری کے پھیلاؤ کا تعلق بھی عوام کے اجتماع سے منسلک ہے۔

کورونا سے پہلے ہر سال 28 سے 30 لاکھ مسلمان حج کی سعادت حاصل کرتے تھے مگر سعودی عرب نے ان تین سالوں میں حج کے لیے مختصر تعداد میں لوگوں کو حج کرنے کی اجازت دی جس سے اس کی آمدنی پر بھی اثر پڑا کیونکہ آج کل وہ بھاری دفاعی اخراجات کی وجہ سے صرف تیل کی آمدنی پر انحصار نہیں کرسکتا تاہم سعودی حکومت کو کورونا کی ہولناکیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کڑوی گولی نگلنی پڑی یعنی کہ حاجیوں کی تعداد کو کم سے کم کرنا پڑا۔ اب اس سال سے لگتا ہے آیندہ حج اپنی روایت کے مطابق جاری رہے گا اور پہلے کی طرح پھر سے لاکھوں فرزندان توحید پوری آن بان سے یہ فرض ادا کرسکیں گے۔

اس سال میدان عرفات میں مسجد نمرہ سے رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر شیخ محمد بن عبدالکریم العیسی نے خطبہ حج ارشاد فرمایا۔ آپ نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کو دینی فرائض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ آپس میں محبت اور خلوص سے پیش آنے کی تلقین کی۔ انھوں نے مسلمانوں کو اپنے باہمی تنازعات اور رنجشیں چھوڑنے اور دشمنان اسلام کے آگے سینہ سپر ہونے کی بات کی۔ آپ نے زور دے کر فرمایا کہ اس وقت مسلمانوں کو اتحاد اور اتفاق کی بے حد ضرورت ہے۔ ایک مسلمان کا خون دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ مسلمانوں کو ہر سال خطبہ حج میں اسی طرح محبت و یگانگت قائم کرنے کی تلقین کی جاتی ہے مگر افسوس کہ مسلمان دنیاوی معاملات اور اپنے اپنے ملک کے مفادات کے سلسلے میں اس طرح جنونی ہوگئے ہیں کہ وہ صرف اپنے بھلے کی فکر میں محو رہتے ہیں اور اپنے بھلے کے لیے اپنوں سے زیادہ غیروں پر نہ صرف بھروسہ کرتے ہیں بلکہ ان پر جان چھڑکتے ہیں۔

وہ غیروں کے دوست بن کر آپس میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت مسلمان ممالک میں آپس میں نفرت اور غیروں سے محبت کا رجحان عام ہے۔ایران اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات میں بھی تناؤ ہے، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ امریکا نہیں چاہتا کہ سعودی عرب ایران سے اچھے تعلقات قائم رکھے۔ دراصل امریکا کو اسرائیل کی وجہ سے ایران سے پرخاش ہے۔ حالانکہ اس وقت سعودی حکومت عراق کے ذریعے ایران سے تعلقات سدھارنے کے لیے مذاکرات کو جاری رکھنا چاہتی ہے مگر چونکہ امریکا اس کے خلاف ہے چنانچہ یہ مذاکرات آگے نہیں بڑھ پا رہے ہیں۔

ادھر اسرائیل ایک طرف یہ چاہتا ہے کہ تمام مسلم ممالک اسے تسلیم کرلیں دوسری طرف اس کا وہ پلان بھی مسلمانوں سے پوشیدہ نہیں کہ وہ پورے عالم عرب پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس کا دعویٰ ہے کہ تمام عرب علاقے قدیم زمانے میں اس کے بزرگوں کے زیر سایہ تھے۔ بس جس طرح بھارت افغانستان سے لے کر برما تک اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا ہے اور پھر رام راج رائج کرنا چاہتا ہے اسرائیل بھی پورے جزیرہ نما عرب پر اپنا جھنڈا لہرانا چاہتا ہے۔ ایک تو اسرائیل کا وجود ہی ناجائز ہے۔ اسے مغربی ممالک خصوصاً امریکا نے عربوں کے سینے پر خنجر کی طرح پیوست کردیا ہے۔

اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کے علاقوں سے نکال کر دربدر کردیا ہے۔ فلسطینی اب جس حصے میں آباد ہیں وہ اسے آزاد فلسطینی ریاست بنانا چاہتے ہیں مگر اسرائیل اس کی اجازت دینے کے بجائے ان کے علاقوں میں یہودیوں کی بستیاں بساتا چلا جا رہا ہے۔ فلسطینی بالکل کشمیریوں کی طرح گزشتہ 75 سالوں سے اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں اب تک اپنے ہزاروں نوجوانوں، بچوں، بوڑھوں اور خواتین کی قربانیاں دے چکے ہیں۔

فلسطینیوں سے اسرائیل کی زیادتیوں اور مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے کی وجہ سے اگست 1969 میں دنیا کے تمام مسلم ممالک نے ایک تنظیم تشکیل دی تھی جسے آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز یعنی او آئی سی کا نام دیا گیا تھا۔ اس تنظیم نے دنیا کے تمام مظلوم اور محکوم مسلمانوں کو جو آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا اور یہ فیصلہ بھی کیا تھا کہ جب تک اسرائیل فلسطینیوں کو آزادی نہیں دیتا اس وقت تک اس سے کسی بھی قسم کے تعلقات قائم نہیں کیے جائیں گے۔ آج متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے اور اس سے اپنے تجارتی تعلقات بھی قائم کرلیے ہیں۔

یو اے ای نے کشمیر پر اپنے پرانے موقف سے ہٹ کر اب اسے بھارت کا اندرونی حصہ کہنا شروع کردیا ہے ساتھ ہی وہ اب بھارت کو او آئی سی کا ممبر بنانے کے لیے بھی بے چین و بے قرار ہے۔ او آئی سی کے چارٹر کے مطابق کوئی غیر مسلم ملک اس کا ممبر نہیں بن سکتا۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کی بھارت کو اس کا ممبر بنانے کی کوششوں سے صاف ظاہر ہے کہ مسلمان اپنے نصب العین سے ہٹ چکے ہیں اور وہ اپنے مظلوم اور محکوم بھائیوں کے بجائے غیروں کو ترجیح دے رہے ہیں۔

اول تو او آئی سی کے چارٹر کے مطابق تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ محکوم مسلمانوں کو سامراجی ممالک سے آزادی دلائیں اگر وہ اسے بھی نہیں مانتے تو کم سے کم قرآن پاک میں مظلوم اور محکوم آزادی کے طلب گار مسلمانوں کو سامراجی ممالک کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے کہا گیا ہے اس پر ہی عمل کریں تو فلسطینیوں اور کشمیریوں کو اسرائیل اور بھارت کے ظلم و ستم سے بچایا جاسکتا ہے مگر اب مسلمان دنیاوی رنگ میں رنگ چکے ہیں انھیں صرف اپنا مفاد عزیز ہے اور مظلوم و محکوم مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے چنانچہ اسی وجہ سے آج عالم اسلام عجیب کشمکش کا شکار ہے۔ بڑی طاقتوں نے ہمیں مغلوب کرلیا ہے اور ہم ان کا چارہ بن کر رہ گئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں