رائے عامہ… چشم کشا حقائق
رائے ریاض صاحب نے اپنی خود نوشت کا عنوان ’’رائے عامہ‘‘ رکھ کر میڈیا کی اصطلاح ’’رائے عامہ‘‘ کو ایک نئی جہت دی ہے
ان دنوں مارکیٹ میں ایک نئی کتاب ''رائے عامہ'' کے ٹائٹل سے آئی ہے۔ یہ کتاب پاکستانی سیاست کے مدو جرر کا بیان ہے۔ اس کتاب کے مصنف رائے ریاض حسین ہیں جنھوں نے چار وزرائے اعظم میاں محمد نواز شریف، میر بلخ شیر مزاری، معین قریشی اور میر ظفراللہ خان جمالی کے ساتھ بطور پریس سیکریٹری کام کیا۔ وہ جاپان سری لنکا اور بھارت میں پاکستان کے پریس کونسلر بھی رہے۔
رائے ریاض صاحب نے اپنی خود نوشت کا عنوان ''رائے عامہ'' رکھ کر میڈیا کی اصطلاح ''رائے عامہ'' کو ایک نئی جہت دی ہے۔رائے صاحب نے اس خودنوشت میں آپ بیتی اور جگ بیتی کو انتہائی خوبصورت اور دلکش انداز میں قلم بندکر کے آئندہ نسلوں کے لیے ایک تاریخی دستاویز فراہم کی ہے۔انھوں نے اقتدار کے ایوانوں کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی سیاسی تاریخ کے چشم کشا حقائق کو آشکارہ کیا ہے۔یہ کتاب ''تاریخ بھی ہے، اقتدار کی بھول بھلیوں کی کہانی بھی''۔ اس کتاب کے مطالعے سے سے اس بات کی تصدیق بھی ہوتی ہے کہ پاکستان میں اقتدار کا منبع وہ نہیں جو دکھائی دیتا ہے۔
رائے ریاض حسین 12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف حکومت کے خاتمے کے دن پیش آنے والے واقعات کے چشم دید گواہ ہیں اور اپنی کتاب میں انھوں نے بڑی تفصیل سے ان لمحات اور اس دوران ہونے والی گفتگو کو بیان کیا ہے ۔جو پڑھنے والے کے لیے کئی خفیہ گوشوں سے پردہ اٹھاتی ہے، انھوں نے یہ کہانی انتہائی دلچسپ انداز میں بیان کی ہے۔
ریاض حسین لکھتے ہیں کہ ''وزیراعظم ہاوس میں میرا قیام طویل ترین تھا۔ دو دفعہ میاں نواز شریف کے ساتھ، پھر ایک دفعہ ظفر اللہ جمالی کے ساتھ اور درمیان میں دو کیرٹیکر پرائم منسٹر کے ساتھ۔ میاں صاحب کے پہلے دونوں ادوار میں نے ایک کامن چیز دیکھی کہ پرائم منسٹر کے گرد شروع سے ہی کچھ منسٹرز،بیوروکریٹ، ٹیکنوکریٹ اور دوست احباب گھیرا ڈال لیتے ہیں اور اس گھیرے میں شامل لوگ پوری کوشش کرتے ہیں کہ کوئی اور شامل نہ ہو، اگر کوئی نظر سے گر جائے یا فوت ہو جائے یا کسی وجہ سے آوٹ ہو جائے تو کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی اور اس کی جگہ نہ لے سکے... میاں صاحب کے ساتھ میں نے دیکھا کہ شروع شروع میں اگر ان کے قریب پچاس افراد تھے تو آخر میں پانچ رہ گئے۔''
رائے ریاض حسین صاحب انیس سو ترانوے کے آخر میں صدر غلام اسحاق خان اور میاں نواز شریف کے درمیان رسہ کشی کے ایام کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ''آخری دنوں میں ایک عجیب کام شروع ہوا کہ کابینہ کے وزرا نے ایک ایک کر کے استعفے دینے شروع کر دیے۔ ایک دن صبح سویرے جب وہ اسلام آباد سے لاہور وزیراعظم کے خصوصی جہاز میں روانہ ہونے لگے تو میاں صاحب حسب معمول سب اسٹاف ممبران اور سکیورٹی کے لوگوں سے ہاتھ ملانے کے لیے جہاز میں پچھلی طرف آئے جب انھوں نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا تو میں نے السلام علیکم کے بعد آہستہ سے کہا ''جی وہ حسین حقانی نے بھی استعفی دے دیا ہے۔ حسین حقانی ان دنوں پریس اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر تھے اور فارن پریس کو دیکھتے تھے''۔
رائے صاحب کی اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی نے اس کتاب کو ''دھماکہ خیز اور ذائقے دار'' قرار دیا ہے۔رائے ریاض حسین کی اس خود نوشت میں نواز شریف کی شخصیت اور انکے دور اقتدار کے علاوہ چوہدری شجاعت حسین،چوہدری نثار علی خان، میر ظفراللہ خان جمالی شہباز شریف، کیپٹن محمد صفدر، سیف الرحمان اور سعید مہدی پر بھی الگ الگ باب لکھے گئے ہیں۔ رائے صاحب نے اس کتاب میں اپنے ان 29 کالمز کو بھی ہے شامل کیا ہے جو مختلف اخبارات میں چھپتے رہے ہیں۔ یہ کالمز بھی بہت سا تاریخی مواد لیے ہوئے ہیں۔
کتاب کے مطالعہ سے رائے ریاض حسین کی شخصیت انکے خاندان اور دوست احباب کا بخوبی علم بھی ہوتا ہے۔کتاب کے مطالعے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انھیں وزیراعظم کے ساتھ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احاطے کے اندر دو بار جانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ انھوں نے اپنی اس کیفیت کو جس انداز میں بیان کیا ہے وہ عشق رسول کی ایک مثالی علامت ہے۔ مجموعی طور پر رائے ریاض حسین کی کتاب ''رائے عامہ'' محض ایک خودنوشت ہی نہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دلچسپی رکھنے اور اس پر تحقیق کرنے والوں کے لیے کئی نئے دریچے کھولتی ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ...