چھلنی کے سوراخ
دفترجوبے فائدہ اوربے ضرورت ہائی فائی لگژری فرنیچرتھا، اس کااندازہ ہم نے کافی رعایت دے کربھی چارکروڑ لگایا
''تالاوالا''کے اس دورمیں جو اچھی بات سننے میں آئی ہے وہ موجودہ حکومت کے وہ اقدامات ہیں جو ''چھلنی'' میں سوراخ بندکرنے کے مترادف ہیں یعنی کسی حد تک فضول خرچی پر پابندیاں لگائی ہیں۔
''تالاوالا'ایک پشتواصطلاح ہے، جب ٹھیکیدارلوگ کسی پھلوںکے باغ سے اپنا بوریا بستراٹھا کر چلے جاتے ہیں تو عام لوگ اس باغ پر پنڈاروں کی طرح پل پڑتے ہیں، کہیں کہیں اگر کسی پیڑ میں کوئی دانہ رہ گیا ہو،اسے ڈھونڈتے ہیں یاکچھ ٹہنیاں ٹوٹ پھوٹ گئی ہوں تو وہ بھی لے اڑتے ہیں، جانوروں والے بھی اپنے ریوڑ اس پر چھوڑدیتے ہیں، اسے باغ ''تالاوالا''کہتے ہیں۔اورچھلنی کو تو آپ اچھی طرح جانتے اورپہچانتے ہیں، وہی ''برتن'' جس میں آئی ایم ایف اوردوسرے چشموں، دریاؤں اورندیوں سے ''پانی'' لایاجاتا ہے جوکبھی پیاسوں تک پانی نہیں پہنچ سکا۔
ہم پیاسوں کے مے خانے میں یوں جام چلے ہے
آنکھوں سے چھلک جائے ہے جب شام ڈھلے ہے
اس چھلنی کے سوراخوں کی تفصیل جاننے کے لیے ذرا حکومتی اخراجات کا ہلکا سا اندازہ لگالیجیے کہ وزیراعظم ہاؤس کا روزانہ خرچہ کتنا ہے؟صدرمملکت کے بابرکت پریزڈنٹ ہاؤس میں روزانہ ان بدنصیبوں کی خون پسینے کی کتنی کمائی اڑائی جاتی ہے، جن کی روزانہ آمدنی پانچ سو روپے سے بھی کم ہے ،بیروزگاروں کو توایک طرف کردیجئے جو ملک کی درسگاہوں میں لاکھوں کی تعدادمیں تیارہو رہے ہیں کیوں کہ ادھرفیشن ایبل چائیلڈلیبربھی چل رہاہے۔
ایک مرتبہ بلوچستان سے ایک شخص نے ہمیں ایک گوشوارہ بھیجاتھا جس میں وزیراعلیٰ کے خصوصی ہوائی جہازکے لیے رکھے گئے خصوصی ''عملے ''کی تنخواہوں اورمراعات کی تفصیل تھی، وہ ہوائی جہازاورہیلی کاپٹرجو کبھی کبھی سال سال بھربھی استعمال نہیں ہوتے لیکن اخراجات برابرہوتے رہتے ہیں۔اسی طرح چاروں صوبوں میں وزیراعلیٰ اور گورنر کے ''ہوائی عملے''کا تخمینہ لگائیے اورپھر ''کام'' کا بھی، تو آپ کو خودی اس کا اندازہ ہو جائے گا۔ تویہ خبرتو آپ نے پڑھی ہوگی کہ ریاست مدینہ کے امیرالمومنین۔بنی گالہ سے دفترآتے جاتے تھے ۔ جس پراٹھانوے کروڑ اڑا چکے ہیں۔
ایک خبراگر کسی کویاد ہوتو ممنون حسین کے دورمیں صدرپاکستان کی کراچی والی اقامت گاہ کا خرچہ بتایاگیا تھا جب کہ وہاں صدرصاحب کے دوست اوررشتہ دار براجمان رہاکرتے تھے۔
ہمارے پشتونخواہ کے وزیراعلیٰ اورگورنرکا گرمائی ہاؤس جو ہزارے کی ''گلیوں''میں ہے، سارا سال کم ازکم اخراجات کی حد تک برابر چالو رہتے ہیں اور ان میں ''قیام''کون کرتاہے؟وہی صدرممنون کے جیسے رشتہ داراوردوست مہمان وغیرہ۔
ان تازہ اقدامات میں ابھی اوربہت سارے اقدامات کی ضرورت ہے ،وزیروں ،مشیروں ،مملکتوں اورمعاونین خصوصی برائے کو بھی شامل کردیجئے، اسمبلیوں اوران کے ''گردونواح''میں جو رقومات پھونکی جاتی ہیں اور ہاں یادش بخیر،''منتخب نمایندوں''جن کے خاندان انگریزمنتخب کرکے چھوڑ چکے ہیں، کی تنخواہوں، مراعات، سہولیات اورتعیشات کابل وہ واحد بل ہے جو پنشن ہونے سے بھی پہلے متفقہ طورپر منظورہوجاتے ہیں اوراصل خاصے کی چیزتو ہم بھول گئے وہ اسٹینڈنگ، اسیٹینگ اور سلیپنگ کمیٹیاں۔جن کامقصدصرف ''منتخب نمایندوں''کو عیش کرانا،بلکہ بہتی گنگامیں ہاتھ دھونا یا باغ ''تالا''پر چھوڑنا ہوتا ہے۔
ہمیں یاد ہے ایک مرتبہ ہمارے علاقے کے ایک منتخب نمایندے کے گاؤں کی طرف لوگوں کابہت تیزبہاؤ دیکھا تو ایک شخص سے پوچھا کہ معاملہ کیاہے۔ بولا، منتخب ایم این اے صاحب کو مبارک باد دینے جارہے ہیں، وہ کچھ ''بنا''ہے۔ہم نے سوچا وزیربناہوگا کیوں کہ اس کاتعلق بھی سلیکٹیڈ خاندان سے تھا جو پیدائشی طو رپر وزارت کے لیے کوالی فائی کرتے ہیں۔ بعد میں آنے والوں نے بتایاکہ بڑاجشن تھا، مبارک بادکے لیے آنے والوں کے لیے دیگیں چڑھائی گئی تھیں جن میں آٹھ دس گائے، بھینسوں کی قضا بھی آئی تھی ،بعد میں پتہ چلا کہ نہ وزیر،نہ مشیر بلکہ کسی اسٹینڈنگ کمیٹی کے ممبر بنے ہیں ۔
کچھ عرصے پہلے کسی کام کے لیے ہمیں ایک منتخب نمایندے اورساتھ ہی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین کے دفتر جانا پڑا۔بلڈنگ تو یاد نہیں لیکن پارلیمانی روڈ یا شاہراہ دستور پر تھی ،دفترکیا تھا، ایک طلسم ہوشربا تھا ۔
اوروں پہ اثر کیا ہوا اس ہوشربا کا
بس اتنی خبرہے میراایمان گیاہے
دفترجوبے فائدہ اوربے ضرورت ہائی فائی لگژری فرنیچرتھا، اس کااندازہ ہم نے کافی رعایت دے کربھی چارکروڑ لگایا،کوئی پانچ چھ مختلف ہال کمرے وغیرہ تھے جس میں بلاوجہ دیواروں کے ساتھ اورہرجگہ آٹھ ملی میٹرکے فینسی شیشے بلکہ شیشے کی دیواریں اورپارٹیشن۔ اس شیشے کی قیمت ہمیں معلوم تھی اوراس دفتر میں یقیناً پانچ کروڑ کاتوصرف شیشہ لگاتھا۔اوربھی بہت کچھ سرکاری دفاتراوربنگلوں میں ایسا ہوتاہے جس کے بغیر کوئی مرنہیں جاتا،اگرحکومت کی نگاہ کرم ادھربھی ہوجائے تو چھلنی کے کچھ اورسوراخ بند ہوسکتے ہیں۔