22 کروڑ عوام کا محبوب لیڈر
ملک کے 22 کروڑ عوام مکمل طور پرکسی سیاسی پارٹی سے ہیں نہ کسی بھی لیڈر کو 22 کروڑ عوام کا محبوب لیڈر کہا جاسکتا ہے
ISLAMABAD:
پی ٹی آئی کے رہنما علی محمد خان نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں کہا ہے کہ عمران خان نے آج پھر ثابت کیا ہے کہ وہ ایک اسٹیٹس مین ہیں اور انھوں نے بڑے دل کا مظاہرہ کیا جس طریقے سے 22 کروڑ عوام کے محبوب لیڈر کی حکومت پر رات کے گیارہ بارہ بجے شب خون مارا گیا اور رجیم تبدیلی ہوئی۔
اسی پروگرام میں سینئر صحافی منیب فاروق نے کہا کہ عمران خان ایک پاور فل لیڈر ہیں جن کے پاس حمایت بھی ہے اور عوامی مقبولیت بھی اور جو لوگ ان کے قریب سمجھے جاتے ہیں وہ اپنا کام کر رہے ہیں۔ اب بھی ان کا لاڈلہ اسٹیٹس برقرار ہے اور وہ جس قسم کا خوف ناک ٹرینڈ چلا رہے ہیں اسے روکا بھی نہیں گیا۔
تحریک انصاف کو 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) سے چند لاکھ ووٹ ہی زیادہ ملے تھے جب کہ تمام مخالفین کو پی ٹی آئی سے ڈبل سے بھی زیادہ ووٹ ملے تھے۔ پی ٹی آئی کو جس طرح جتوایا گیا تھا اس کا اعتراف سابق آئی ایس آئی چیف جنرل ظہیر الاسلام کھلے عام کر چکے ہیں اور آر ٹی ایس کو بٹھا کر جس طرح عمران خان کے مدمقابل سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کے ووٹ کم کرا کر پی ٹی آئی کے امیدواروں کو جتوایا گیا تھا وہ کھلا ثبوت تھا کہ عمران خان 22 کروڑ تو کیا دو کروڑ لوگوں کے لیڈر بھی نہیں تھے۔
عمران خان کو وفاق میں اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی بلکہ ملک بھر میں پی ٹی آئی کو اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی نشستیں سب سے زیادہ تھیں مگر بالاتروں نے دیگر چھوٹی جماعتوں کو پی ٹی آئی سے ملا کر اور پنجاب میں (ق) لیگ کو ملوا کر وفاق اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومتیں بنوائی تھیں صرف کے پی کے میں انھیں اکثریت ملی تھی۔ کراچی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی جیتی ہوئی نشستوں کو کم کرا کر پی ٹی آئی امیدوار جس طرح جتوائے گئے تھے اس پر وہ امیدوار ہی نہیں خود عمران خان بھی حیران ہوئے تھے۔
بلوچستان میں اور اندرون سندھ پی ٹی آئی کے جو چند امیدوار کامیاب ہوئے تھے ان کی کامیابی پی ٹی آئی کی مرہون منت نہیں تھی۔ بلکہ کامیاب امیدواروں کا ذاتی ووٹ تھا جو بلے کو ملا تھا۔یہ درست ہے کہ بالاتر ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومتوں سے مایوس لاکھوں افراد نے عمران خان سے اچھے مستقبل اور تبدیلی کے لیے ووٹ دیے تھے۔
سابق دور کی مبینہ کرپشن سے متاثر ہو کر لوگوں نے انھیں 2013 سے زیادہ ووٹ دیے تھے اور ملک بھر میں عمران خان کو کے پی کے کے سوا بھاری مینڈیٹ یا دو تہائی اکثریت نہیں ملی تھی کہ وہ تنہا وفاق اور پنجاب میں حکومت بنا سکتے۔
2008، 2013، 2018 میں پنجاب میں (ن) لیگ کو اپنی کارکردگی، سندھ کے دیہی علاقوں میں عوامی مقبولیت ، پیپلز پارٹی کو ووٹ ملا تھا جب کہ صرف کے پی میں پی ٹی آئی کو پرویز خٹک کی پالیسی، حکومت، کارکردگی اور عمران خان کی وجہ سے 2013 اور 2018 میں ووٹ ملا اور 2013 میں پی ٹی آئی کے پاس اکثریت نہیں تھی اس لیے وہاں جماعت اسلامی اور آفتاب شیر پاؤ سے مل کر حکومت بنائی گئی تھی جس کی اگر مجموعی کارکردگی اچھی اور مثالی ہوتی تو 2018 میں عمران خان ملک بھر میں کلین سوئیپ کرسکتے تھے مگر انھیں بالاتروں کی حمایت کے باوجود وفاق، سندھ و پنجاب میں بھرپور انتخابی مہم چلا کر بھی عمران خان کے پی جیسی کامیابی حاصل نہیں کرسکے تھے۔
اگر کے پی حکومت کی کارکردگی پنجاب و سندھ میں (ن) لیگ اور پی پی جیسی یا ان سے بہتر ہوتی تو انھیں وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے بالاتروں کے فون، جہانگیر ترین کے جہاز اور مجبور اتحادیوں کے ووٹوں کی کبھی ضرورت نہ پڑتی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان صرف تیسرے چھوٹے صوبے کے پی کے ہی میں مقبول تھے اور ملک بھر کے 22 کروڑ عوام کے محبوب لیڈر نہیں تھے۔
ملک کے 22 کروڑ عوام مکمل طور پرکسی سیاسی پارٹی سے ہیں نہ کسی بھی لیڈر کو 22 کروڑ عوام کا محبوب لیڈر کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی دنیا میں کوئی ایک بھی ایسا لیڈر ہے جس پر پوری قوم کو اعتماد ہو۔ عمران خان کو ملک میں غیر متنازعہ لیڈر ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور نہ ہی کسی کو 22 کروڑ عوام کا محبوب لیڈر کہلانے کا حق ہے نہ کسی کو ایسا دعوی کرنا چاہیے جو غلط ہو۔ لیڈروں کی خوشامد بھی سوچ سمجھ اور حقائق کے مطابق ہی کرنی چاہیے اور نہ کوئی سیاسی لیڈر ہزاروں جھوٹ بول کر صادق و امین ہو سکتا ہے۔