جو بچے ہیں سنگ…
وفاقی حکومت میںان کے اتحادی اس مشکل وقت میں نظر نہیں آئے اور نہ ہی وہ ضمنی انتخابات ان کی مدد کو آئے ہیں
ISLAMABAD:
پنجاب میں اتوار کو ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے بیس میں سے پندرہ نشتوں پر کامیابی حاصل کرکے میدان مار لیا ، پی ڈی ایم اور ن لیگ چار سیٹیں حاصل کرسکی جب کہ ایک آزاد امیدوارکامیاب ہوا جس نے بعدازاں مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کردیا ہے۔
پنجاب میں ضمنی انتخابات ان نشستوں پر ہوئے جو تحریک انصاف کے منحرف اراکین کے ڈی سیٹ ہونے کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے خالی قرار دے دی تھیں۔ پی ٹی آئی کے ان ایم پی ایز نے پارٹی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں حمزہ شہباز شریف کو ووٹ دیا تھا ۔
ماضی میں ضمنی انتخابات عموماً حکمران جماعت ہی جیتی رہی ہے ، حالیہ ضمنی الیکشن کے بارے میں بھی عمومی تجزیہ یہی کیا جارہا تھا کہ مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی اکثریت جیت جائے گی تاہم عمران خان اور پی ٹی آئی کی قیادت اور ان کے حامی تجزیہ نگار کہہ رہے تھے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار بھاری اکثریت میں کامیاب ہوں گے جب کہ تجزیہ کارچند ایک نشستیں تحریک انصاف کے حصے میں آنے کی بھی بات کررہے تھے۔
ضمنی انتخابات کے نتائج نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پگ کس کے سر بندھے گی اور مرکز میں پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کا مستقبل بھی کسی حد تک انھی نتائج سے وابستہ تھا۔ کیونکہ پنجاب کی حکمرانی کے بغیر مرکز کی حکمرانی نہ صرف مشکل بلکہ بے اثر ہوتی ہے اور ماضی میں ہم اس کا تجربہ دیکھ چکے ہیں ۔جب شہید بینظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں اور پنجاب میں میاںنواز شریف وزیر اعلیٰ تھے،اس وقت دونوں حکومتوں کے تعلقات کشیدہ رہے جس کی وجہ سے سرکاری امور خاصی حد تک متاثر ہوئے تھے۔
منظور وٹو بھی ہم سب کو اچھی طرح یاد ہیں جنھوں نے صرف آٹھ ووٹوں کے بل بوتے پر پیپلز پارٹی سے پنجاب کی وزرات اعلیٰ چھین لی تھی۔ ن لیگ نے 1997 کے عام انتخابات میں دوتہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور میاں شہباز شریف کے وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے ، بقول پرویز الٰہی شریف خاندان نے انھیں وزیراعلیٰ بنانے کا وعدہ کیا تھا بہرحال مرکز میں میاں نواز شریف نے وزیر اعظم کی کرسی سنبھال لی ۔
اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ وفاق پاکستان کی حکمرانی کا مزہ تب ہی ہے جب آپ کے ہاتھ میں پنجاب کی حکمرانی بھی ہو کیونکہ پنجاب کو منی پاکستان سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی غیر متوقع کامیابی کے بعد جو صورتحال سامنے آئی ہے، اس کے بعدتحریک انصاف پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پگ اپنے اتحادی پرویز الٰہی کے سر پر رکھنے جارہی ہے لیکن جس طرح عمران خان کے بقول کرکٹ میں آخری بال تک کوئی فیصلہ نہیں ہوتا، اسی طرح سیاست بھی اتفاقات اور جوڑ توڑ کا نام ہے، بظاہر کامیابی سامنے نظر آرہی ہوتی ہے لیکن بقول قائم چاند پوری کے، یوں بھی ہو جاتا ہے کہ
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہا تھ سے جب بام رہ گیا
لیکن ہماری دعا ہے کہ کمند ٹوٹنے کی نوبت نہ آئے اور چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بن جائیں۔
مسلم لیگ ن اور اتحادی حیران اورپریشان ہیں کہ ووٹرز نے کیوں پی ٹی آئی کو جتوا دیا ۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کے لیے مزیدپریشانی کے لیے عوام کے ترکش میں ابھی کئی تیر محفوظ ہیں کیونکہ شاید وہ وقت آگیا ہے کہ عوام نے مزید بے وقوف بننے سے انکار کر دیا ہے اور اپنی ترجیحات کا واضح اظہار کر دیا ہے۔
الیکشن میں شکست کی ان گنت تاویلیں ہو سکتی ہیں، امیدواروں کا غلط انتخاب، غیر موثرانتخابی مہم ، سیاسی جماعت کے کارکنوں کی عدم دلچسپی وغیرہ شکست کی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن حالیہ ضمنی انتخابات میں سب سے اہم وجہ جس پر حکمران جماعت بھی متفق نظر آرہی ہے، وہ ہے ہوشربا مہنگائی جس نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے ۔پر ہجوم جلسوں کے باوجود حکمران جماعت کو انھی اقدامات کا خمیازہ انتخابی شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے۔
اس شکست کے بعد ن لیگ میں اب یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ پاکستان کی مقبول جماعت نے تحریک عدم اعتماد میں کامیابی کے بعدعمران خان کے برے طرز حکمرانی کابوجھ اٹھانا کیوں پسند کیا حالانکہ ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف توفوری انتخابات کے حق میں تھے لیکن پھر کیا وجہ ہوئی اور وہ کون سے عوامل تھے کہ ان کی جماعت نے مشکل ترین حالات میں ریاست بچانے کے نئے بیانئے کے تحت اپنی سیاست کو قربان کر دیا ۔
اسی اہم نکتے پراب پارٹی کے اندر بحث شروع ہو چکی ہے اور ہر طرف سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں لیکن مشکل یہ آن پڑی ہے کہ عمران خان کے مطالبے پر اگر فوری انتخابات ہو جاتے ہیں تو موجودہ سیاسی حالات میں ن لیگ کو اس کا بہت زیادہ سیاسی نقصان ہو سکتا ہے البتہ اگر مزید ایک سال حکومت کی جائے اور اس دوران یہ کوشش کی جائے کہ ملک کی معیشت کی درست سمت متعین ہو جائے تو پھر یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ ن لیگ آیندہ انتخابات میں مقابلے کی پوزیشن میں آجائے ۔فی الحال تو سیاسی قربانی ن لیگ کے حصے میں آئی ہے۔
وفاقی حکومت میںان کے اتحادی اس مشکل وقت میں نظر نہیں آئے اور نہ ہی وہ ضمنی انتخابات ان کی مدد کو آئے ہیں البتہ آصف علی زرداری اور ان کے فرزند بلاول بھٹو ن لیگی قیادت سے مشاورت کے لیے لاہور پہنچ چکے ہیں اور شنید یہ ہے کہ اقتدار میں رہنے کا فیصلہ برقرار رکھا جائے گا۔ بقول فیض صاحب
نہ گنوائو ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹا دیا