ایک بڑے انسان کی موت
کہا جاتا ہے کہ ایک عالم کی موت ایک شخص کی نہیں پورے زمانے کی موت ہوتی ہے
کہا جاتا ہے کہ ایک عالم کی موت ایک شخص کی نہیں پورے زمانے کی موت ہوتی ہے۔ عبداللہ صاحب ہمیشہ کے لیے چلے گئے اور ان کے ساتھ ہی سول سروس میں روشن ضمیری اور اصول پسندی کا ایک سنہری باب بند ہوگیا۔
سول سروس کی تین نسلوں میں ان جیسا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ خیبر پختونخواہ کے چیف سیکریٹری سمیت ہر اہم عہدے پر فائز رہے اور ہر جگہ بڑے دیر پا نقش چھوڑے۔ مگر ان کی وجۂ شہرت ان کی افسری یا عہدے نہیں ان کا علمی تبّحراور ان کا فقر تھا، وہ قلندرانہ شان کے مالک تھے۔
عربی اور فارسی میں مہارت تو انھوں نے اپنے گھر ہری پور سے حاصل کرلی تھی، انگریزی کا بہترین مقرّر انھیں پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ نے بنایا۔ 1967میں انھوں نے سی ایس پی کا امتحان پاس کرلیا۔ افسر بن کر انھوں نے میرٹ اور اصول کا پرچم اس طرح بلند کیا کہ پھر کبھی اسے سرنگوں نہیں ہونے دیا۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں بڑائی کے معیار بدل گئے ہیں جو ہمارے قومی زوال کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔ ہم پست ذھنیّت کے لوگ سیرت کے بجائے صورت دیکھتے ہیں اور افراد کو ان کے کردار کے بجائے ان کے سرمائے سے پرکھتے ہیں، اگر بڑائی اور عظمت مال و زر، عہدوں ، فیکٹریوں اور مربعوں کے بجائے اعلیٰ کردار سے حاصل ہوتی ہے تو عبداللہ صاحب بہت بڑے باپ کے بیٹے تھے، ان کے والد صاحب گائوں کی مسجد میں امامت کراتے تھے۔
وہ انتہائی غیرت مندتھے، بچّوں کو رزقِ حلال کھلاتے اور کسی کے آگے کبھی دستِ سوال دراز نہ کرتے۔ ویسے بھی خیبر پختونخواہ کے مسلم علماء، پنجاب اور سندھ کے نیم خواندہ ملّائوں کی طرح غلامانہ اور محکومانہ ذھن کے مالک نہیں، بڑے دبنگ ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ علاقے کے خان (وڈیرے یا چوہدری) نے گائوں کے تمام لوگوں کو بلایا، سب لوگ حاضر ہوگئے مگر امام صاحب نے حاضر ہونے سے انکار کردیا۔ ہر کارے بھیج کر بلایا گیا، ان کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا، جاتے ہی کہنے لگے "خان! میں تمہارا غلام نہیں ہوں، کوئی کام ہو تو میرے پاس آیا کرو، اگر آیندہ مجھے بلایا تو اسی ڈنڈے سے تمہارا سر توڑ دوں گا" خان کا سر تو نہ ٹوٹا مگر چوہدراہٹ پاش پاش ہوگئی۔
بیٹے کو حق گوئی اور بیباکی میراث میں ملی تھی، انھوں نے دوسرے بیوروکریٹوں کے برعکس بڑے سے بڑے عہدے پر رہ کر بھی حق گوئی کی روایت قائم رکھی، کبھی رات کو دن، تاریکی کو روشنی اور زہرکو قند کہنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ وہ علامہ اقبالؒ کی اس شعر کی تصویر تھے۔
؎ ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
عبداللہ صاحب ایسے قلندر اور درویش تھے جن کی درویشی پر حکمرانی اور جن کے فقر پر بادشاہت قربان کی جاسکتی ہے، ؎ نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے۔
مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے نوجوان سی ایس پی افسر بن کر سب سے پہلے اپنی ''کلاس'' تبدیل کرتے ہیں، دولت مند اور سیاسی گھروں میں شادیاں رچاتے ہیں، والد کا حقّہ فراموش کرکے ساغرومینا کے رسیا ہوجاتے ہیں، پرانی بستیوں سے نکل کر غیر قانونی پیسے سے جدید ہائوسنگ سوسائٹیوں میں وسیع وعریض بنگلے تعمیر کراتے ہیں۔ مگر عبداللہ صاحب نے کچھ نہ بدلا، نہ اپنی کلاس، نہ رہائش ، نہ اصول، وہ ان چیزوں سے بے نیاز اور بالاتر تھے۔
ایک بار جب وہ صوبے کے تربیّتی ادارے کے سربراہ تھے تو زیرِ تربیّت (گریڈ 19 کے) افسروں نے ایک بڑے ہوٹل میں عشائیے کا پروگرام بنایا۔ ڈائریکٹر جنرل کو مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہونے کی دعوت دی گئی تو عبداللہ صاحب نے انکار کردیا کہ ''میں اپنے غریب ملک میں ایسی فضول خرچی پسند نہیں کرتا''۔ بیٹا ایک بڑا افسر ہے، بیٹیاں ڈاکٹر ہیں مگر امراء کی کسی کالونی میں شفٹ ہونے کے بجائے وہ آخری عمر تک عام لوگوں کے عام سے محلّے میں رہتے رہے۔
وہ اقبالؒ کے مردِ مومن تھے، اس لیے مشرق کے بے مثل مفکر اور شاعرکی طرح ہمیشہ سادہ اور فقیرانہ زندگی گذارتے رہے۔ بلاشبہ فقر، نمودونمائش اور حکمرانی سے بے نیاز کردیتا ہے اور اس کی نگاہ میں شہنشائیت کی حیثیّت پرِکاہ سے زیادہ نہیں رہتی۔
؎دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسداللھّٰی
قبائلی ایجنسیوں کو ملنے والے فنڈز پولیٹیکل ایجنٹ اور مقامی ملک مل کر کھا جاتے تھے، عبداللہ صاحب پولیٹیکل ایجنٹ بنے تو مَلکوں کی لوٹ مار کے دروازوں پر قفل لگ گئے۔ نتیجتاً اس قماش کے مشران علاقہ چھوڑ گئے۔ صوبۂ سرحد میں افغان مہاجرین کا محکمہ کرپشن کا گڑھ بن گیا تھا، جب عبداللہ صاحب کو اس کا سربراہ مقرّر کیا گیا تو انھوں نے حرام خوری کے تمام در بند کردیے اور افغان مہاجرین کو انصاف کی بنیاد پر امداد دینے کا نظام رائج کردیا۔
سول سروسز اکیڈمی میں گیسٹ اسپیکر کے طور پر آتے تو زیرِ تربیّت افسران کے دل مٹھی میں جکڑ لیتے، ہمیشہ سب سے پاپولر اسپیکر قرار دیے جاتے۔ نوجوان افسروں کی تربیّت اور کردار سازی کے لیے اُن سے بہتر کون ہوسکتا تھا۔ خیبرپختونخواہ کے سب سے بڑے تربیّتی ادارے کے سربراہ بنے اور بلاشبہ سیکڑوں افسروں کی سوچ اور سمت بدل ڈالی۔ لیڈر شپ پر لیکچر دیتے وقت انسانوں کے خالق اور کتابِ حق قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں قیادت کے لیے مطلوبہ خصوصیات بیان کرتے اور سامعین کے دل ودماغ کے بند دروازے کھول دیتے۔ وہ ایک صاحبِ نظر تھے۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں دانائے رازؒ کہہ گئے ہیں :۔
؎ خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
برسوں پہلے جب میں فرنٹیئر کانسٹیبلری شبقدر کا کمان افسر تھا تو ڈی آئی جی اشرف علی صاحب کے ساتھ ان کے پاس حاضر ہوا اور بہت کچھ سمیٹ کر واپس آیا، مجھے عبداللہ صاحب کے الفاظ ابھی تک یاد ہیں کہ ''ہمارے ہاں دیانتدار افسروں میں سے 95% خالق و مالک کے پاس جوابدہی کے خوف کی وجہ سے حرام خوری سے بچے ہوئے ہیں'' ۔ نوکری کے بکھیڑوں میں مختلف شہروں میں پھرتے رہے، اس لیے فیض حاصل کرنے کے مواقع کم ہوگئے۔
بالآخر ساٹھ سال والی سیڑھی سے اتر کر آزادی کے کھلے میدان میں قدم رکھا تو قلم اٹھالیا اور کالم لکھنا شروع کردیے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ صبح کالم پڑھتے ہی عبداللہ صاحب کا فون آتا اور وہ کافی دیر تک حوصلہ افزائی کرتے رہتے۔
پولیس یا دوسری سول سروسز کے نوجوان افسروں سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ وہ اب خود اعتراف کرتے ہیں کہ تمام سروسز بدترین اخلاقی انحطاط کا شکار ہیں اور رزقِ حلال کمانے والوں کی شرح بیس فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پوری قوم میں 'مال بنائو' کی دوڑ لگی ہوئی ہے، وہ قومی راہنماجنھوں نے راہنمائی فراہم کرنی اور راہ دکھانی ہے ان کے اپنے دامن صاف نہیں ہیں۔
دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ سروس کے اندر نوجوان افسروں کو رول ماڈل نظر نہیں آتے اور وہ ان سینئرز کو Idealise کرنا شروع کر دیتے ہیں جو حکمرانوں کے ذاتی ملازم بن کر ان کے سیاسی مقاصد پورے کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں دلکش عہدوں پر تعیّنات ہوتے رہتے ہیں۔ اگر ہم ریاست کے اس اہم ستون کو کرپشن کے گھن سے بچانا چاہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ہماری سول سروس قومی امنگوں اور عوام کی توقعات پر پوری اترے تو پھر عبداللہ صاحب جیسے کچھ اور افسر بھی پیدا کرنے ہونگے۔
نوٹ: پنجاب میں مسلم لیگ ن کی شکست سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ مسلم لیگ کو جنرل الیکشن سے سواسال پہلے انتہائی غیر مقبول عمران خان کو ہٹانے اور اپنی حکومت بنانے کی غلطی ہرگز نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ان کے بقول انھیں ریاست کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے عمران کی بوئی ہوئی فصل کاٹنی پڑی اور سخت اور غیر مقبول فیصلے کرنے پڑے مگر وہ کوئی موثر بیانیہ نہ بناسکے اور عوام کو قائل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔
جس کا انھیں شکست کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑا۔ لوٹوں کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ بھی مسلم لیگ ن کے ورکروں نے دل سے تسلیم نہ کیا اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ الیکشن میں دھاندلی کی کسی فریق نے شکایت نہیں کی اور مسلم لیگ کی قیادت نے شکست تسلیم کرلی ہے جو بہت خوش آیند ہے، سیاست میں یہ کلچر مزید پروان چڑھنا چاہیے۔ عمران خان کو بھی نفرت کی سیاست ترک کرکے مثبت ردّ ِ عمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اگرچہ سپریم کورٹ سمیت تمام متعلقہ اداروں نے واضح کردیا ہے کہ عمران خان کا امریکی سازش والا بیانیہ جھوٹ پر مبنی ہے مگر عوام نے اس کے حق میں رائے دی ہے، اس لیے عوام کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو وزارتِ اعلیٰ سے استعفیٰ دے کر ایک اچھی روایت قائم کرنی چاہیے، مسلم لیگ ن اپنے سابق امیدوار پرویز الٰہی کو سپورٹ کرے، تاکہ پنجاب میں سیاسی استحکام آئے، جس سے ممکن ہے کہ قیمتیں نیچے آئیں اور عوام کی مشکلات میں کچھ کمی آئے۔