PCSIR ملکی معیشت میں معاون ادارہ آخری حصہ

اس وقت PCSIR میں زراعت سے متعلق متعدد شعبے بند ہوگئے ہیں کیونکہ ریٹائرہوجانے والے افرا کی جگہ نئی بھرتیاں نہیں کی گئیں



اسی طرح ملک میں الیکٹرانک مصنوعات، IT، طبی آلات اور زرعی پیداوار میں ملک خود کفیل ہوسکتا ہے۔

زرعی حوالے سے مجھے یاد پڑتا ہے آج سے 30سال پہلے PCSIR کراچی لیب میں ادرک کی کاشت کے کامیاب تجربات ہوئے تھے، بہت کم لوگ شاید یہ بات جانتے ہوں کہ ادرک آج بھی کثیر زر مبادلہ خرچ کرکے مشرق بعید کے ممالک سے درآمد کی جاتی ہے اور ستم در ستم یہ کہ اسے منڈیوں میں محفوظ رکھنے کے لیے مضر صحت کیمیکل کا استعمال کیا جاتا ہے۔

نہ صرف ادرک بلکہ PCSIR-KLC میں اسی زمانہ میں صندل کے درخت کی بھی کامیاب کاشت کرلی گئی تھی۔ یہ درخت جہاں تک میری معلومات ہیں وطن عزیز میں اکلوتا صندل کا درخت تھا، جو کہ انتہائی پیچیدہ مراحل سے گذر کر معرضِ وجود میں آیا تھا۔ مگر 2000 کے بعد PCSIR کراچی لیب کے تعمیراتی جنون نے اسے نگل لیا اور عمارتی ملبہ کے تلے دب کر یہ درخت اس وقت کے صاحبانِ اقتدار کی بے حسی اور عدم توجہی کا نشانہ بن کر راہی ملک عدم ہوگیا۔

اس وقت PCSIR میں زراعت سے متعلق متعدد شعبے بند ہوگئے ہیں کیونکہ ریٹائر ہوجانے والے افرا کی جگہ نئی بھرتیاں نہیں کی گئیں۔ ملک میں سائنسی تحقیق کے شعبہ کی زبوں حالی دیکھ کر نئی نسل نے بنیادی سائنس کے شعبوں میں داخلہ لینا بند کردیا اسی بنا پر پرویز مشرف دور میں حکومت نے طلباء کو بنیادی سائنس کی تعلیم کی طرف راغب کرنے کی غرض سے ایک اسکالر شپ انٹرمیڈیٹ کے طلباء میں متعارف کرائی تھی جس کی رو سے غالباً 50 ٹاپ پوزیشن کے حامل طلباء و طالبات کی غالباً 6-7 ہزار روپے وظیفہ دیا گیا اور ان سے اس بات کا عہد لیا گیا کہ وہ پروفیشنل کالجوں میں داخلہ لینے کے بجائے جامعات میں بنیادی سائنس کی تعلیم حاصل کریں گے۔

نتیجہ اخذ کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ اس اسکالر شپ کے کیا نتائج برآمد ہوئے ہوں گے۔ اگر ملک میں سائنسی تحقیق کے شعبہ فعال ہوتے تو طلبہ کسی رغبت دلائے بغیر بھی بنیادی سائنس کی تعلیم حاصل کرتے جس سے نہ صرف تعلیم یافتہ طبقہ میں بیروزگاری کم ہوتی بلکہ عام آدمی کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے۔

ادھر PCSIR میں جو لوگ سائنسی تحقیق میں دلچسپی رکھتے تھے اور ذہین تھے وہ اپنا مستقبل تاریک دیکھ کر یا تو کسی جامعہ میں چلے گئے یا بیرون ِ ملک سکونت اختیار کرنے کو ہی بہتر سمجھا۔ ایک اہم بات جو میں نے اپنی 40 سالہ سروس کے دوران عوام الناس کو یہ کہتے سنا کہ PCSIR نے اب تک کیا کام کیا ہے، یہ قومی خزانے پر بوجھ ہے۔ جس پر ایک سائنسدان نے زچ ہوکر جوابی سوال کرڈالا کہ آپ PCSIR سے تو پوچھ رہے ہیں کہ اس نے کیا کیا ذرا ملک کے اس ادارہ کا نام بتائیے جس نے کچھ کیا ہو۔

میرا سوال یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ہم یہ پوچھیں PCSIR نے کیا کیا ہے ذرا یہ بتادیں کہ اسے کیا کرنے دیا گیا ہے؟! حالت تو یہ ہے کہ کابینہ میں جب کوئی وزارت باقی نہ بچے اور کسی MNA/ سینیٹر کو وزیر بنانا ضروری ہو تو آخری آپشن کے طور پر وزارت سائنس و ٹیکنالوجی تھما دی جاتی ہے۔ ادارے کا سربراہ با وجود اس کے کہ ایک خود مختار ادارے کا سربراہ ہوتا ہے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے متعلقہ سیکشن آفیسر کے ماتحت کام کرتا ہے۔

آئے دن اسکو فنڈز کی فراہمی کے لیے وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے افسران کی بات ماننا پڑتی ہے۔ جب 2000میں ادارے میں فنڈز کی فراوانی ہوئی تو اپنے حصے کا دعویدار ایک اور ادارہ اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے سامنے آگیا جس کا نام پلاننگ کمیشن ہے۔ جس بناپر PCSIR کو ملنے والے فنڈز اور تشکیل دیے گئے پروجیکٹس میں پلاننگ کمیشن کی جائز اور ناجائز مداخلت کا بھی اثرپڑا۔

جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے 2000 میں PCSIR میں تعمیر کی گئی چند بڑی عمارتیں آج بھی کسی مصرف کے بغیر خالی پڑی ہیں۔ PCSIR کا شعبہء اطلاعات جوکہ کراچی شہر کے مرکزی علاقے صدر میں قائم تھا اور جسکا کرایہ کل سات ہزار ماہانہ تھا اور اسمیں دوبڑے اخبارات جن میں ایک انگریزی اور ایک اردو شامل ہے مفت تھے۔ اسکو خالی کرکے کراچی لیباریٹریز میں منتقل کردیا گیا۔ جس سے اس کی افادیت کا متاثر ہونا یقینی امر تھا۔

ادارے میں ہونے والی تحقیقاتی سرگرمیوں اور دیگر امور کا شعبہ ابلاغ کے ذریعہ تشہیر انتہائی ضروری ہے اگر آج بھی ادارہ کی تحقیقات کو منظر عام پر لایا جاے تو نہ صرف یہ کہ گھریلو صنعت میں ایک انقلاب پیداہوگا بلکہ لوگوں کا روزگارکے ساتھ ساتھ درآمدات پر انحصار بھی کم ہوگا۔

حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر ایک ہنگامی پروگرام کے تحت PCSIR کو ملکی معیشت بہتر بنانے کے لیے استعمال کرے اس مقصد کے لیے جامعات سے فارغ ہونے والے قابل طلبہ کو PCSIR میں مخصوص ضابطہ کے تحت ملازمت فراہم کی جائے۔ تحقیقی شعبہ سے وابستہ افراد کے لیے تنخواہیں اور دیگر مراعات کے حوالے سے ایک نئی پالیسی مرتب کی جائے اس سلسلہ میں ہمسایہ ملک چین کی مثال سامنے رکھ کر پالیسی وضع کی جاسکتی ہے جہاں سائنسدان تحقیقات کو فروخت کرکے ہی اپنی تنخواہ اور ادارے کا خرچہ نکالتے ہیں۔

ہمارے ہاںسرِ دست شاید یہ ممکن نہ ہو مگر اس سے ملتا جلتا کوئی فارمولا وضع کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے نمبر پر یہ کہ انتظامی شعبوں سے وابستہ افراد کی شرائط ملازمت تحقیقاتی سرگرمیوں میں مصروف سائنسدانوں سے مختلف ہو۔

ابھی تک یہ ہوتا چلا آرہا ہے اور آج بھی جاری ہے کہ سائنسدان حضرات انتظامی امور میں مصروف افسروں کے دباؤ میں رہتے ہیں جس سے ہر سائنسدان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ تحقیقی شعبہ کو چھوڑ کر انتظامی شعبہ میں چلا جائے جہاں ترقی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں مزید براں یہ کہ PCSIR بذریعہ تشہیر عام آدمی کو بھی اس بات کی دعوت دے کہ اگر کسی کے پاس کوئی تحقیقاتی منصوبہ ہے تو وہ اسے ادارہ کی مدد سے پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے۔

موجودہ حکومت اولین ترجیح کے طور پر اگر سائنسی تحقیق کے اس ادارے کی جانب توجہ دے تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ملکی معیشت میں نہ صرف سدھار پیدا ہوگا بلکہ ملک اس معاشی گرداب سے باہر نکل جائے گا۔

(راقم ادارے سے 40 سال وابستہ رہاہے اور P.S.O. کے عہدے پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ ادارے کا میڈیا فوکل پرسن برائے کراچی بھی رہا ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔