الیکشن کمیشن کی بے توقیری
ویسے تو کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں، کچھ ہمیں بھی مرنے کا شوق ہے کے مصداق کچھ اپنا بھی قصور ہے
کراچی:
پاکستان میں اگر جمہوریت اور انتخابی سیاست نے آگے چلنا ہے تو کمزور الیکشن کمیشن کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ مضبوط الیکشن کمیشن ہی ملک کو مضبوط جمہوریت اور مضبوط انتخابی نظام دے سکتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم ایک طرف ملک میں مضبوط جمہوریت کے خواہاں تو ہیں لیکن دوسری طرف الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ویسے تو کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں، کچھ ہمیں بھی مرنے کا شوق ہے کے مصداق کچھ اپنا بھی قصور ہے لیکن میں سمجھتا ہوں زیادہ قصور الیکشن کمیشن کا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے بھی کافی کمزوری دکھائی ہے، الیکشن کمیشن کے پاس جو اختیارات موجود ہیں، وہ بھی استعمال کرنے کے لیے تیار نہیںہے، نئے اختیارات کی کیا بات کی جائے۔
الیکشن کمیشن کے پاس اس کی توہین پر وہی اختیارات ہیں جو اعلیٰ عدلیہ کے پاس ہیں۔ لیکن الیکشن کمیشن وہ اختیارات استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔د وسری طرف ہم نے دیکھا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے وہ اختیارات زیادہ موثر طریقے سے استعمال کیے ہیں اور توہین عدالت کے جرم میں سزائیں بھی دیں۔ اس لیے آج سیاستدانوں میںاعلیٰ عدلیہ کی توہین کے حوالے سے ایک ڈراور خوف موجود ہے جب کہ الیکشن کمیشن کو کوئی بھی کسی کھیت کی مولی سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنا تحفظ آئین میں اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج کو دیا گیا ہے، اتنا ہی تحفظ چیف الیکشن کمشنر کو بھی حاصل ہے۔ ایک جج کو نکالنے کے لیے بھی سپریم جیوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیجنے کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ چیف الیکشن کمشنر کو نکالنے کے لیے بھی سپریم جیوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیجنے کی ضرورت ہے۔
نہ جج کو کوئی بیک جنبش قلم نکال سکتا ہے اور نہ ہی چیف الیکشن کمشنر کو کوئی بیک جنبش قلم عہدے سے ہٹا سکتا ہے۔ لیکن چیف الیکشن کمشنر تمام تر آئینی تحفظ اور اختیار ہونے کے باوجود اپنے عزت و وقار کا تحفظ نہیں کر پا رہے ۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
میری رائے میں شاید چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن اپنے اختیارات استعمال کرنے سے اس لیے بھی ہچکچاتے ہیں کہ انھیں ڈر ہے کہ ان کا فیصلہ اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج ہو جائے گا اور اکثر یہی ہوتا ہے کہ حکم امتناعی آ جاتا ہے یا کئی بار ایسا بھی ہوا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا گیا۔
یوں ان کے احکامات کو عدالتی فیصلوں کے ذریعے ختم کرانے کا راستہ کھل گیا۔ ان عوامل نے الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے کام،امیج اور اتھارٹی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ایک رائے بن گئی ہے کہ الیکشن کمیشن کمزور ادارہ ہے اور اس کا سربراہ بھی اقدر بے اختیار ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
سیاستدانوں میں یہ سوچ پختہ ہو چکی ہے کہ الیکشن کمیشن کے ہر حکم اور فیصلے کو عدلیہ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور فوری حکم امنتاعی لیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اس سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں مانتاہوں کہ الیکشن کمیشن میں بھی کمزوریاں ہیں۔ لیکن بعض عدالتی فیصلوں نے الیکشن کمیشن کے دل میں ایک خوف بٹھا دیا ہے کہ ان کا حکم چیلنج ہو کر الٹ جائے گا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
میرا خیال ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کو بہت ہی سنگین آئینی خلاف ورزی پر ہی الیکشن کمیشن کے کام اور فیصلوںکے خلاف اپیل کو سننا چاہیے۔ یہ جو معمولی معمولی واقعات پر سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کے خلاف درخواست لے کر پہنچ جاتی ہیں 'اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن ماتحت عدلیہ سے بھی کم تر حیثیت کا مالک ہے۔ اس تاثر اور صورتحال کی وجہ الیکشن کمیشن کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
اس ساری صورتحال کے باوجود یہ کہا جاتا ہے کہ جو اپنی عزت کی خود حفاظت نہیں کرتا ،اس کی کوئی عزت نہیں کرتا۔ الیکشن کمیشن کی بے جا نرمی اور محتاط پالیسی نے بھی ان کے لیے مشکلات پیدا کررکھی ہیں ۔ ایک جمہوری ملک میں کسی بھی سیاسی جماعت کے لیڈر کو الیکشن کمیشن اور بالخصوص چیف الیکشن کمشنر کے خلاف بے بنیاد اور بلا ثبوت الزامات لگانے اور پریس کانفرنس اور جلسوں میں برا بھلا کہنے کی کیسے اجازت ہو سکتی ہے۔
ایسی صورت میں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کو توہین عدالت کے اپنے اختیارات استعمال کرنے چاہیے، انھیں سزائیں سنانے چاہئیں۔ جب ایک دو لوگوں کو سزائیں ہوںگی تو باقی سب خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔
یہ میڈیا میں ایک وضاحتی بیان نہ تو الیکشن کمیشن کی عزت اور وقار کو بحال کرتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی وضاحت ہوتی ہے۔ وضاحتی بیان بھی آپ کی بے بسی کی علامت ہے۔ قانون نے آپ کو شو کاز نوٹس دینے کا اختیار دیا ہے۔ ایسے میں یہ وضاحتی بیان کی کیا منطق ہے۔ ماضی میں بھی الیکشن کمیشن نے شو کاز نوٹس جاری کیے ہیں ۔ لیکن بعد میں نرمی دکھاتے ہوئے معاف کر دیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں۔ اس نرمی کا فائدہ کم نقصان زیاد ہواہے۔ ایک رائے بن گئی ہے کہ کوئی بات نہیں کچھ نہیں ہوتا۔
چیف الیکشن کمیشن کے خلاف اگر کسی سیاسی لیڈر یا جماعت کے پاس جانبداری ، دھاندلی اور بدعنوانی کے کوئی ثبوت موجود ہیں تو سپریم جیوڈیشل کونسل کا فورم موجود ہے، اسے اس فورم سے رجوع کرنا چاہیے، جلسوں اورپریس کانفرنس میں میڈیا ٹرائل کی کیسے اجازت دی جا سکتی ہے۔
عمران خان کے پاس اگر چیف الیکشن کمشنر کے خلاف کوئی ثبوت ہیں تو انھیں چاہیے وہ سپریم جیوڈیشل کونسل میں ریفرنس فائل کریں۔ اس طرح تقاریر کے ذریعے انھیں دبائو میں لانے اور ان کے میڈیا ٹرائل کی کسی کو اجازت دی جا سکتی ہے۔ سیاستدانوں کا کیا ہے، وہ اپنے آپ کو بچانے یا اقتدار میں آنے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں، انھیں مان مانی اورکسی کے میڈیا ٹرائیل کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے۔
ویسے تو اعلیٰ عدلیہ کو خود اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ لیکن مجھے امید ہے جب چیف الیکشن کمشنر شوکاز جاری کریں گے تو اعلیٰ عدلیہ ان کے تحفظ کے لیے کھڑی ہوگی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کسی بھی فریق کو چاہے، وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، یہ اجازت دے دے کہ آپ کا جتنا دل چاہتا ہے، آپ الیکشن کمیشن کی بے توقیری کریں۔ اس لیے مجھے چیف الیکشن کمیشن کی زیادہ کمزوری لگتی ہے۔
تحریک انصاف اور بالخصوص عمران خان کی جانب سے چیف الیکشن کمیشن کے خلاف جو محاذ کھولا گیا ہے، کیا اس کی ایک وجہ یہ نہیں ہے کہ چیف الیکشن کشنر کے پاس عمران خان اور تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کا کیس موجود ہے۔
یہ کیسے اجازت دی جا سکتی ہے کہ جس عدالت میں آپ کا کیس زیر سماعت ہے،آپ میڈیا اور سیاسی جلسوں میں اس کے خلاف محاذ کھول دیں۔ کیا یہ عدالت کو دبائو میں لانے کی کھلم کھلا کوشش نہیںتو اور کیا ہے۔ حالانکہ عدالت کا جج بھی آپ نے ہی لگایا ہو۔ آپ کا میڈیا میں ہی بیان موجود ہو کہ اب بہترین جج آگیا ہے لہٰذا اگر اب میرا فارن فنڈنگ کا کیس سن لیاجائے تومجھے پورا اعتماد ہے اور اب جب کیس کا فیصلہ آنے کا وقت آجائے تو آپ جج کے خلاف محاذ کھول دیں۔
کیا پاکستان کے آئین وقانون میں ایک دفعہ جج پر بھر پور اعتماد کا اظہار کرنے کے بعد دوران سماعت یا سماعت مکمل ہونے کے بعد جج پر عدم اعتماد کی اجازت ہے۔ آپ ٹرائل کے شروع میں کر سکتے ہیں لیکن ایک دفعہ اعتماد کا اظہار کر کے اسے واپس نہیں لے سکتے، یہ قانون اور آئین کی بنیادی روح کی خلاف ورزی ہے۔
آج جہاں پاکستان کے نظام انصاف میں بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے، وہاں الیکشن کمیشن کے کام اور اختیارات میں کم سے کم مداخلت کی ضرورت ہے ، تب ہی الیکشن کمیشن سیاستدانوں کی زبان درازی اور الیکشن رولز کی خلاف ورزی کو روک سکتا ہے۔ بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے، وہاں کسی سیاسی جماعت کے قائد یا سیاستدان کی جرات نہیں ہے کہ وہ الیکشن کمیشن پر بھرے جلسوں، پریس کانفرنسوں میں بدعنوانی، جانبداری اور دھاندلی کا الزام عائد کرسکے چہ جائیکہ وہ کہے کہ الیکشن کمیشن مستعفی ہوجائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے خلاف صرف سپریم کورٹ میں جانے کی آپشن ہونی چاہیے، الیکشن کمیشن کے حکم کو حرف آخر کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ کو بھی تب مداخلت کرناچاہیے جب آئین سے انحراف ہو جائے۔ جس طرح پارلیمنٹ کی اس کارروائی میں مداخلت کا اختیار ہے۔
جہاں آئین کی خلاف ورزی ہو جائے۔ جس طرح صادق سنجرانی کے انتخاب میں دھاندلی کا کیس عدلیہ نے نہیں سنا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن کی کاروائی کو بھی تحفظ ہونا چاہیے تاکہ سیاسی جماعتیں اور انتخابی امیدواران الیکشن کا احترام شروع کردیں۔