سیاسی بے یقینی اور کمزور معیشت

یہ ایک حقیقت ہے کہ متعدد ترقی پذیر ممالک میں ہوش ربا مہنگائی ہے، لیکن پاکستان میں صورت حال کچھ زیادہ ہی ابتر ہے


Editorial July 21, 2022
یہ ایک حقیقت ہے کہ متعدد ترقی پذیر ممالک میں ہوش ربا مہنگائی ہے، لیکن پاکستان میں صورت حال کچھ زیادہ ہی ابتر ہے (فوٹو : فائل)

پنجاب میں ضمنی الیکشن کے نتائج جہاں ملک کی سیاست پر اثرانداز ہو رہے ، وہیں پہلے ہی سے لڑکھڑاتی ہوئی معیشت پر بھی اثرانداز ہورہے ہیں، اس کا ایک اشارہ بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی ''فچ'' کا پاکستان کے مستقبل کی آؤٹ لک ریٹنگ مستحکم سے منفی کردینا ہے۔

اس اقدام کا فوری اثر اسٹاک مارکیٹ اور کرنسی مارکیٹ پر پڑا، سیاسی غیر یقینی بڑھنے اور پاکستان کی آوٹ لک ریٹنگ کا مستحکم سے منفی ہونے سے سرمایہ کار گبھراہٹ کا شکار ہوئے اور افواہوں کا بازار گرم ہوگیا ، یوں ڈالر کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگیا جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا جو اگلے روز بھی جاری رہا، اس کے ساتھ ہی اسٹاک مارکیٹ میں بھی بدترین مندی رہی۔ اسٹیٹ بینک نے ملکی زرمبادلہ کے گھٹتے ہوئے ذخائر کے پیش نظر ڈالر کا انخلا روکنے کے لیے اقدامات اٹھائے لیکن ڈیمانڈ میں کمی نہ آئی اور ڈالر کی خریداری نہ رک سکی۔

ضمنی انتخابات کے نتائج نے سیاسی افق پر غیریقینی کی فضا بڑھا دی ہے اور اس کا براہ راست اثر معیشت کے ان شعبوں پر پڑا ہے جو فوری ادائیگیوں کے دباؤ میں تھے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈالر کی قدر میں اضافے کی ایک وجہ افغانستان بھی ہے جس کی درآمدی ضروریات کا بوجھ بھی پاکستان کے سر ہے کیونکہ پاکستان میں اشیائے خورونوش درآمد کرکے افغانستان کو روپے کے عوض برآمد کی جا رہی ہیں۔

ملک کی خارجہ اور معاشی سمت پہلے ہی واضح نہیں تھی ، عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات بھی خراب تھے، موجودہ حکومت نے خارجہ اور معاشی محاذ پر واضح پالیسی لینے کی کوشش شروع اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ بھی اعتماد کی بحالی پر کام شروع کیا ہی تھا کہ ملک پہلے سے بھی زیادہ سیاسی غیریقینی کی لپیٹ میں آگیا، ان غیر یقینی سیاسی حالات، خراب معاشی پس منظر اور ڈالر کی اونچی اڑان کے باعث پاکستان انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہوچکا ہے۔

ادھر بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ (FITCH) نے پاکستان کا آؤٹ لک مستحکم سے منفی کر دیا ہے۔ فچ کی جانب سے جو رپورٹ جاری کی گئی ہے ، اس میں بڑھتے سیاسی عدم استحکام، کمزور حکومتی اتحاد اور جلد الیکشن کی افواہوںکو آؤٹ لک بدلنے کی بنیادی وجوہات قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق منفی ریٹنگ پاکستان کی سال 2022 کے آغاز سے بگڑتی لیکوڈیٹی اور بیرونی فنڈنگ صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔

آئی ایم ایف معاہدے پر عمل درآمد اور جون2023 کے بعد فنڈنگ کے حصول پرخدشات ہیں جب کہ زرمبادلہ ذخائر پر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے باعث دباؤ ہے۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال2022ء میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ17ارب ڈالر رہا اور آئندہ مالی سال یہ خسارہ 10ارب ڈالر رہنے کے اندازے ہیں۔ مہنگے ایندھن کے سبب مہنگائی کی شرح بلند رہے گی۔

ملک میں ایک طویل عرصے سے سیاسی عدم استحکام چلا آرہا ہے ، ریاست اور حکومت عالمی سیاست کے تناظر اور داخلی سطح پر اپنی پوزیشن اور رول کا واضح تعین کرنے میں ناکام رہی ہے۔

امریکا اور یورپی یونین کے حوالے سے مبہم اور غیرواضح خارجہ پالیسی، سعودی عرب اور قطر کے حوالے سے بھی خارجہ پالیسی میں استحکام کا نہ ہونا، چائنہ اور سی پیک پر بھی مبہم پالیسی، افغانستان کی طالبان حکومت کی غیرضروری حمایت جاری رکھنا، عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات طے کرنے میں لیت ولعل کا مظاہرہ کرنا، ان عوامل نے پاکستان کو عالمی تنہائی کا شکار کیا اور ملک کی معیشت کو بحران میں مبتلا کردیا، اب ایک بارپھر سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگیا ہے جس کے منفی اثرات براہ راست معیشت پر منتقل ہورہے ہیں، موجودہ حکومت ایک سیاسی بحران سے سنبھلتی ہے تو دوسرے بحران میں پھنس جاتی ہے۔

کسی بھی ملک میں معاشی ترقی کو وسیع تر سیاسی، سماجی، ثقافتی اور ادارہ جاتی صورتحال سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ معاشی ترقی کے لیے سب سے پہلے داخلی سطح پرسازگار ماحول ضروری ہوتا ہے اور اس کے لیے سیاسی استحکام کا ہونا لازم ہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک پولیٹیکل ٹرمائل کے ہوتے ہوئے معاشی ترقی نہیں کرسکتا۔ سری لنکا کی تازہ ترین مثال ہمارے سامنے ہے جب کہ افریقہ کے کئی ملک اندرونی سیاسی بحران اور غیریقینی کا شکار ہوکر انارکی کا شکار ہوچکے ہیں۔

پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کسی طرح بھی تسلی بخش قرار نہیں دی جاسکتی ہے، اگر یہی حالات رہے تو معیشت وطن عزیز کے 20 لاکھ نوجوان افراد کو سالانہ ملازمت کی منڈی میں داخل ہونے کے لیے روزگار کے مناسب مواقع پیش نہیں کرسکے گی، جس سے ملک کے لیے بے شمار معاشرتی ، ثقافتی ، معاشی اور سلامتی کے چیلنجز پیدا ہوسکتے ہیں۔

یہ غیر یقینی صورتحال کاروباری سرگرمیوں میں کمی اور نئے کاروباری منصوبوں میں سرمایہ کاری روکنے کا باعث بن سکتی ہے ، اس کا نتیجہ انارکی کی صورت میں برآمد ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ معاشی زوال ملک میں بے روزگاری، بدامنی اور انتشار پیدا کرتا ہے اور یہ عوامل یکجا ہوکر وہ عفریت بنتا ہے جو حکومتیں ہی نہیں ریاستیں بھی نگل جاتا ہے۔

ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے اثرات براہ راست عوام پر منتقل ہورہے ہیں اور ملک میں مہنگائی انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ جملہ زبان زد عام ہے کہ مہنگائی اپنی تمام حدیں پار کر چکی ہے۔ نجی محفل ہو یا اجتماعی مجلس ہر جگہ یہی موضوع زیر بحث رہتا ہے کہ اشیائے خورو نوش اور دیگر مصنوعات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ متعدد ترقی پذیر ممالک میں ہوش ربا مہنگائی ہے، لیکن پاکستان میں صورت حال کچھ زیادہ ہی ابتر ہے۔ یہاں مہنگائی کو قابوکرنے کا نہ کوئی معیار ہے اور نہ ہی کوئی ایسا موثر طریقہ ، جس سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کو لگام دی جائے اور مہنگائی کے جن کو واپس بوتل میں بند کیا جائے ، مہنگائی کی نیت سے غیر ضروری اور نامناسب نفع اخلاقی طور پر درست ہے نہ شرعی ہی طور پر۔ اب تو عام آدمی کے لیے موٹرسائیکل کی ٹنکی فل کروانا بھی سہل نہیں رہا ۔ اس وقت سب سے بڑا چیلنج جو موجودہ اتحادی حکومت کو درپیش ہے کہ وہ کس طرح ملک کو نازک ترین معاشی صورتحال سے نکال کر معیشت کو مستحکم کرے ۔

ملک میں جب بھی ڈالرز کی کمی ہوتی ہے ہم ہمیشہ مشکلات میں گھر جاتے ہیں اور پچھلے 5 سال کے دوران ہمارے تجارتی خسارے دگنا ہو گئے ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور تیل کی ملکی درآمدات میں کمی کے باوجود، بجائے بڑھنے کے ہماری برآمدات میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔

یہ ہماری خراب کارکردگی کی انتہا ہے۔ اس مسئلہ کی ایک بڑی وجہ ہمارے پاس برآمدات کے لیے کوئی واضح حکمت عملی نہیں جسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی درآمدات اور برآمدات پر توجہ دینی پڑے گی اور غیر ضروری درآمدات میں کمی لانا ہوگی۔

برآمدات نہ بڑھنے کی وجہ ناقص حکمت عملی ہے جسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں زرعی اجناس، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے شعبہ میں اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا اور نئے میدان تلاش کرنے پڑیں گے تا کہ برآمدات میں اضافہ ہو سکے۔ حالیہ برآمدات میں مزید قدریں شامل کرنا پڑیں گی تاکہ ہمیں عالمی مارکیٹ میں اپنی برآمدات سے ہاتھ نہ دھونا پڑے۔ ٹیکسٹائل ہماری کل برآمدات کا قریباً 60 فی صد ہے۔ ہماری کپاس کی 10لاکھ بیلوں کی قیمت 1 ارب ڈالر ہے جب کہ چائنہ اتنی ہی بیلوں کی قیمت 4ارب ڈالر وصول کرتا ہے۔

ایسا اس لیے ہے کہ ان کی مصنوعات میں اضافی قدر شامل ہوتی ہے،اگر ہم 10لاکھ بیلوں کی قیمت 4 ارب ڈالر مقرر کریں تو ہم اضافی قدر کی مد میں 45 ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں باہر سے سرمایہ نہیں آتا اور ہم عالمی مارکیٹ سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی قیادت اور ادارہ جاتی اشرافیہ حالات کی سنگینی اور نزاکت کو سمجھے،رولنگ کلاس میں ذہانت، زیرکی، تدبر، دانش اور معاملہ فہمی انتہائی نچلی سطح پر جاچکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا کی نئی جیواسٹریٹیجک اور جیو پولیٹیکل صورتحال میں اپنی پوزیشن اور مقام کا ادراک کرنے سے قاصر ہے۔

پاکستان کی سیاسی قیادت اور ادارہ جاتی اشرافیہ سرد جنگ کے دوران پروان چڑھنے والے سیاسی اور مذہبی نظریات میں الجھی ہوئی ہے اور انھی خیالات و نظریات کی بنیاد پر معاشی اور خارجہ امور چلانے کی کوشش کررہی ہے ۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ملکی معاشی پالیسیوں اور ایک اصلاحاتی ایجنڈے پر اتفاق کرنا ہوگا جب کہ ملکی ترقی کے لیے جرات مندانہ و جارحانہ اقدامات وقت کی ضرورت بن چکے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں