طالبان کا مثالی حکمران پہلا حصہ

افغان جہاد کی کامیابی صرف افغانوں کا فخر نہیں بلکہ دنیا کے سارے مسلمانوں کا فخر ہے


[email protected]

آج میں شمال مغربی ہمسایہ ملک افغانستان پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں، میں اور مجھ جیسے نظریات و فکر کے حامل لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ کریم نے ہمارے پڑوس میں ایک ایسی ریاست قائم کردی جس کا اقتدار ان لوگوں کو بخشا جنھوں نے وہاں عملی طور پر اللہ کا دین نافذ کردیا۔

افغانستان جہاں طویل جنگ و جدل کے بعد امارات اسلامیہ قائم ہوئی ہے تاہم ابھی تک پاکستان سمیت دنیا کے کسی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا، لیکن انھیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ بس ملک میں اسلامی نظام نافذ کیے ہوئے ہیں اور اپنے حال میں شاد و آباد ہیں۔

گزشتہ دنوں کابل میں ایک جرگے کا انعقاد ہوا تھا، اس میں افغانستان بھر کے علماء، شیوخ، مجاہدین اور حکومتی نمائندوں نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی۔ اس اجتماع میں امارات اسلامیہ افغانستان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کا فکر انگیز بیان ہوا۔ افغان طالبان انھیں امیرالمومنین کہتے ہیں۔ پاکستان میں طالبان کے مذہبی نظریات کے حامل طبقے بھی انھیں امیرالمومنین سمجھتے اور کہتے ہیں۔ میں آج لمبی بات نہیں کروں گا، بس امیر المومنین کے بیان کے اقتباسات آپ تک پہنچاؤں گا۔ ملاحظہ فرمائیے۔

"اجتماع میں شریک علماء کرام صاحب قدر عومی مشیران اور امارتِ اسلامیہ کے محترم مسؤلین!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ!

پہلے آپ سب کو امارتِ اسلامیہ کی فتح عظیم پر مبارکباد دیتا ہوں۔

آپ سب کو مبارک ہو۔

قدرمن لوگو!

اس فتح کی، جس کے نتیجے میں ہمارا ملک آزاد اور اسلامی نظام حاکم ہوا، سب کو مبارکباد دیتا ہوں۔ افغان جہاد کی کامیابی ساری امت کے لیے بالعموم اور افغان عوام کے لیے بالخصوص عظیم نعمت ہے۔

اللہ پاک سب کی قربانیاں قبول فرمائے۔ جو مجاہدین اور عوام جہاد میں شہید ہوئے ہیں اللہ پاک ان سب کی شہادتیں قبول فرمائے اسی طرح سب مجاہدین کے غزاء (جہاد) کو اللہ پاک قبول فرمائے۔

ان بیس برسوں میں جس نے بھی قربانیاں دیں اور تھکاوٹیں برداشت کیں اللہ پاک قبول فرمائے۔

شہداء کے گھرانوں اور یتیموں کی اچھی کفالت کے لیے امید رکھتا ہوں۔ جس نے بھی ہمارے جہاد کی قولی، عملی و اخلاقی طور پر حمایت کی ہو اللہ قبول فرمائے۔ جہاد میں بیوہ ہونے والی بہنوں، یتیموں اور معذور ہونے والے مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے اجر مانگتا ہوں۔ اللہ پاک ہمیں ان کی خدمت کی توفیق دے۔ اللہ پاک انھیں اجر عطا فرمائے جنھوں نے موجودہ زلزلہ زدگان کے ساتھ معاونت کی۔ ساری دنیا سے جس نے بھی ہمارے جہاد کی حمایت کی ہے قول عمل و دعا یا ہر طریقے سے حمایت کی ہے، اللہ پاک انھیں جہاد کا کامل اجر عطا فرمائے۔ ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

محترم بھائیو!

افغان جہاد کی کامیابی صرف افغانوں کا فخر نہیں بلکہ دنیا کے سارے مسلمانوں کا فخر ہے۔دنیا کے سارے معتدلین لوگ امارت اسلامیہ کی فتح پر خوش ہیں۔ افغان جہاد کی کامیابی و فتح صرف افغانوں کی نہیں بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں کی فتح اور خوشی ہے۔

دنیا کے مسلمان اس کو سمجھتے ہیں کہ اسلام میں امن و سلامتی کا پیغام موجود ہے اور ایمان کا کمال اس پر آتا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ہر قسم کے شر سے محفوظ ہو۔ اسلام کی ہر مسلمان کو یہ نصیحت ہے کہ دوسرا مسلمان اس کے ہاتھ اور زبان کے شر سے محفوظ ہوگا۔ دنیا کے مسلمان امن و سلامتی کے شعار پر خوش ہوتے ہیں اور انھیں پسند کرتے ہیں جو اس شعار پر عمل کرے اگرچہ بظاہر جہاد اپنے ساتھ تخریب رکھتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں امن و سلامتی آتی ہے۔

اب دنیا کے مسلمان امن و سلامتی کے شعار کے عملی نمونے کے منتظر ہیں۔ امریکی حملے کے وقت کسی کو اللہ کی راہ کی طرف دعوت نہیں دی جا سکتی تھی لیکن اب اللہ تعالیٰ نے جہاد کامیاب کیا تو دعوت الی اللہ آزاد ہو گیا۔ کفار کی ہم سے جنگ زمین و مال پہ نہیں تھی۔ ہماری جنگ عقیدہ و نظریہ کی جنگ تھی، یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی یہ قیامت تک جاری رہے گی چند برس پہلے (افغانستان میں) کوئی جہاد و مجاہد کا نام نہیں لے سکتا تھا۔

یہ جہاد کی برکت تھی کہ ملک (افغانستان) آزاد ہوا اور سب کچھ ہماری مرضی پہ ہے۔ ہمیں ایک دوسری قسم کے تقابل کا سامنا ہے کہ "دوسرے ہم سے مطالبات کی تطبیق چاہتے ہیں جب کہ ہم اپنے اہداف کے تعاقب میں ہیں"۔ ہمارے ساتھ نصرت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور ہمارا مطلوب صرف اللہ کی رضا ہے۔

قطر میں بات چیت نتیجے کے قریب ہوئی تو مجھے اس بات کی فکر تھی کہ کس طرح پھر اس کے کٹ پتلی غلاموں کے ساتھ جنگ کروں گا؟ اس حال میں کہ یہ اسلامی نظام کے تحکیم کی مخالفت کریں گے۔ ہماری کسی بھی وقت ان افغانوں کے ساتھ جنگ مقصود نہ تھی جو کافروں کے دوست تھے۔

ان کے ساتھ جنگ اس وجہ سے تھی کہ انھوں نے اپنے آپ کو غیروں کے لیے ڈھال بنایا تھا اگر ہماری کارروائیوں میں افغان مارے گئے ہیں اگرچہ وہ حملہ آوروں کے شانہ بشانہ کھڑے تھے پھر بھی انھیں مارنا ہمارا ہدف نہیں تھا۔ ہم ہمیشہ ان سے کہتے رہے کہ آئیں ہتھیار زمین پر رکھ دیں اور دین و ملک کے مقابلہ میں غیروں کی دوستی چھوڑ دیں۔ میں اس پر یقینی عقیدہ رکھتا ہوں کہ مجاہدین صرف اور صرف اللہ کے لیے جہاد کرتے ہیں کوئی دوسرا مقصد و ہدف نہیں رکھتے۔

اگر مجھ پہ یہ ثابت ہو گیا ہوتا کہ امارت اسلامیہ کے مجاہدین مخلصانہ جہاد نہیں کرتے تو میں اللہ کی قسم ضرور ایسی جماعت کی دوستی کرتا جو واقعتاً مخلصین مجاہدین ہوتے جس طرح عام مسلمانوں کے لیے امن ضروری ہے اسی طرح حکومت کے بدن کے لیے امن ضروری ہے تاکہ فساد، رشوت، خود غرضی، جبر، قوم پرستی اور غیر مستحق متعلقین کو نوازنا ختم ہو۔

اگر یہ مفاسد ختم نہ ہوں تو یہ مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے بلکہ چند اشخاص کے فائدے کی حکومت ہو گی۔ ان اہداف کے لیے ضروری ہے کہ مسؤلین (عہدہ دار) اپنی شخصی خواہشات کو چھوڑ دیں گے اپنے آپ میں شریعت لائیں گے اپنے گھر، ادارہ اور ساری زندگی میں شریعت لائیں گے۔ اسلامی نظام میں اصل یہ ہے کہ اپنی خواہشات کو چھوڑ دو گے اور اپنے آپ کو شریعت پہ برابر کروگے۔ اگر تم اپنے آپ کو شریعت کے تابع نہیں کرو گے تو آپ کا یہ دعویٰ جھوٹ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو شریعت کے تابع کرتا ہوں۔ اگر ایک نظام میں خواہشات سامنے آئیں تو امن جاتا ہے۔

پچھلے نظام میں خواہشات اصول پر مقدم تھیں تو امن بھی نہیں تھا۔ اب جب خواہشات نہیں ہیں تو امن ہے۔ اگر خواہشات مقدم ہوگئیں تو پھر امن جاتا ہے۔ اسلامی شریعت تمام اقدار کے تحفظ کی ضامن ہے اگر شریعت ہو تو امن، آزادی اور اسلامی نظام سب کو دوام ملے گا اور اللہ تعالیٰ برکت ڈالیں گے۔ شرعی نظام دو جماعتوں سے آتا ہے ایک حاکم اور دوسرے علماء کرام۔ اگر علماء مسؤلین (عہدہ داروں) کی خیر کی طرف رہنمائی نہیں کریں گے اور انھیں نصیحت نہیں کریں گے یا پھر حاکموں نے اپنے دروازے علماء پر بند کر دیے اور ان سے اپنے آپ کو مستغنی قرار دیا تو پھر اسلامی نظام نہیں بنتا۔ جہاد اور جنگ کا دور حکومت داری سے جدا ہے۔

مجاہدین (طالبان) نے خوب جرأت سے جہاد کیا اور میدان کو خوب بہادری سے جیتا، شرعی نظام کے لیے قربانیاں دیں لیکن شریعت نافذ کرنا طالب و مجاہد کا کام نہیں۔ شریعت نافذ کرنا علماء کا کام ہے۔ عدالتیں اسلامی نظام کی بقاء کا راز ہیں، ظلم کے ساتھ کوئی بھی حکومت دوام نہیں کرتی۔ اگر مجھے اپنا شرعی امیر کہتے ہو تو اطاعت بھی کروگے۔ میں نام کا سیاسی رہنما یا انتخابات کے ذریعہ آیا ہوا رئیس جمہور نہیں علماء ہمیں راستہ دکھائینگے اور ہم ان کا اجرائی لشکر ہیں۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں