مداخلت سے پاک ضمنی الیکشن
آج سوشل میڈیا پر بھی جو پراپیگنڈا نظر آتا ہے اس کی بھی عمر زیادہ نہیں ہے۔ وہ بھی اپنی موت خود ہی مر جائے گا
NEW DELHI:
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا تھا کہ پاک فوج نیوٹرل نہیں A Political ہے۔
میں نہیں سمجھتا اس وقت کسی کو اس اصطلاح کی سمجھ بھی آئی ہو گی بلکہ اکثر صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ چونکہ عمران خان نے لفظ نیوٹرل کو لے کر بہت تنقید کی ہے، اس لیے لفظ A Politicalاستعمال کیا گیا ہے۔ تا ہم میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات نے A Political ہونے کا مطلب سمجھا دیا ہے، یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس کے فوائد زیادہ ہوئے یا نقصانات زیادہ ہوئے ہیں۔
عمران خان نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ وہ اپنے دور اقتدار میں اپنی حکومت کو چلانے اور سیاسی مینجمنٹ کے لیے اداروں کو استعمال کرتے رہے ہیں اسی لیے اتحادیوں کے رحم وکرم پر کھڑی عمران خان کی حکومت مضبوط لگتی تھی جب کہ آج اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی شہباز شریف کی حکومت ایک کمزور حکومت لگتی ہے۔ یہ بھی قدرت کی عجب ستم ظریقی ہے کہ پہلے اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کا بھی براہ راست فائدہ عمران خان ہی کو ہو رہا تھا اور آج کی پالیسی کا بھی عمران خان کو ہی فائدہ ہو رہا ہے۔تب ان کا اقتدار مضبوط تھا، آج ان کی اپوزیشن مضبوط ہے۔
پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کی اصطلاحات استعمال کر کے عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو براہ راست سیاست میں گھسیٹنے کی پوری کوشش کی۔ شائد ان کو خود بھی یقین نہیں تھا کہ وہ پنجاب کے ضمنی الیکشن جیت سکتے ہیں۔ اس لیے وہ تو اپنی ہار کے لیے وہ جواز تلاش کر رہے تھے۔ وہ ایک ماحول بنا رہے تھے کہ اگر وہ ہار جائیں، جس کا انھیں قوی یقین تھا تو وہ کہہ سکیں کہ انھیں تو اسٹیبلشمنٹ نے ہروایا ہے۔
وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ ایسا ماحول بنے کہ میڈیا اور لوگ کہیں کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں سے ہار گئے ہیں، اس لیے وہ یہ تاثر بنارہے تھے کہ انھیں ہرایا گیا ہے، جیسے وہ یہ تاثر بنانے میں بھی کسی حد تک کامیاب ہوئے ہیں کہ ان کی حکومت کے جانے میں بھی غیرملکی سازش کارفرما ہے۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے ثابت کیا ہے کہ مسٹر ایکس اور کسی مسٹر وائی کی اصطلاح بھی نفسیاتی جنگ کا حصہ تھی اور ایسے کرداروں کا وجود ہی نہیں تھا۔ یہ فرضی کردار تھے جنھیں سیاسی ضرورت کے تحت پیدا کیا گیا تھاتاکہ بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکے۔
تب بھی سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے تھی کہ عمران خان ایک طرف تو اپنی ہار کی وجہ بنا رہے ہیںاوردوسری طرف وہ اداروں کو دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان کی مسٹرایکس اور مسٹر وائی کی مہم کی وجہ سے یہ تاثر بھی بنا ہے جیسے عمران خان نے مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کو ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود شکست دے دی ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں نے بھی اس تاثر کو فالو کیا ہے۔
آج کی حکومت کو بھی گلہ ہے کہ اس کی ایسے مدد نہیں کی جا رہی جیسے عمران خان حکومت کی،کی جاتی تھی۔ ان کے خیال میں اگر ان کی تھوڑی بہت مدد کر دی جاتی تو نتائج بہتر ہو سکتے تھے۔ اس لیے اگر دیکھا جائے تو A Political پالیسی سے فی الحال نہ تو اپوزیشن اور نہ ہی حکومت خوش ہے۔ عمران خان بھی جانتے ہیں کہ ان کی احتجاجی تحریک اس طرح کامیاب نہیں ہو سکتی اور حکومت کو بھی علم ہے کہ اس طرح حکومت کمزور ہی رہے گی۔ لیکن شائد اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ ہے کہ اس نے سیاسی میدان سے دور رہنا ہے۔ اس لیے شدید تنقید کے باوجود وہ دور ہی رہ رہے ہیں۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ A Political ہونے کی پالیسی کے فی الحال فوائد کم اور نقصان زیادہ نظر آرہے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پاک فوج کی قیادت کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن پاک فوج نے یہ سب تنقید برداشت کی ہے اور سیاسی میدان سے دور رہنے اور A Political ہونے کے فیصلہ پر ثابت قدمی دکھائی ہے۔ وہ ایک مشکل راستے پر چل رہے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت انھیں A Politicalکے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ انھیں ایک فریق کے طور پر چاہتے ہیں تا کہ اپنی ہار اور جیت کا سہرا ان کے ساتھ شیئر کر سکیں۔ اسی لیے انھیں بار بار سیاسی میدان میں گھسیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
عمران خان کے پاس اس انتخابی مہم کے دوران کسی قسم کی مداخلت کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ ان کے پاس مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کی کوئی پہچان نہیں تھی۔ وہ صرف اور صرف اپنے سیاسی مقاصد کے لیے کریز سے باہر نکل کر کھیل رہے تھے لیکن وہ ایسا اقتدار میں رہتے ہوئے بھی کرتے تھے اور اقتدار سے نکل کر بھی کر رہے ہیں۔
آج ایک خاص سیاسی سوچ رکھنے والے لوگ اسٹیبلشمنٹ کی A Political کی پالیسی سے خوش نہیں ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں موجودہ تنقید کو مکمل نظر اندازکرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو یہ پالیسی جاری رکھنا چاہیے۔ جس طرح ضمنی انتخابات کے نتائج نے یہ جھوٹ بے نقاب کیا ہے کہ مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کا کوئی وجود تھا، اسی طرح آہستہ آہستی پاک فوج کو سیاسی میدان میں لانے کی تمام کوششیں بھی ناکام ہو جائیں گی۔ سیاسی قیادت کو بھی سمجھ آجائے گی کہ اپنا کام خود ہی کرنا ہے۔ حکومت بھی خود ہی کرنی ہے اور اپوزیشن بھی خود ہی کرنی ہے۔ نہ کوئی فیڈر میں دودھ پلائے گا اور نہ ہی کوئی آپ کی گندی نیپی بدلے گا۔ اپنا گند خود ہی صاف کرنا ہوگا۔
آج سوشل میڈیا پر بھی جو پراپیگنڈا نظر آتا ہے اس کی بھی عمر زیادہ نہیں ہے۔ وہ بھی اپنی موت خود ہی مر جائے گا۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات کے بعد کافی حد تک مر گیا ہے۔ لیکن مذموم مقاصد کے لیے اس کو مصنوعی طور پر زندہ رکھنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس کی عمر بھی کم ہی نظر آرہی ہے۔