سری لنکا اور پاکستان کا تقابلی جائزہ
سری لنکا میں عوامی احتجاج کی وڈیوز پاکستان میں عوام کے جذبات ابھارنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں
ISLAMABAD:
سری لنکن صدر ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔ اس طرح سری لنکا میں معاشی کے ساتھ ساتھ سیاسی بحران بھی شدیدتر ہوگیا ہے۔ادھر شہباز شریف حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم نے پاکستان کو سری لنکا بننے سے بچا لیا ہے، عمران خان کا موقف ہے کہ حکومت پاکستان کو سری لنکا بنانے جا رہی ہے۔
سری لنکا میں عوامی احتجاج کی وڈیوز پاکستان میں عوام کے جذبات ابھارنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔ تحریک انصاف کی کوشش ہے کہ کسی طرح پاکستانی عوام بھی سری لنکا کی طرح باہر نکل آئیں لیکن وہ تاحال کامیاب نہیں ہوئے ہیں ۔
کیا واقعی پاکستان کے سری لنکا بننے کا کوئی امکان ہے۔ ماہرین معیشت کے مطابق دونوں ممالک کی معیشت اور سیاسی حالات کا آپس میں کوئی موازنہ نہیں ہے۔ سری لنکا کا زر مبادلہ کمانے کا ایک بڑا ذریعہ سیاحت ہے، اس کا ملکی معیشت میں حصہ بارہ فیصد رہا ہے ۔بیرون ملک مقیم سری لنکنز کی رقوم اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کی برآمدات بھی سری لنکا کی آمدن کا بڑا ذریعہ رہی ہیں۔ سری لنکا کی معیشت اوورسیز سری لنکن کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم، ٹیکسٹائل کی برآمدات اور سیاحت پر کھڑی تھی۔ ان تینوں میں سے ایک کے بھی گرنے سے سری لنکن معیشت کے گرنے کے امکانات کی بات کی جاتی تھی۔
2019میں سری لنکا میں دو بڑے واقعات ہوئے، پہلا کولمبو میں خودکش بم بلاسٹ میں 250 سیاح مارے گئے۔ اس کے ساتھ ہی کورونا وباء بھی آگئی۔ جس کی وجہ سے سری لنکا کی سیاحت کی صنعت مکمل بند ہو گئی بلکہ دنیا بھر میں کاروبار بند ہوگئے، ایسے میں سری لنکا کیا کرتا، سری لنکا بیرونی سیاحوں سے خالی ہوگیا، زر مبادلہ آنا بھی بند ہوگیا۔ سری لنکن معیشت کے بیٹھنے میں کووڈ اور سیاحت کا خاتمہ بڑی وجوہات ہیں۔
پاکستان کو کووڈ نے اس طرح متاثر نہیں کیا، ویسے بھی پاکستان میں غیرملکی سیاحت نہ ہونے کے برابر ہے تو لہٰذا کووڈ سے ہم کو کیا فرق پڑنا تھا۔ پاکستان اور سری لنکا کا موازنہ کرنے کے لیے اس فرق کو سمجھنا ہوگا۔ آج سری لنکا میں کوئی بھی حکومت آجائے اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج سیاحوں کو واپس لانا ہے۔
اس وقت وہاں امن اور خوشحالی ہے نہیں، اس لیے سیاح نہیں جا رہے، کل تک سیاحوں کے لیے پر کشش مقام آج ان کی آخری آپشن بھی نہیں ہے۔سری لنکا کا بڑا مسئلہ یہی بن گیا ہے کہ ملک میں ڈالر کے ذخائر ختم ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے پٹرول خریدنے کے لیے ڈالر نہیں ہیں۔ سری لنکا کے پاس اب ادویات خریدنے کے لیے بھی زرمبادلہ نہیں ہے، یوں ادویات کی شدید قلت پیدا ہوچکی ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان قرضوں کے جال میں پھنس گیا ہے۔ ہم قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینے پر مجبور ہیں۔ دنیا ہمیں مزید قرض دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ شدید مالی بد انتظامی نے پاکستان کو ایسی صورتحال میں لا کر کھڑا کر دیا ہے کہ ہمارا سری لنکا سے موازنہ شروع ہوگیا۔ دنیا کے عالمی مالیاتی فورم نے ایسے کسی خدشہ کا اظہار نہیں کیاکہ پاکستان کا سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ کرنے کا کوئی امکان ہے۔
سری لنکا آئی ایم ایف سے پانچ بلین ڈالر کا قرض مانگ رہا ہے لیکن یہ قرض ابھی تک نہیں ملا ہے۔ اگر آئی ایم ایف یہ قرض نہیں دیتا اور وہاں سیاحت کی صنعت بحال نہیں ہوتی تو سری لنکا کے موجودہ بحران سے نکلنے کے امکانات روشن نہیں ہیں۔ سیاسی مظاہروں کی تصاویر اور فوٹیج سری لنکا کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ہیں۔ وہاں سے جو مناظر سامنے آرہے ہیں، وہ سری لنکا کے لیے اچھے نہیں ہیں۔
ایسے حالات میں وہاں کی سیاسی اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھے بیٹھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سری لنکا کو اپنے ملک کے اندر ایک میثاق معیشت کرنا ہوگا تا کہ زندگی وہاں بحال ہو سکے۔سری لنکا کے معاملے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں، کچھ ہمیں مرنے کا شوق بھی ہے۔ وہاں اقتدار کی اندرونی کشمکش اور غلط خارجہ پالیسی خصوصاً یوکرین بحران جو پالیسی اپنائی، اس نے بھی بحران کو سنگین کیا ہے۔
پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے۔ اس کی خطے میں ایک اہم پوزیشن ہے۔ ایسی صورتحال میں دنیا پاکستان کے ساتھ سری لنکا جیسا سلوک نہیں کر سکتی۔ پاکستان اور سری لنکا کے حالات میں کوئی مماثلت نہیں۔ ہماری آمدن کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو بند ہو گیا ہو، جس کی وجہ سے بحران پیدا ہوگیا ہو۔ ہمارے ملک میں کچھ بھی اچانک نہیں ہوا، اس لیے مماثلت درست نہیں۔ میثاق معیشت پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔
تمام سیاسی قوتوں کو اکٹھے بیٹھ کر اس ملک کے اہم معاشی معاملات پر ایک متفقہ روڈ میپ پر اتفاق کرنا ہوگا۔ یہی واحد سبق ہے جو ہم سری لنکا سے سیکھ سکتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو اپنی سیاسی ضرورت کے تحت جیسے توڑا ،وہ پاکستان کو سری لنکا بنانے کی کوشش تھی، اس لیے کسی بھی حکومت کو اپنی سیاسی ضرورت کے تحت عالمی مالیاتی اداروں سے معاہدوں کو توڑنے سے روکنا ہوگا۔
اگر کوئی سیاسی جماعت پاکستان میں سری لنکا جیسے مالی بحران کی عدم موجودگی کے باوجود ملک میں سری لنکا جیسا سیاسی بحران پیدا کرنا چاہتی ہے تو یہ ایک الگ بات ہے۔ یہ کوئی پاکستان کی خدمت نہیں ہے۔ اقتدار کے لالچ میں ملک کو داؤ پر لگانا کتنا جائز ہے، یہ سوچنے کی بات ہے۔ شاید سری لنکا میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اس سے بچنا ہوگا۔