ڈالر بحران

ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب سابقہ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوگئی



WASHINGTON: ملک میں سیاسی بے یقینی کی صورت حال میں اضافے نے سیاسی اور معاشی بحران میں اضافے کے ساتھ اب ڈالر کا بحران بھی پیدا کردیا ہے، جسے مکمل کنٹرول کرنے میں شدید دلچسپی اور اقدامات کے بجائے حکومت اور مرکزی بینک مختلف وجوہات ہی بیان کرنے میں لگی ہوئی ہے۔

کہیں کہا جا رہا ہے کہ یومیہ لاکھوں ڈالر پاکستان سے اسمگل ہو رہے ہیں اور امریکی ڈالر مختلف ملکوں کو بھیج کر محفوظ کیا جا رہا ہے، شہری بھی ڈالر کو انتہائی محفوظ کرنسی سمجھتے ہوئے اس کا ذخیرہ کرنا چاہ رہے ہیں۔ سٹے باز بھی افواہیں پھیلا پھیلا کر ڈالر کو اونچا سے اونچا اڑنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

لہٰذا ڈالر نے بھی گزشتہ دنوں اپنا تاریخی ریکارڈ قائم کرتے ہوئے اتنی اونچی اڑان بھری کہ ایک ڈالر 226 روپے پاکستانی کاہو کر رہ گیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ دن سہانے لگنے لگے جب یہ کہا جاتا تھا کہ ڈالر نے اونچی اڑان بھرتے ہوئے 100 کی حد عبور کرلی ہے۔ اب 105 روپے کا ہوا اور اب یعنی یکم جولائی 2018 کو 110روپے کا ہو چکا تھا۔ (ن) لیگ کی حکومت اپنے آخری مہینوں کی جانب گامزن تھی۔

اسی سال فروری مارچ تک ڈالر کو زیادہ بڑھنے نہیں دیا جا رہا تھا۔ جیسے ہی نگراں حکومت کی آمد ہوئی ڈالر 116 روپے تک جا پہنچا تھا اور یکم جولائی تک افواہوں نے اپنا کام دکھایا۔ سٹے بازوں نے بھی اپنے ہاتھوں کی صفائی دکھائی۔

روپے کی کم قدری کرنے کے لیے اپنے ہی در پے ہوگئے۔ 2018-19 کے نئے مالی سال کا آغاز ڈالر ریٹ بڑھنے کے ساتھ ہوا۔ روپے کی بے قدری کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یکم جولائی 2018 تک ایک ڈالر 121 پاکستانی روپے کا دستیاب ہونے لگا۔ اسی مہینے ملک بھر سے عام انتخابات ہوئے، آنے والی حکومت بار بار اس بات کا اعادہ کرچکی تھی کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانااور کشکول توڑ دینا ہے۔

نئی حکومت نے اپنے ان ہی وعدوں کا پاس کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے کترانا شروع کیا ہی تھا کہ ڈالر کی ناگواری میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ اب تو ان 4 سالوں میں ڈالر نے ایسی اونچی اڑان بھری کہ اب ڈالرز کا فرار بھی ہونا شروع ہو گیا۔ لہٰذا ان ساڑھے تین سالوں میں ڈالر نے اپنی قدر میں مزید 55 روپے کا اضافہ کرتے ہوئے جنوری 2022 تک 176 روپے تک جا پہنچا تھا۔

ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب سابقہ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوگئی۔ اس طرح 16 مارچ 2022 تک ڈالر 180 روپے تک جا پہنچا تھا۔ 2021-22 کے مالی سال کے آغاز کے ساتھ ہی اس بات کا برملا اظہار کیا جا رہا تھا کہ نئے مالی سال کے اختتام سے بہت پہلے ہی ڈالر 180 روپے تک جا پہنچے گا۔

آئی ایم ایف بھی اسی بات کی گارنٹی لیتا رہا کہ ڈالر کی آزادانہ نقل و حرکت پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جائے گی۔ اسے آزاد مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا تاکہ وہ خوب پھل پھول سکے۔ اسی دوران اسٹیٹ بینک پر مختلف پابندیوں میں جکڑنے کے معاہدوں کو قانونی شکل دے دی گئی۔

لہٰذا اسٹیٹ بینک آف پاکستان اب صرف ڈالر ریٹ بڑھنے کی وجوہات بیان کرنے پر اکتفا کر رہا ہے اور حکومت بھی کوئی اعلان جلدازجلد کرنے سے کترا رہی تھی کہ کس طرح ڈالر کے پر کاٹ دیے جائیں۔ اس طرح کی کیفیت پہلے بھی معیشت پر کئی بار نمودار ہو چکی ہے۔ 2008 میں بھی آئی ایم ایف کی کڑوی گولی نگلنے سے قبل ڈالر کی قیمت 60 روپے پاکستانی کے برابر تھی۔

اس میںمزید تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا تو ایسے میں گورنر اسٹیٹ بینک نے کئی اقدامات اٹھائے۔ فارن ایکسچینج کمپنی کے نمایندوں سے ملاقات میں ان کو باور کرایا گیا کہ ملکی مفاد میں ڈالر ریٹ کی اڑان کو روکنا ضروری ہے۔ ڈالر کی اسمگلنگ کی فوری روک تھام کے اقدامات اٹھائے گئے۔

بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لیے بہترین معاشی پالیسی برائے سرمایہ کاری بھی دی گئی۔ اب تو ہر ایک آزاد ہے۔ غیر ملکی کمپنیاں بڑی مقدار میں اپنے منافعوں کو ڈالر کی صورت میں بیرون ملک جمع کرا رہی ہیں۔ ڈالر کے بے لگام ہونے اور اسٹاک مارکیٹ کی مندی پر حکومت کی خاموشی کئی سوالوں کو جنم دے رہی ہے۔ فچ کی جانب سے پاکستان کی ریٹنگ منفی ہونے سے بیرونی سرمایہ کاری میں بڑی رکاوٹ پیدا کردی گئی ہے کیونکہ ملک میں سرمایہ کاری سے قبل بیرون ممالک کے سرمایہ کار اس طرح کی ریٹنگ منفی ہونے کے سبب سرمایہ لگانے سے دور رہتے ہیں۔

بلکہ ملکی صنعت کار بھی حکومتی روپے سے مایوس ہیں۔ ایک ڈالر 226 روپے کا ہو چکا اور حکومت ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔ صرف حزب اختلاف سے لفظی جنگ نے اب پورے ملک کے سیاسی حالات کو کشیدہ کرکے رکھ دیا ہے۔ بیرون ملک صنعتکاروں کا اعتماد بحال نہیں ہو رہا ہے تو ایسی صورت میں جب ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آئے گی تو اس کا مطلب ہے کہ ڈالر بحران کو مزید بڑھنے سے روکنے کے اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے۔ اس وجہ سے ملکی صنعتکار بھی شدید عدم تحفظ کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔

مرکزی بینک کے حکام کا کہنا ہے کہ ضمنی الیکشن کے بعد ایک مرتبہ پھر عدم استحکام کا سامنا ہے۔ روپے پر دباؤ بڑھا ہے جوکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور درآمدی بل کے بڑھنے کے باعث ہے۔ سب سے اہم بات ملکی سیاسی اور معاشی حالات ایسے ہوتے جا رہے ہیں کہ روپے پر مسلسل دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ملک میں ڈالر بحران کے سبب ملکی معیشت ڈالر زدہ ہوکر رہ گئی ہے۔ ہر طرف ڈالر، ڈالر کی باتیں ہو رہی ہیں اور روپے کو کوئی نہیں پوچھ رہا ہے کہ کس حال میں ہے۔

کسی بھی ملک کی اپنی کرنسی کی اس طرح شکست و ریخت ہو رہی ہو۔ اس طرح تاریخی بے قدری کو روکنے کے لیے حکومت اور ذمے دار اداروں کو فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس طرح بالآخر ان برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جن کی تیاری میں درآمدی مٹریلز استعمال ہوتا ہے اور چونکہ ملک کی معیشت درآمدی ہے۔

ابھی گندم اور کھاد کی درآمد کی منظوری دی گئی، اس طرح درآمدی اشیا کے مہنگے ہونے سے عوام پر مہنگائی کا سونامی سیلاب کروڑوں غریب عوام کو بہا کر غربت کی انتہائی عمیق کھائی میں ڈال دے گا۔ ان میں اب اکثریت ان سفید پوش لوگوں کی ہوگی، ان پنشنرز کی ہوگی، کم تنخواہ دار طبقوں کی ہوگی جو مہنگائی کا آج بھی مقابلہ نہیں کر پا رہے۔ لہٰذا حکومت ڈالر بحران کو قابو میں رکھنے کے لیے فوری عملی اقدامات اٹھائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔