پنجاب میں چھوٹے کسان کاشت کاری چھوڑنے لگے
چھوٹے کاشتکاروں کی زرعی شعبے سے دوری کی اہم وجوہات میں سے ایک مہنگائی بھی ہے
PESHAWAR:
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے جہاں عام شہری بری طرح متاثرہورہے ہیں وہیں چھوٹے کاشتکاروں کے لئے بھی مشکلات بڑھ گئی ہیں، جس کے باعث وہ کھیتی باڑی چھوڑکرزمینیں بیچنے پرمجبورہوجارہے ہیں۔
زرعی ماہرین کے مطابق پیداواری لاگت بڑھنے سے چاول سمیت دیگرفصلوں ،سبزیوں اورچارہ جات کی ناصرف قیمت میں اضافہ ہوا بلکہ آئندہ ان فصلوں کی پیداوارمیں کمی کابھی خدشہ ہے۔
ماہرین کاکہنا ہے مہنگائی میں ہونے والے مسلسل اضافے اورموسمیاتی تبدیلوں کامقابلہ کرنے کے لئے اسمارٹ ایگری کلچر ٹولز کو اپنانا ہو گا تاکہ پیداواری اخراجات کوکم کرکے پیداواربڑھائی جاسکے۔
پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے دیہی علاقوں، قصور،شیخوپورہ اورگوجرانوالہ کے اضلاع میں ان دنوں چاول کی فصل کاشت کی جاچکی ہے۔ جہاں پاک بھارت مشرقی سرحدی پٹی میں دنیا کا بہترین باسمتی چاول کاشت کیاجاتا ہے۔ تاہم ان دنوں کاشت کار زرعی پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے شدید پریشان ہیں ۔
'زرعی ملک ہونے کے باوجود زراعت کو انتہائی مشکل بنادیا گیا'
لاہورکے سرحدی علاقے پڈھانہ سے تعلق رکھنے والے کاشت کارسردارسیف اللہ نے بتایا 'پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن بدقسمتی سے زراعت کوانتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ایکڑ رقبے پرچاول کی کاشت کے لئے ایک بوری ڈی اے پی، ایک بوری ناٹروفاس اوردوبوریاں یوریا استعمال کرناپڑتی ہے، ڈے اے پی کا ریٹ 10 ہزار600 روپے، ناٹروفاس 6 ہزار500 روپے اوریوریاکاسرکاری ریٹ 1850 روپے ہے لیکن قلت کی وجہ سے 2500 روپے میں ملتی ہے۔
'تین چار ایکڑ زمین رکھنے والے کاشت کار اراضی ہاؤسنگ اسکیموں کو فروخت کررہے ہیں'
انہوں نے بتایا کہ زمین کی تیاری، زہروں کااستعمال ،سپرے،پانی کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ سردارسیف اللہ کا کہنا تھا کہ جن کے پاس تین، چارایکڑزمین ہے وہ اب اخراجات سے تنگ آکر اراضی ہاؤسنگ اسکیموں کوفروخت رہے ہیں جبکہ جن کے پاس زیادہ رقبہ ہے وہ خودکاشت کاری کرنے کی بجائے زمین ٹھیکے پردے دیتے تھے۔
'لاہورکے سرحدی علاقے میں ایک سال کے فی ایکڑزرعی رقبے کا ٹھیکہ 35 سے 40 ہزار روپے ہے۔جولوگ نہری پانی استعمال کرتے ہیں انہیں توپھرکچھ فائدہ ہوجاتا ہے لیکن جوٹیوب کاپانی استعمال کرتے ہیں وہ کافی مہنگا پڑتا ہے'۔
'سیاسی حکومتوں کی ترجیحات بدلنے سے زراعت کا شعبہ تنزلی کا شکار ہوا'
نارووال سے تعلق رکھنے والے کاشتکار فرحان شوکت ہنجرا نے بتایا کہ 1990 تک زراعت ایک منافع بخش شعبہ تھا اور کوئی کاشت کار زرعی رقبہ بیچنے کا تصوربھی نہیں تھا، اُس دور میں زمین کو ماں کا درجہ دیاجاتا تھا۔ چار،پانچ ایکڑرقبے کا مالک کاشتکارخوشحال تصورکیاجاتا تھا،لیکن سیاسی حکومتوں کی ترجیحات بدلنے سے زراعت کا شعبہ تنزلی کا شکارہونا شروع ہوا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
'پنجاب جو کبھی اناج گھر تھا اب بیاج گھر بنتا جارہا ہے'
فرحان شوکت نے کہا کہ اب زرعی رقبے سکڑتے اورہاوسنگ اسکیمیں پھیلتی جارہی ہیں۔ پنجاب جوکبھی اناج گھرکہلاتا تھا آج بیاج گھربنتا جارہا ہے۔ یہ ہمارے لئے شرم کامقام ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں 30 لاکھ میٹرک ٹن گندم امپورٹ کرنا پڑی ہے۔
انہوں نے بتایا اب بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں زرعی فارم ہاؤس بنارہی ہیں، وہ حکومت سے سبسڈی پرمشینری،ادویات اورکھادیں لیتے اوربھاری منافع کماتے ہیں جبکہ عام کاشتکارکاکوئی پرسان حال نہیں رہا ہے۔
'زرعی شعبے میں تحقیق اور ترقی پر تحقیق نہیں کی گئی'
ترقی پسند کسان اور زرعی ماہر عامرحیات بھنڈارا نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں زرعی شعبے کو چیلنجز کا سامنا ہے، زرعی محاصل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اورموسمیاتی تبدیلی نے اس شعبے کومتاثرکیا ہے، پاکستان دیگرممالک کے مقابلے میں اس لئے زیادہ متاثر ہو رہا ہے کیونکہ ہمارے یہاں زرعی شعبے میں تحقیق اورترقی پرکام نہیں کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کھاد، بجلی، ڈیزل، بیج اورزہروں کی قیمتوں میں اضافے کیوجہ سے چھوٹے کاشتکاروں کے لئے شدید مشکلات سے دوچار ہیں، جس کے باعث انہیں معاشی تنگ دستی کا بھی سامنا ہے۔
'حکومت خریدار کو سپورٹ کرتی ہے سارا فائدہ مڈل مین اٹھاتا ہے'
عامرحیات بھنڈارا کہتے ہیں ہمارے یہاں حکومت اس وقت جاگتی ہیں جو پیداوار تیار ہوجاتی اوروہ مارکیٹ میں صارف کے پاس پہنچتی ہے، جس پر حکومت خریدار کو سپورٹ کرتی ہے، اور مصنوعات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس سے کنزیومرکو تو فائدہ ہوتا ہے لیکن کاشتکارکونقصان اٹھانا پڑتا ہے جبکہ سب سے زیادہ فائدہ مڈل مین (آرتھی) اٹھاتے ہیں۔
'کاشتکاروں کو سمجھ لینا چاہیے کہ حکومت تبدیل ہونے سے مہنگائی اور موسمیاتی تبدیلیاں ختم نہیں ہوں گی'
عامرحیات کا مزید کہنا تھا کہ کاشتکاروں کو اب یہ سمجھ لینا چاہئے کہ کوئی بھی حکومت آئے مہنگائی کم ہونے کی بجائے بڑھے گی اور دوسراموسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ہیں جن کا ہمیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور آئندہ بھی ایسے معاملات رہیں گے۔ ان حالات میں ہمیں ڈیجیٹل یا اسمارٹ فارمنگ کے کلچر کو اپنانا ہوگا۔ اس کے لئے حکومت گاؤں کی سطح پرڈیجیٹل ڈیرے قائم کرے جہاں کاشتکاروں کو موسم کی تازہ صورت حال ، کھاد استعمال کرنے کے اسمارٹ طریقے ،آٹومیٹک ایری گیشن سسٹم، سینسرکی مدد سے آبپاشی اورسب سے بڑھ کراپنی مصنوعات فروخت کرنے کے لئے مارکیٹ تک رسائی کے جدید طریقوں بارے آگاہی دی جائے، ڈیجیٹل فارمنگ کی مدد سے ہم لاگت میں کمی لاسکتے ہیں۔