بلے نے تو بلے بلے کردی
پنجاب میں ضمنی الیکشن ہوئے اور انھوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے دل جیت لیے
قارئین گرامی! ضمنی الیکشن ختم ہوا اور بلے نے چھکا لگا کر گیند کو اسٹیڈیم سے باہر پھینک دیا اور یوں عمران خان جیت کے گھوڑے پر سوار ہو کر قوم میں دوبارہ آگئے۔
اس الیکشن میں جہاں جیت کا منظر دیکھا وہاں کچھ نہ بھولنے والے واقعات بھی نظروں میں بکھرتے دیکھے، تمام سیاسی جماعتوں کے امیدوار اسمبلی کی ٹھنڈی کرسیاں حاصل کر لینے میں کوشاں ہیں، کچھ نہ بھولنے والے واقعات بھی انٹرنیٹ پر حیران کن تھے جس نے ذہن کے چاروں طبق روشن کردیے اور جو آج تک قوم کے ذہنوں میں مچل رہے ہیں کہ اب مستقبل میں ایسا بھی ہو سکتا ہے پہلے تو یہ وڈیو انٹرنیٹ پر آن ایئر ہوئی اور لوگ دیکھتے رہ گئے۔
پنجاب کے ایک حلقے میں ایک سابق وفاقی وزیر اپنے امیدوار کی حوصلہ افزائی کے لیے پولنگ اسٹیشن پر آئے لوگ حیران ہو رہے تھے، انھیں دیکھ کر نہیں، حالات کی سادگی پر حیران تھے کہ قوم اس کی عادی نہیں ہے وہ تو اکثر سیاسی بیانات کے بعد جمہوریت کا ترانہ گاتی ہے، منظر کیا تھے حلقے میں ایک گاڑی آ کر رکتی ہے اس میں سے اکیلے ایک ماضی کے وفاقی وزیر اترتے ہیں اور قوم کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ میں اپنوں میں آ گیا ہوں جب کہ وہ امیدوار نہیں تھے، دور دور تک قانون نافذ کرنے والوں کی کوئی گاڑی ان کے ساتھ نہیں تھی وہ اور ان کا ڈرائیور لوگوں میں گھل مل گئے۔
انھیں اس وقت اپنی جان ناتواں کا بالکل خیال نہیں آیا مگر جب وہ وفاقی وزیر ہوا کرتے تھے ان کی آمد سے قبل ٹریفک روک دی جاتی تھی اور لوگ مجبور و بے کس ہو کر ان کے گزرنے کا انتظار کیا کرتے تھے۔
مگر اب انتظار کی گھڑیاں ووٹروں کی نذر ہوگئیں، وہ حلقے میں لوگوں کو بتاتے رہے کہ آپ کا قیمتی ووٹ آپ کی پارٹی کے لیے بہت ضروری ہے۔ سوچیں کہ پروٹوکول جمہوریت کے لیے قربان ہو گیا، ہر فرد سے حال معلوم کر رہے تھے اور وہ شاہانہ پروٹوکول حالات کی سادگی کو دیکھتے ہوئے حواس باختہ ہو گیا صرف ایک سیٹ کے لیے کہ یہ ہماری ہو جائے انھوں نے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا، لوگ ان سے قطعی متاثر نہیں تھے، وہ اس بات پر متاثر تھے کہ صرف ایک سیٹ کے لیے ان کی قیمتی جان لوگوں میں موجود تھی، ویسے بھی وزرا کا پروٹوکول دیکھ کر حیرت ہوتی ہے مگر ایسا کوئی منظر دیکھنے کے بعد حیرت ہوتی ہے کہ انھیں اپنی جان ناتواں کا بالکل خیال نہیں اب کی دفعہ آنے والے الیکشن میں ایسے کئی مخبر آپ دیکھیں گے۔
اس سوشل میڈیا نے ہر چیز کتابوں کی طرح کھول کر ڈال دی ہے ایک جگہ ووٹ کی حمایت کے لیے ایک ایم این اے اپنے حلقے میں گئے تو بڑی شان سے تھے وہ اور ان کے کئی من پسند افراد ان کے ہمراہ ان کو دیکھ کر قوم نے ان کا وہ استقبال کیا کہ رہے نام سائیں کا، گاڑی ان کے حلقے میں کھڑی تھی، عوام بھی جمع ہوگئی، پھر ان کی وہ درگت بنی کہ گاڑی نکالنے کے لیے جگہ ناکافی تھی اور پھر باقاعدہ انھیں بھاگ کر ایک موٹرسائیکل پر بیٹھ کر یہ گیت گاتے ہوئے جانا پڑا ''جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کر سو جا'' ہمارے سیاسی حضرات اس جدید دور میں بھی جمہوریت کا چورن اس طرح بیچ رہے ہیں جیسے 20 سال پہلے بیچا کرتے تھے۔
ارے جناب! گیا وہ زمانہ جب خلیل میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے، ایسا لگتا ہے کہ قوم کا حوصلہ جواب دیتا جا رہا ہے، جو اسمبلی میں آئے گا مسائل کو قبروں میں دفن کرنا ہوگا اور یہ سیاسی حضرات آنے والے الیکشن کے لیے ذہن بنا لیں کہ مستقبل میں بنا مسائل حل کیے بغیر ووٹ اور اسمبلی کا تصور ذہن سے نکال دیں، اس لیے کہ اب قوم کو حساب دینا ہوگا۔ سیاسی صورت حال بہت ابتر ہے، اب قبلہ درست کرنا ہوگا۔
پنجاب میں ضمنی الیکشن ہوئے اور انھوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے دل جیت لیے۔ آپ کے پاس ڈیڑھ سال کا عرصہ ہے، آپ پنجاب کی قسمت بدل دیں آپ کی طرف سے جو بھی اسکیمیں ماضی میں بحال ہوئی تھیں انھیں کسی بھی تاخیر کے بغیر جاری و ساری کیجیے گا، دیانت اور تندہی سے پنجاب کے مسائل پر خصوصی توجہ دیجیے گا، کراچی والے بھی آپ کے منتظر ہیں، بلدیاتی الیکشن ہونے والے ہیں، آپ اٹھیں اور قوم کو بتائیں کہ یہ نظام بھی ہم چلا کر بتائیں گے، کیونکہ یہاں کا ووٹر آپ کا منتظر ہے۔
کراچی میں جماعت اسلامی نے مسائل کے حوالے سے دیگر پارٹیوں کی طرح تشویش کا اظہار اسمبلیوں میں بیٹھ کر نہیں کیا بلکہ ان کے مسائل پر ہر قدم پر بڑا قدم اٹھایا اور کراچی والے جماعت اسلامی کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ عمران خان آپ یہ سیاسی فیصلے اپنے سابق مشیروں سے نہ کریں، ملک کے کامیاب وزیر اعظم رہے ہیں کراچی کو اب وارث کی ضرورت ہے، وہ اب تشویش کی کہانی بار بار سننے کو تیار نہیں۔ آپ اور جماعت اسلامی صدق دل سے ایک پلیٹ فارم پر صوبہ سندھ میں آجائیں۔ خاص طور پر کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن مل کر لڑیں، یہاں کے رہنے والے اب سیاسی طور پر مایوس ہوگئے ہیں، وہ یہاں بھی تبدیلی کے خواہاں ہیں وہ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔
پنجاب کے انتخابی نتائج نے واضح کردیا ہے کہ آپ کراچی پر توجہ دیں، یہاں بھی عوام آپ کے منتظر ہیں اور یہ کام جماعت اسلامی بہتر طریقے سے انجام دے سکتی ہے مگر آپ کا اور جماعت کا اتحاد بہت ضروری ہے کہ یہاں بھی بلدیاتی الیکشن میں قوم تبدیلی کی منتظر ہے۔ آپ پنجاب میں مسائل کے حوالے سے متحرک شخصیت بن کر ابھریں اور کراچی، حیدرآباد کے لوگ بھی پی ٹی آئی کے منتظر ہیں۔ سیاسی حالات تو یہ بتا رہے ہیں کہ آپ کا اور جماعت اسلامی کا اتحاد بہت ضروری ہے تاکہ یہاں بھی ووٹ قوم سوچ سمجھ کر دے کہ وہ بلدیاتی مسائل کا حل چاہتی ہے، انھیں صرف اپنے مسائل دیکھنا ہے اور وہ ان کا حل چاہتے ہیں۔
شہر کراچی میں ان بارشوں میں کیا حال ہوا، اس کی کسی نے اسمبلی میں آواز نہیں اٹھائی اور وقت کے ساتھ ساتھ بارشوں کا پانی خودبخود خشک ہو گیا اس سے بڑی اور کیا مایوسی ہوگی۔کراچی والے تو 20 سال سے ایک امید پر بیٹھے رہتے ہیں پھر اس کے بعد نئے الیکشن ہو جاتے ہیں اور پھر نظام افراتفری کا شکار ہو کر دوسرے الیکشن کی تیاری کرتا ہے، ویسے بھی ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے، خان صاحب! آپ کے لیے عدم اعتماد بہت بہتر ہوا، جس مہنگائی کا گلہ تھا وہ اپنی جگہ جوں کی توں برقرار ہے اور آپ پر جو الزام تھا مہنگائی کا وہ بھی عارضی ثابت ہوا اور مہنگائی عروج پر ہے۔
یہ بات دوسری ہے کہ جنھوں نے مہنگائی کے خلاف چیخ چیخ کر شور مچا رکھا تھا وہ اسے کم کرتے مگر مہنگائی نے تو حد کردی۔ عالم یہ ہے کہ پیاز 100 روپے، یہ پیاز 30 اور چالیس روپے کلو ملتی تھی ملکی پیداوار ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ آلو 60 روپے مل رہے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں جو لوگ گھر کے زیادہ ممبران رکھتے ہیں وہ ایک ماہ میں سبزی منڈی ضرور جاتے ہیں اور 15 دنوں کا سامان لے کر آجاتے ہیں۔ ایک صاحب فرما رہے تھے کہ آپ کو حیرت ہوگی سبزی اور فروٹ کے ٹھیلوں والوں نے خودساختہ نرخ رکھے ہیں۔
بھلا بتائیے جو سبزیاں ہمارے ملک میں پیدا ہوتی ہیں وہ اتنی مہنگی کیوں؟کوئی پوچھنے والا نہیں، کہاں ہے شہروں کی انتظامیہ؟ اور یہ حال صرف صوبہ سندھ کا نہیں بلکہ پورے ملک میں ہی مہنگائی کا طوطی بول رہا ہے۔ مانا کہ پٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ پرائس کنٹرول والے مہنگائی کو نظرانداز کردیں۔جمہوریت تو ویسے بھی اب سیاست دانوں کی نذر ہوگئی ہے جہاں ان کے حقوق کی نفی ہو، وہاں جمہوریت اور آئین کو حقوق کی آخری سیڑھی پر لے جاتے ہیں جمہوریت کو جمہوریت ہی رہنے دیں، اسی میں سیاستدان دانوں کی اور عوام کی بقا ہے۔