سیاسی و اقتداری مفادات کی خاطر


Tanveer Qaisar Shahid July 25, 2022
[email protected]

سیاست و اقتدار بھی کیا ظالم شئے ہے! سیاسی و اقتداری آرزُو بھائی کو بھائی اور باپ کو بیٹے کی گردن مارنے پر آمادہ کرتی ہے۔ سبق ہم پھر بھی نہیں سیکھتے ۔ سیاسی و اقتداری مفادات کے حصول کی تمنا میں بھائی ، بھائی سے بچھڑ گیا ہے۔ یہ مثال ہم سب نے اگلے روز اُس وقت دیکھی جب گجرات کے چوہدری برادران کو اقتدار کی کشمکش نے ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔

اور جب چوہدری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی میں عددی اکثریت کے باوجود اُس وقت جیت کر بھی ہار گئے جب اُن کے بھائی کے ایک خط نے سارا کھیل بگاڑ دیا۔ اِس کھیل کے بگاڑ کا آغاز اگرچہ چوہدری پرویز الٰہی نے کیا تھا، محض سیاسی و اقتداری مفادات میں۔ اُنہیں مگر اِس بگاڑ کی جانب اُن کے ایک صاحبزادے نے مائل اور قائل کیا تھا۔

دونوں باپ بیٹا مگر نہیں جانتے تھے کہ یہ کھیل چند روز بعد ہی کیا بھیانک شکل اختیار کر جائے گا۔سیاسی و اقتداری مفادات نے ایک فساد کی صورت اختیار کر رکھی ہے اور سارا ملک تماشہ بن گیا ہے ۔ اقتداری تمنا میں ایک صاحب نے '' ٹرسٹی وزیر اعلیٰ'' بننے پر بھی رضا مندی ظاہر کر دی۔ وہ آج 25جولائی 2022 بروز پیر تک ٹرسٹی وزیر اعلیٰ ہیں۔ نجانے آج عدالت اُن کی اقتداری تقدیر کا کیا فیصلہ سنائیگی اور موصوف وزیر اعلیٰ پنجاب رہیں گے یا نہیں؟

جب سیاسی و اقتداری مفادات کے حصول کا تقاضا یہ تھا کہ چوہدری پرویز الٰہی کو سخت ہدف اور تنقید کا مرکز بنایا جائے تو پیپلز پارٹی اور اِس کے قائدین نے گجرات کے چوہدری کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا ملزم تک ٹھہرا دیا ۔

وقت بدلا اور نئے سیاسی و اقتداری مفادات نے جنم لیا تو اِسی پیپلز پارٹی اور اِس کے مرکزی قائدین نے اپنی حکومت میں اِنہی چوہدری پرویز الٰہی کو ڈپٹی پرائم منسٹر بنا دیا۔نون لیگی قیادت بھی اپنے سیاسی و اقتداری مفادات میں ہر اصول اور ضابطے کی مٹی پلید کرنے میں کسی سے کم نہیں ہے۔

شریف خاندان، زرداری اور گجرات کے چودھریوں میں سیاسی رقابتوں اور سیاسی مخالفتوں کی لاتعداد داستانیں ہر خاص و عام کی زبانوں پر ہیں۔ تینوں ایک جگہ مل بیٹھنے اور یکجا ہونے پر کبھی تیار ہُوئے نہ قومی و عوامی مفاد میں باہم مکالمہ کرنے پر رضا مند۔ مگر جب اقتداری اور سیاسی مقاصد و مفادات نے دباؤ ڈالا تو یہی شریف برادران چوہدری پرویز الٰہی کو ، آصف علی زرداری کی درمیان داری کے توسط سے، پنجاب کا متفقہ وزیر اعلیٰ بنانے پر راضی بھی ہو گئے۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ چوہدری پرویز صاحب ہی وعدہ شکن ثابت ہُوئے، اس لیے کہ وعدہ شکنی ہی میں اُنہوں نے اپنا سیاسی و اقتداری مفاد زیادہ عزیز جانا۔

سیاسی و اقتداری مفادات کی خاطر اپنے مخالفین کے بارے میں حدود سے متجاوز ہونے میں پی ٹی آئی بھی کم نہیں ہے۔ جب ان مفادات کا تقاضا تھا کہ چوہدری پرویز الٰہی کو ہدفِ تنقید بنا کر اپنی اقتداری منزل قریب کی جا سکے تو عمران خان نے چوہدری پرویز الٰہی کو بار بار ایسے القاب و الفاظ سے یاد کیا کہ یہ الفاظ ہم یہاں لکھ اور دہرا نہیں سکتے۔

یہ دل آزار القابات اب بھی ہماری قومی سیاسی فضاؤں میں گونج رہے ہیں۔وقت گزرا اور سیاسی مفادات کے تقاضوں نے پانسہ پلٹا تو اِنہی چوہدری پرویز الٰہی کو عمران خان نے اپنا اقتداری ساتھی، ساجھی اور حلیف بنا لیا۔ اُنہیں اپنا وزیر اعلیٰ تک نامزد کر دیا اور چوہدری صاحب کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور بھی لگا دیا ۔ خان صاحب نے پی ٹی آئی کے 178ایم پی ایز کو10نشستوں والے سیاستدان پر قربان کر دیا۔

سیاسی و اقتداری مفادات کے لیے سیاستدانوں کی یہ قلا بازیاں اور ہر روز کی پلٹنیاں دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔ ایسے سیاستدان و مقتدر افراد پھر کیسے اور کس منہ سے عوام کو اصول پسندی، راستی اور سچائی پر عمل کرنے کا درس دے سکتے ہیں؟ سیاسی و اقتداری مفادات کا جب تقاضا یہ تھا کہ سیکولر بھٹو ملک میں ایسے اقدامات کریں جو پاکستان کے جمہور مسلمانوں کو پسند ہوں تو وہ ایسا کر گزرے ؛چنانچہ ہم نے دیکھا کہ اپنے نظریات و افکار کے برعکس بھٹو صاحب نے ایسے کئی فیصلے کیے بھی۔لیکن اس کے باوصف وہ اپنے سیاسی معاندین کی نفرت و عداوت سے بچ نہ سکے۔

اُنہیں بالآخر پھانسی کے پھندے پر جھولنا پڑا۔ جس قاہر اور جابر دَور میں بھٹو صاحب کو تختہ دار پر کھینچا گیا تھا، اُس دَور کے آمر حکمران کے سیاسی و اقتداری مفادات کا تقاضا یہ تھا کہ ملک میں اسلامائزیشن کا غلغلہ بلند کیا جائے ؛ چنانچہ وہ بھی ایسا کر گزرا۔ سیاسی و اقتداری مفادات کا تقاضا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے ایک بڑے سیاسی و نظریاتی حریف، حضرت مولانا فضل الرحمن، کو وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز کر دیں؛ چنانچہ وہ بھی ایسا کر گزریں ۔

نواز شریف بھی محترمہ بے نظیر بھٹو سے پیچھے نہیں رہے تھے۔ بطور وزیر اعظم، سب کچھ جانتے ہُوئے، اُنہوں نے (سیاسی و اقتداری مفاد میں) اپنی کابینہ میں ایک ایسے شخص کو بھی وفاقی وزیر بنا دیا تھا جو بر سرِ مجلس قائد اعظم اور تحریکِ پاکستان کو ہدفِ تنقید بناتا تھا۔اُن کے قریبی ساتھ بھی اس زیادتی پر مہر بہ لب رہے کہ یہ خاموشی بھی سیاسی و اقتداری مفادات کا تقاضا تھی ۔

شائد اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ حکمرانی اور سیاسی و اقتداری مفادات کے لیے کوئی اصول،کوئی اخلاق و ضابطہ کبھی بھی کسی کے سامنے بطورِ آئیڈیل نہیں رہتا۔ ہم مغربی ممالک میں بھی دیکھتے ہیں کہ ووٹوں کے حصول کے لیے سیاستدان کس طرح ''والہانہ'' انداز میں ووٹروں کے بچے گود میں اُٹھا کر اُنہیں چومتے چاٹتے نظر آتے ہیں ۔

حالانکہ عام حالات میں شائد وہ ان بچوں کے قریب بیٹھنا بھی پسند نہ کریں۔ امریکی صدر کے انتخاب میں بھی ایسے مناظر بکثرت نظر آتے ہیں کہ یہ بھی وہاں سیاسی و اقتداری مفادات کے حصول کا ایک موثر اور نظر نواز ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اِسے خواہ ہم سب دھوکہ دہی اور منافقت ہی سے کیوں نہ معنون کریں۔ہمارے ایک بڑے ہمسایہ ملک، بھارت، میں تو ایسی مثالیں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔

بلکہ اگر یوں کہیں کہ بھارتی سیاستدان اپنے سیاسی و اقتداری مفادات کے لیے ہمارے سیاستدانوں سے ''کئی ہاتھ'' آگے ہیں تو ایسا کہنا بے جا نہیں ہوگا۔ نریندر مودی اور بی جے پی کے مقتدر سیاستدانوں نے اپنے سیاسی و اقتداری مفادات کے حصول کے لیے بھارت بھر میں مسلمانوں، سکھوں، نچلی ذات کے ہندوؤں اور مسیحیوں کا خون بہانے، نفرت پھیلانے اور اُن کے جملہ انسانی حقوق پامال کرنے سے بھی ہچکچاہٹ نہیں برتی۔

اِسی ضمن میں حال ہی میں بھارتی پنجاب میں ایک تازہ ترین مثال سامنے آئی ہے : بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ، بھگونت سنگھ مان، نے سیاسی و اقتداری مفادات اور مشرقی پنجاب کے ہندوؤں کی خوشنودی کی خاطر ایک مقامی گندے برساتی نالے( کالی بئیں) سے ، سب کے سامنے، گلاس بھر کا پانی پیا۔ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ اس ندی کا پانی ''پوتر اور مقدس'' ہے ۔

مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے سیاسی مفادات کی خاطر یہ پانی پی تو لیا لیکن پھر اُسی رات اُن کے پیٹ میں سخت درد اُٹھا۔ندی کے آلودہ پانی نے اپنا اثر دکھا دیا تھا۔ درد اتنا بڑھا کہ وزیر اعلیٰ کو اُن کے گھر سے ہیلی کاپٹر میں سوار کرکے نئی دہلی کے ایک اسپتال میں بغرضِ علاج منتقل کرنا پڑا۔ یہ واقعہ22 جولائی2022 کی شب کا ہے ۔ سیاسی و اقتداری مفادات کے حصول کے لیے مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو سنگین نتیجہ بھگتنا پڑا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں