دل کو بہلانے کا بہانہ
سب سے پہلی خوبی تو نسوار کی یہ ہے کہ آپ بڑے آرام سے نسوار کی چٹکی ہونٹ تلے دباکر ہرہرجگہ جاسکتے ہیں
لیجیے۔ نسوارنے بھی چھلانگ لگائی اوروہ دس روپے کاٹکیہ بیس روپے کاہوگیا یعنی ایک دم ڈبل،ہم نے ایک نسوارفروش سے پوچھاکہ اگر قیمت بڑھانی تھی تو ایک دوروپے بڑھادیتے، یہ ایک دم اتنی بڑی چھلانگ؟ تو اس نے کہا کہ یہ نسوارفروشوں کی ''یونین'' کافیصلہ ہے، ایں گل دیگرشگفت۔ نسوار فروشوں کی بھی یونین ہے اوراس کانام بھی شاید ''انجمن حقوق نسوار فروشاں یاتحفظ نسوارفروشاں'' جیساہوگا،اوریہ تو آپ کو پتہ ہے کہ پاکستان میں یونین یا جماعت یاپارٹی گینگ کوکہاجاتاہے۔
چاہے سیاسی ہویاتجارتی یامذہبی ،قومی، نسلی پیشہ ورانہ،نام کچھ بھی ہولیکن ''کام''گینگوں کاکرتے ہیں ورنہ آخران لوگوں کو تحفظ کی کیاضرورت ہے جو دوسروں کے تحفظ اورحقوق کے لیے ''خطرہ'' ہوتے ہیں، انجمن دکانداران،انجمن ٹھیکیداران،انجمن ڈاکٹران، انجمن دوافروشان انجمن مرغی بانان، انجمن خشت سازان یہاں تک کہ انجمن قصابان، باربران ،چپل فروشان، درزیان... بلکہ اب تو ہمیں شک ہے کہ یقیناً جیب کتروں، ڈاکوں، لٹیروں، نوسربازوں، جعل سازوں کی بھی تنظیمیں ہوں گی۔
کیوں کہ ان کو بھی بہت سی شکایات ہوسکتی ہیں کہ عوام لٹتے ہوئے ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتے، گھروں میں کتے یاچوکیدار رکھتے ہیں بلکہ اکثرتو گھروں میں اسلحہ بھی رکھتے ہیں جس سے ہمیں خطرہ ہوتاہے یایہ کہ پولیس والے ہم سے اب زیادہ کمائی چھین لیتے ہیں یاقانون۔مطلب یہ کہ گینگوں کی اس سرزمین میں ہرکسی نے اپنے اپنے گینگ بنارکھے ہیں اوریہ سب کے سب گینگ اس بدنصیب خدامارے اوربدبخت کے خلاف بنے ہیں جو اپنے آپ کو انسان کہتاہے لیکن اصل میں صرف کالانعام ہوتاہے۔
بات نسوار اوراس کی ڈبل مہنگائی سے شروع ہوئی تھی، آپ سوچیں گے کہ ہم نے اتنی ساری چیزوں کو چھوڑ کر صرف نسوارپہ کیوں فوکس کیاہے تو اس کاجواب یہ ہے کہ یہی تو وہ واحدسہاراہے جو اس بے پناہ ہوشربا اورتباہ وبامنہگائی میں لے سکتے تھے اورلیتے ہیں کہ باقی آسائشیں توہم غریبوں کے دسترس سے نکل چکی ہیں، ہم غریب غربا یاخداماروں کااگرکوئی سہارا یایک گونہ بے خودی کاذریعہ تھا تو یہی تھا اوراسے بھی ظالموں نے لگژری بنادیاہے۔
سب سے پہلی خوبی تو نسوار کی یہ ہے کہ آپ بڑے آرام سے نسوار کی چٹکی ہونٹ تلے دباکر ہرہرجگہ جاسکتے ہیں۔یہاں یہ بتادوں کہ وہ جوجگہ جگہ تھوکتے پھرتے ہیں وہ اناڑی اورنالائق نسواری ہوتے ہیں، اصل نسواری چٹکی ہونٹ تلے دباکر آخر تک نہیں تھوکتے، ان کے منہ میں کچھ ایسانظام قائم ہوجاتاہے کہ کم ازکم چائے، پانی تو کرتے رہتے ہیں اور ہونٹ تلے نسوار کی چٹکی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ شاید آپ کے دل میں یہ سوال ابھر رہاہے کہ ہم نے آج یہ ''قصیدہ نسوار''کیوں پڑھا تو گزارش یہ ہے کہ گرانی کی جورفتار ہے۔
اس کالازمی نتیجہ یہی نکلے گا کہ ہرانسان کو ''نشہ'' کا سہارا لینا پڑے گا جب کہ باقی آسائشیں انسان کے بس سے باہرہوچکی ہیں، صرف نسوارہی ہے جس کی برکت سے آپ دنیا کے غموں کو لات مارسکتے ہیں،تھوڑی دیرکے لیے ہی سہی اور اس پر قانون کی کوئی گرفت بھی نہیں ہے' یعنی یہ کوئی نشہ ہے ہی نہیں' بس دل کو بہلانے کا اک بہانہ ہے۔ دوستو !نسوار کے جو ''فوائد'' بیان ہوئے ہیں 'اسے صرف لطیفہ سمجھیں کیونکہ یہ ایک بیماری ہے' اس سے بچنا ہی اچھائی اور صحت کی علامت ہے۔خبردار کسی نے نسوار یا کوئی اور بری چیز کھائی تواس کا انجام اچھا نہیں ہے۔