کیا فوری انتخابات ممکن ہیں
سیاسی متحارب گروپوں کو ایک میز پر بٹھایا جائے گا اور انھیں ملک میں فوری انتخابات پر راضی کیا جائے گا
کیا ملک قبل از وقت انتخابات کی طرف جا رہا ہے۔ایسی افواہیں بھی پھیلائی جا رہی ہیں جن میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاک فوج نے ملک میں نرم مداخلت کرنیکا فیصلہ کیا ہے۔ اس نرم مداخلت کے ذریعے ملک میں فوری نئے انتخابات کے لیے اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا۔
سیاسی متحارب گروپوں کو ایک میز پر بٹھایا جائے گا اور انھیں ملک میں فوری انتخابات پر راضی کیا جائے گا۔ تاہم پاک فوج نے ایسی کسی بھی نرم مداخلت کی بھر پور تردید کی ہے۔ اور ان کا موقف ہے کہ پاک فوج نے سیاسی عمل سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے اور پاک فوج اس فیصلہ پر قائم ہے۔ اس لیے کسی بھی قسم کی نرم یا سخت مداخلت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
تا ہم اس سب کے باوجود ملک میں قبل از وقت نئے انتخابات کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ ملک میں فوری انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ لوگ انتخابات کی تاریخ بھی دے رہے ہیں۔ ایک عمومی آواز یہی سنائی دے رہی ہے کہ ملک میں اکتوبر اور نومبر میں نئے انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اگر اکتوبر میں انتخابات ہونے ہیں تو اگست سے پہلے حکومت ٹوٹ جانی چاہیے۔ اس لیے اس صورتحال میں تو حکومت چند دنوں کی مہمان ہونی چاہیے۔ ملک میں فوری انتخابات تحریک انصاف کا مطالبہ ہے۔ اس لیے اگر آج فوری انتخابات ہوتے ہیں تو یہ عمران خان اور تحریک انصاف کی جیت ہوگی۔
دوسری طرف حکومتی اتحاد اس تاثر کو ختم کرنے کی کوشش کرتا نظر آرہا ہے۔ حکومتی اتحاد بار بار واضح کر رہا ہے کہ ملک میں قبل از وقت اور فوری انتخابات کا کوئی امکان نہیں ہے۔ حکومتی وزرا بار بار کہہ رہے ہیں کہ ان پر قبل از وقت انتخابات کے لیے کوئی دباؤ نہیں ہے۔ ان کی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ وہ ایک دن بھی قبل از وقت انتخابات نہیں کروائیں گے۔ لیکن پھر بھی ملک میں انتخابات کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ یہ گونج سچ ہے یا جھوٹ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
کیا الیکشن کا سارا کھیل پنجاب حکومت پر منحصر ہے۔ اگر وفاقی حکومت اپنی پنجاب حکومت بچانے میں کامیاب ہو گئی تو عین ممکن ہے کہ ملک میں فوری انتخابات کی گونج ختم ہو جائے۔ لیکن اگر پنجاب حکومت نہیں بچتی۔ اگر وفاقی حکومت پنجاب حکومت کھو دیتی ہے تو پھر وفاق میں حکومت قائم رکھنے کا کوئی جواز نظر نہیں آرہا۔ سیاسی طور پر بھی صرف وفاقی حکومت قائم رکھنا کوئی قابل عمل صورتحال نہیں ہے۔ اس لیے جیسے جیسے پنجاقب حکومت خطرہ میں نظر آتی ہے ملک میں فوری نئے انتخابات کی گونج بڑھتی جاتی ہے۔
پنجاب حکومت پر ہی وفاقی حکومت کا مستقبل منحصر ہے۔ عمران خان بھی اس صورتحال سے بخوبی واقف ہیں۔ اسی لیے جہاں انھوں نے قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ وہاں وہ پنجاب حکومت حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ انھیں بھی علم ہے کہ اگر پنجاب حکومت انھیں نہ ملی تو ملک میں فوری نئے انتخابات کا امکان ختم ہو جائے گا۔
میں نے بھی پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد یہ لکھا تھا کہ ملک نئے انتخابات کی طرف جا رہا ہے۔ کیونکہ ان نتائج کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ حکومتی اتحاد پنجاب کھو دے گا۔ تا ہم چوہدری شجاعت کے خط نے کھیل بدل دیا۔ میرے لیے چوہدری شجاعت حسین کے خط میں یہ پیغام ہے کہ حکومتی اتحاد ابھی انتخابات کی طرف نہیں جانا چاہتا۔ وہ اپنی مدت پوری کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ساتھ پنجاب کی حکومت بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے چوہدری شجاعت کے خط والی آپشن استعمال کی گئی ہے۔ ورنہ انتخاب کا راستہ تو صاف نظر آرہا تھا۔ صورتحال واضح نظر آرہی تھی۔
عمران خان کے لیے پنجاب حکومت ہی آخری امید ہے۔ میں نہیں سمجھتا وہ کسی نرم مداخلت کی امید میں ہیں۔ انھیں تمام امیدیں عدلیہ سے ہی ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما ٹی وی ٹاک شوز میں اب کھلے عام کہتے ہیں کہ تمام معاملات سپریم کورٹ میں طے ہوں گے۔ ان کو امید ہے کہ انھیں ملک میں فوری انتخابات کی تاریخ بھی سپریم کورٹ سے ہی مل جائے گی۔ انھیں امید ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا معاملہ بھی سپریم کورٹ میں ہی حل ہو جائے گا۔ انھیں تمام معاملات کا حل سپریم کورٹ میں ہی نظر آرہا ہے۔ شاید عمران خان کے سپریم کورٹ پر اس قدر انحصار نے ہی سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔
میں اس بات سے بھی متفق نہیں کہ مقتدر حلقے بھی ملک میں فوری نئے انتخابات کے حق میں ہیں۔ تاہم ملک کے سیاسی حالات کے کئی پہلو ان کے کنٹرول میں نظر نہیں آرہے۔ سیاسی معاملات میں دوری نے بھی کئی مسائل پیدا کیے ہیں۔ وہ مسائل جن کا وہ آسانی سے حل نکال لیتے تھے۔ آج وہ ان کے بس سے باہر نظر آرہے ہیں۔
آپ سب بھی سمجھتے ہوں کہ ان کی صلاحیت میں کمی نہیں ہوئی بلکہ انھوں نے پالیسی تبدیل کر لی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اس وقت شدید مالی بحران میں ہے۔ خود حکومت کے اندر یہ بات کی جا رہی ہے کہ سری لنکا بننے اور ڈیفالٹ کا شدید خطرہ ہے۔ اس خطرہ کی بات تو کی جا رہی ہے لیکن اس سے بچنے کے لیے تمام سیاسی قوتیں اور ملک کے دیگر ادارے اکٹھے بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کیا ہماری حالت وہی ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ آج جب ملک ایک شدید مالی بحران میں ہے۔ ہم سب آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اور کوئی بھی اکٹھے بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ملک کے ادارے بھی سیاسی لڑائی ختم کروانے کے بجائے اس کو بڑھا رہے ہیں۔
کیا عدلیہ ملک کی سیاسی قوتوں کو اکٹھا بٹھا سکتی ہے۔ لیکن عدلیہ کے کچھ فیصلوں پر حکومتی اتحاد کو شدید اعتراض ہے۔ نظریہ اخلاقیات کے تحت کیے گئے فیصلے آئین سے متصادم نظر آرہے ہیں۔ ماضی میں نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے دیے گئے ۔ اب نظریہ اخلاقیات کی بات کی جا رہی ہے۔ اب حکومتی اتحاد عدلیہ کو نیوٹرل ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دوسری طرف عمران خان پاک فوج کو نیوٹرل ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس لیے ملک کی سیاسی قوتیں ایسے کسی ادارے پر متفق نہیں ہیں جو تصفیہ کروا سکے۔
کیا اس محاذ آرائی کے ماحول میں نئے انتخابات ممکن ہیں۔ کیا نگران حکومت کے دور میں ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے۔ کیا عالمی مالیاتی ادارے کسی نگران حکومت کے ساتھ معاملات کر لیں گے۔ ماضی میں آئی ایم ایف نے معین قریشی کی نگران حکومت کے ساتھ معاملات طے کرنے سے انکارکر دیا تھا۔ اس لیے خطرہ ہے کہ اگر آج حکومت ختم ہو جائے اور نگران حکومت بن جائے تو آئی ایم ایف قسط روک لے گا۔پھر کیا ہوگا۔ کیا کسی کو اس کا اندازہ ہے۔ اور کیا کسی کے پاس اس کا کوئی حل ہے۔ الیکشن الیکشن کی رٹ لگانے والوں کواس کا بھی کوئی حل سامنے رکھنا ہوگا۔ ورنہ الیکشن روکنے ہونگے۔ اور شاید روکنے کی ہی کوشش کی جائے گی۔