مارشل لاء ملک کے لیے تباہ کن ہوتا ہے

مارشل لا لگ گیا تو اُس کے برے نتائج ہوں گے اور یہ نتائج بہرحال ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کو بھگتنا پڑیں گے


[email protected]

سیدھی اور صاف بات ہے کہ اگر موجودہ حالات کو مزید گھمبیر بنادیا گیا تو پھر خدانخواستہ مارشل لاء کے امکانات پیدا ہوجائیں گے۔ ہماری تاریخ مارشل لاء کے حوالے سے اچھی نہیں رہی کیوں کہ پہلے مارشل لاء نے پاکستان کو کمزور کیا، دوسرے نے مشرقی پاکستان کو الگ کر دیا۔

تیسرے نے سیاچن بھارت کو دیا، جہادی پیدا کیے اور ساتھ کلاشنکوف کلچر متعارف کروایا، جب کہ چوتھے مارشل لا نے سوات طالبان کے حوالے کیااور کارگل کا محاذ گرم کرکے ملک کا نقصان کیا۔ خیر اس پر تو بعد میں بات کرتے ہیں مگر اس وقت ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ ملکی معیشت تباہ ہو رہی ہے، ڈالر 233کا ہو چکا ہے، اسٹاک مارکیٹ گزشتہ پانچ سال پہلے کی پوزیشن سے بھی خراب ہو چکی ہے۔

سیاسی ماہرین یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ ملک مارشل لاء کی طرف بڑھ رہا ہے، اگر خاکم بدہن ایسا ہوا تو پھر یہ ایک دو سال کے لیے نہیں بلکہ 10، 20سال کے لیے آئے گا۔ اور پھر اگر آپ ماضی کی بات کریں تو پاکستان میں یہ چکر 1958سے جاری ہے۔ فوجی آمر اپنے اقتدار کو طو ل دینے کے لیے عدلیہ سے قانونی ہونے کی سند حاصل کرتے ہیں اور سیاستدانوں سے سیاسی حمایت حاصل کرکے اپنا اقتدار مضبوط بنا لیتے ہیں ۔طویل فوجی حکمرانی کے نتیجے میں سامنے آنے والے سیاست دانوں کی کھیپ وژن اورنظریاتی وسعت سے محروم ہوتی ہے۔

ان میں نظام کو بہتر بنانے کا کوئی عزم اورجذبہ نہیں ہوتا۔ احتساب اورمواخذے کو ملک میں سیاسی وفاداریاں بدلنے کے لیے دباؤ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ 5 جولائی 1977اور 4اپریل 1979کے درمیان پیپلزپارٹی کے ہزارو ں کارکنوں اوراکثررہنماؤں کو بدترین مظالم کا نشانہ بنایاگیا ، پھانسیاں دی گئیں، کوڑے لگائے گئے اور ان پر تشدد کیاگیا۔ پی این اے میں شامل کچھ جماعتیں جلد ہی سمجھ گئیں کہ انھیں بھٹو سے چھٹکارے کے لیے ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں نے استعمال کیا ہے۔ ضیاالحق کے11سالہ اقتدار کا ''ثمر'' گن کلچر، جہاد، بے امنی اور غیر سیاسی شخصیات کی سیاست میں انٹری کی صورت میں نکلا جس کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

پھر آپ مشرف مارشل لاء کی بات کرلیں جو 1999 میں لگااور 2008تک قائم رہا۔ 12 اکتوبر 1999کی بغاوت کو بھی سانحہ ہی سمجھتا ہوں کیونکہ ایک منتخب سویلین حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہونے والے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے وطن عزیز کو مزید مسائل میں الجھا دیا ۔ ان کے ہوتے ہوئے نائن الیون کا واقعہ ہوگیا جس میں پاکستان دنیا بھر میں ''فرنٹ لائن'' اتحادی بن گیا۔ اور پھر مشرف نے ''سب سے پہلے پاکستان'' کا نعرہ لگا کر افغانستان میں امریکی حملے کو درست قرار دے کر افغان جنگ کو اپنے گھر لے آئے، سابقہ فاٹا اور سوات طالبان کا گڑھ بن گئے۔

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سوات میں ریاست کے اندر ریاست بن گئی۔ پھر پورے ملک میں دھماکے ہونے لگے، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ خودکش حملہ پاکستان کے کسی ضلع میں نہ ہوتا ہو۔ الغرض اس مارشل لاء کی بدولت پاکستان نے 70ہزار سے زائد قیمتی جانیں قربان کیں اور اربوں ڈالر کا نقصان اُٹھایا۔

قصہ مختصر کہ اب تک جتنے بھی مارشل لاء آچکے ہیں، کسی سے ملک کی بہتری نہیں ہوئی، مارشل لاء میں خبریں ٹیمپر کر کے عوام تک پہنچائی جاتی ہیں، سخت قسم کے سینسر لگا دیے جاتے ہیں۔ کرپشن بڑھ جاتی ہے، لاقانونیت بڑھ جاتی ہے،سرکاری ادارے من مرضی کرتے ہوئے عوام پر مسلط ہونا شروع ہو جاتے ہیں، دنیا آپ سے خفا ہوجاتی ہے، سرمایہ کار بھاگ جاتے ہیں، ملکی معیشت کا بھرکس نکل جاتا ہے، ملکی فیصلے ایک شخص کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں۔ لہٰذااسی لیے کہتے ہیں کہ بدترین جمہوری حکومت بھی مارشل لاء سے ہزار گنا بہتر ہوتی ہے۔

بہرحال اب کی بار اگر ایسے حالات ہوئے اور مارشل لا لگ گیا تو اُس کے برے نتائج ہوں گے اور یہ نتائج بہرحال ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کو بھگتنا پڑیں گے اور کیا یہ اس کے لیے تیار ہیں؟ اگر ہاں تو بسم اللہ اور پھر 20 سال کے لیے سیاست بھول جائیں اور اگر نہیں تو پھر ہر ایک کے مینڈیٹ کا احترام کرنا پڑے گا۔ میاں نواز شریف، زرداری اور عمران خان کو ڈائیلاگ کرنا ہوں گے ، یہ جمہوریت کے لیے آخری موقع ہے، ہم نے اگر یہ بھی کھو دیا تو پھر ہمیں واپسی کے لیے لمبا سفر طے کرنا پڑے گا۔ لہٰذاہمیں صرف یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مارشل لاء کوئی نظام نہیں ہوتا، صرف طاقت اور جبر ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔