کیا فوری انتخابات ہی مسائل کاحل ہیں
آج بھی الیکشن کے شفاف عمل پر عوام کے ساتھ ساتھ خواص کا اعتبار کم ہی ہوتا ہے
لاہور:
جدیددنیا میں الیکشن ایک معمول کی کارروائی ہوتے ہیں ، ووٹر الیکٹرانک مشینوں اور کمپیوٹر کے ذریعے اپنی پسندیدہ جماعت کے امیدوار کے لیے اپنے حق رائے دہی کا اظہار کرتے ہیں۔
امریکا اور مغربی ممالک میںالیکشن کی شفافیت میں بہت بڑا عمل دخل ان الیکڑانک آلات کا ہے جن کی وجہ سے ان ممالک میں انتخابی عمل کی شفافیت پر بہت کم ہی انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں اور نہ ہی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں بھی گزشتہ حکومت نے الیکڑانک مشینوں کے ذریعے آیندہ کے انتخابی عمل کا ڈول ڈالا لیکن موجودہ حکومت نے اسے ختم کردیا جس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ ابھی ہمارے ووٹرز اس قابل نہیں کہ وہ ان مشینوں کا استعمال کر سکیں۔ ہماری پچھتر سالہ سیاسی تاریخ میں اول تو الیکشن کم ہوئے اور جو ہوئے بھی ان کی شفافیت مشکوک رہی ہے۔
آج بھی الیکشن کے شفاف عمل پر عوام کے ساتھ ساتھ خواص کا اعتبار کم ہی ہوتا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ جو سیاست دان الیکشن کے عمل میں شریک ہوتے ہیں وہی الیکشن کی شفافیت پر انگلیاں بھی اٹھاتے ہیں، البتہ یہی سیاستدان کسی غیر جمہوری حکومت کا حصہ بننے کو ہر دم تیار رہتے ہیں جو الیکشن کے بغیر معرض وجود میں آتی ہے۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ غیر جمہوری حکومتیں انھی سیاستدانوں کی بے اعتدالیوں اور لوٹ مار کے الزامات کے باعث معرض وجود میں آتی ہیں ۔
فرد واحد کی ان حکومتوں میں حصہ دار سیاستدان کچھ عرصہ تو خاموش رہ کر وزارتوں کا لطف اٹھاتے ہیں لیکن کچھ مدت کے بعد انھیں جمہوریت کی یاد ستانے لگ جاتی ہے اور یہ پھر سے الیکشن کے انعقاد کے لیے تگ ودو میں جت جاتے ہیں ۔پاکستان میں جب بھی الیکشن ہوتے ہیں یہ معمول کی کاروائی سے ہٹ کر ہوتے ہیں اور کوئی انتخاب ایسا نہیں ہو سکا جس کی شفافیت پر انگلیاں نہ اٹھائی گئی ہوں ۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں اس کلچر کی عادی ہو چکی ہیں کہ ان کے پسندیدہ انتخابی نتائج نہ ملیں تو سارا انتخابی عمل ہی مشکوک ہو جاتا ہے ۔آج کل بھی فوری الیکشن کے انعقاد کا مطالبہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ہماری سماعتوں سے ٹکرا رہاہے۔ جب سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی ہے، انھوں نے شہباز شریف کی سربراہی میں قائم اتحادی حکومت کو قبول نہیں کیا ہے اور فوری الیکشن کے انعقاد پر زور دے رہے ہیں ۔اسی شور شرابے میں پنجاب کے ضمنی انتخابات میں زیادہ نشتوں پرکامیابی کے بعد تحریک انصاف کی قیادت اس بات پر مصر ہے کہ فی الفور قومی انتخابات کرائے جائیں۔
ان کو شاید یہ زعم ہے کہ آیندہ انتخابات میں عوام کی ترجیح تحریک انصاف ہو گی، وہ عوام کو باور کرا رہے ہیں کہ ملک کے معاشی مسائل کا حل ان کے پاس ہے حالانکہ ان کی تقریباً چار سالہ حکومتی مدت جس میں دعوؤں کے برعکس کوئی خاطر خواہ کارکردگی دیکھنے میں نہیں آئی، عوام کے لیے کوئی سہولت اور آسانی فراہم کی گئی ہو مگر وہ پھر بھی معیشت کو بہتر بنانے پر مصر ہیں۔
وہ تو بھلا ہو ن لیگ کی اتحادی حکومت کا جس نے تحریک انصاف کی بری کارکردگی کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا اور حکمرانی کے از حد شوق میں کانٹوں بھری حکومت سے اپنی سیج سجا لی۔ سیانے کہتے ہیں کہ سیاست میں ٹائمنگ کاعمل دخل نہایت اہمیت کاحامل ہوتا ہے۔ ن لیگ نے شاید غلط وقت پرووٹ کو عزت دینے کے اپنے مزاحمتی بیانئے کو دفن کر دیا جس کا ابھی تک یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اتحادی جماعتیں ملک کے معاشی اور سیاسی حالات سے پریشان ہو کر ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ مخالف بیا نئے کی تیاری کر رہی ہیں۔
سیاست کے اتار چڑھاؤ کے اس عمل میں امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق نے اپنی یاد دلاتے ہوئے کہا ہے کہ اتحادی حکومت اور تحریک انصاف کے علاوہ جماعت اسلامی بھی میدان میں موجود ہے اور عوام اس کی طرف رجوع کریں۔ جماعت اگرچہ کسی متوازن یا غیر متوازن قائد کے تحت کام نہیں کرتی بلکہ وہ چند اصولوں کی قیادت میں کام کرتی ہے اور اس کام کی نگرانی کے لیے کسی کو منتخب کر لیتی ہے لیکن عام جماعتوں پر قیاس کرتے ہوئے اگر سراج الحق صاحب کو ہی جماعت اسلامی کہہ دیں تو یہ رائج الوقت بات ہو گی لیکن مشکل یہ ہے کہ عوام جماعت اسلامی کو پسند تو کرتے ہیں لیکن ابھی تک ان کی پسندیدگی اس حد تک نہیں پہنچ سکی کہ وہ ووٹ کے لیے بھی جماعت کا انتخاب کر سکیں۔
جماعت کے لیے یہ بات ہمیشہ لمحہ فکریہ رہی ہے کہ ایک اصل جمہوری جماعت ہونے کے باوجود الیکشن میںوہ پاکستانی عوام کی توجہ حاصل کرنے سے محروم رہتی ہے۔اس ضمن میں جماعت کے کار پردازوں سے عرض ہے کہ وہ وجوہات تلاش کریں کہ پاکستانی عوام ایک اصول پرست جماعت کو ووٹ کا حق دینے سے کیوں کتراتے ہیں۔
جماعت کا ذکر تو ضمناً آگیا اصل بات تو الیکشن کی ہورہی ہے جومعیشت کی موجودہ انتہائی نازک صورتحال سے نکلنے کا واحد ذریعہ قرار دیے جارہے ہیں لیکن قبل از وقت انتخابات بگڑتی معیشت کا حل ہر گز نہیں ہیں،اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی قیادت مل بیٹھے اور اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے مفاد پر غورو فکر کرے اور میثاق معیشت کا ڈول ڈالا جائے ۔ اتحادی حکمرانوں کی جانب سے در پردہ اس بات پر آمادگی کا اظہار ہو رہا ہے لیکن عمران خان شاید ابھی اس موڈ میں دکھائی نہیں دیتے اور وہ صرف اسی صورت میں گفتگو کرنے کا ارادہ ظاہر کر رہے ہیں کہ انھیں نئے الیکشن کی تاریخ دے دی جائے جو کہ سر دست یا فی الفور ممکن نہیں ہے۔
ملک معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور اس وقت ایک مستحکم جمہوری حکومت پاکستان کی ضرورت ہے کیونکہ آج کی دنیا جمہوری حکمرانوں سے بات چیت کر نا پسند کرتی ہے ۔ملک کو معاشی گرداب سے نکالنے کے لیے آئی ایم کا قرضہ ہی ہمیں دیوالیہ ہونے سے بچا سکتا ہے ۔
برادر اسلامی ملکوں اور دوستوں نے تو ہم سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور وہ ہمارے ساتھ شراکتی کاروبار یا امداد کے لیے قطعاً تیار نہیں ہیں بلکہ شنید یہ ہے کہ اگر کچھ فروخت کرنا ہو تو وہ نقد روپوں کے عوض خریداری کے لیے ضرورتیار ہیں ۔ کل تک جو ملک پاکستان کے ایٹم بم کو اسلامی بم کہتے تھے آج اس اسلامی بم کی حفاظت سے بھی بوجوہ کنی کترا رہے ہیں ۔ پاکستان کے دوستوں کی بے رخی کے باوجود مجھے یقین اور امید ہے کہ پاکستان اور پاکستانی قوم ان مشکل حالات سے نکل آئے گی اور مایوسی کا یہ دور بہت جلد ختم ہو جائے گا۔