بارگاہِ نبوت سے فیضیاب عمر ؓ
کون عمر؟ وہ عمر جنھیں اپنی مرضی سے نہ بولنے والے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاف کعبہ پکڑ کر دْعاؤں میں مانگا
ماہ محرم کی آمد آمد ہے، آج اٹھائیس ذوالحجہ ہے اور دو دن بعد نئے اسلامی سال کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلامی سال کا آغاز بھی قربانی سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام بھی قربانی پر ہے۔ ذوالحجہ کی دس گیارہ اور بارہ تواریخ کو دنیا بھر کے مسلمان سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے اﷲ کی راہ میں قربانی کرتے ہیں جب کہ یکم محرم کو حضرت عمر بن خطابؓ کی المناک شہادت کا سانحہ رونما ہوا۔
کون عمر؟ وہ عمر جنھیں اپنی مرضی سے نہ بولنے والے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاف کعبہ پکڑ کر دْعاؤں میں مانگا، اے اﷲ مجھے عمر بن خطاب عطا فرما دے، کون عمر؟ امیرالمومنین عمر،کون عمر؟ عراق، شام، دمشق، حمس، یرموک، بیت المقدس، کساریہ، تکریت، خوزستان، آذربائیجان، تبرستان، آرمینیا، فارس، کرمان، سیستان، مکران، خراسان، مصر، سکندریہ پر اسلام کا پرچم لہرانے والا عمر۔ کون عمر؟ اسلامی سلطنت میں بیت المال کا شعبہ فعال کرنے والا عمر، مکاتب و مدارس کا قیام عمل میں لانے والا عمر، اساتذہ کی تنخواہیں مقرر کرنے والا عمر، اسلامی مملکت کو صوبوں اور اضلاع میں تقسیم کرنے والا عمر، عشرہ خراج کا نظام نافذ کرنے والا عمر، مسلم دنیا میں پہلی مردم شماری کی بنیاد ڈالنے والا عمر، محکمہ عدالت اور قاضیوں کے لیے خطیر تنخواہیں متعین کرنے والا عمر، پولیس کا محکمہ قائم کرنے والا عمر، جیل خانہ وضع کرنے والا عمر اورجلاوطنی کی سزا متعارف کرانے والا عمر۔ باقاعدہ فوج اور پولیس کے ملازمین بھرتی کرنے والا عمر، زراعت کے فروغ کے لیے نہری نظام متعارف کرانے والا عمر، حرم اور مسجد نبوی کو وسعت دینے والا عمر، باجماعت نماز تراویح کا اہتمام کرانے والا عمر، فجر کی اذان میں الصلوۃ خیر من النوم کا اضافہ کرانے والا عمر، حربی تاجروں کو تجارت کی اجازت دینے والا عمر، مفلوک الحال، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے وظائف مقرر کرنے والا عمر، مکہ اور مدینہ کے درمیان مسافروں کے آرام کے لیے سرائیں اور چوکیوں کا قیام عمل میں لانے والا عمر، بچوں کے وظائف مقرر کرنے والا عمر، امام اور موذن کی تنخواہ مقرر کرانے والا عمر، مساجد میں وعظ کا طریقہ جاری کرانے والا عمر۔
اﷲ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مانگ لیا۔ دعائے رسول کے بعد عمر بن خطاب تلوار گردن میں لٹکائے ہاتھ بندھے سیدھے دروازہ رسولﷺ پر پہنچے، صحابہ کرام نے جب یہ آنے کی کیفیت دیکھی تو بارگاہ رسالت میں دست بستہ عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر اس حالت میں آرہے ہیں تو آپ نے فرمایا، انھیں آنے دو، نیّت اچھی تو بہتر ورنہ اسی تلوار سے اس کا سر قلم کردیا جائے گا۔
جب بارگاہ رسالت میں عمر بن خطاب حاضر ہوئے دست رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بیعت کر کے کلمہ طیبہ پڑھا تو"نعرہ تکبیر اللہ اکبر" کی فلک شگاف صدائیں بلند ہوئیں تو ہر طرف بخِِ بخِِ (مبارک مبارک) کی آوازیں گونجیں جس عمر بن خطاب کے آنے پر اتنی خوشیاں منائی گئیں، جس کے رْعب اور دب دبہ سے دشمنان اسلام اس قدر حواس باختہ ہوتے تھے کہ بے شک یہ مرد قلندر کھلے آسمان تلے تن تنہا تلوار اور کوڑا لٹکا کر آرام کر رہا ہوتا تھا مگر کسی کو یہ جرأت نہ ہوتی تھی کہ عمر بن خطاب کا کوڑا یا تلوار اْٹھاتا۔ اسی بناء پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عمر کی زبان اور قلب کو اللہ تعالیٰ نے صداقت کا مصدر بنادیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وجود مسعود سے اسلام کی شان و عظمت کو قیصر و کسریٰ کے ایوانوں تک پہنچادیا۔
دمشق کے عظیم مفکر و ادیب شیخ علی طنطاوی کہتے ہیں''عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت وخصائص کے بارے میں جیسے جیسے میری معلومات میں اضافہ ہوتا گیا آپ کے ساتھ میری دلچسپی اور عقیدت بڑھتی گئی، میں نے مسلم اور غیر مسلم ہزاروں عظیم شخصیتوں کی سیرتوں کا مطالعہ کیا، تو دیکھا کہ کوئی فکر و دانائی میں بلند ہے، کوئی زبان و بیان میں، کسی کو اخلاقیات میں برتری حاصل ہے تو کسی کے نقوش و کارنامے سب سے اعلیٰ ہیں۔ گویا سب کی الگ الگ خصوصیات ہیں۔ لیکن جب میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو پڑھا تو دیکھا کہ ہر چہار جانب سے ان پر عظمتوں کا تاج ہے۔
آپ بلندیٔ فکر کے حامل ہیں اور اخلاق و بیان کے بھی شہ سوار ہیں۔ اگر آپ نامور فقہائے امت و علمائے اسلام کو شمار کرنا شروع کریں تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو سرفہرست پائیں گے، اگر خطباء و بلغاء کی فہرست دیکھیں تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا نام سب سے پہلے دیکھیں گے، اگر قانون دانی کے ماہروں، فوجی سپہ سالاروں کے ممتاز دانش وروں اور کامیاب حکمرانوں کے سرکردہ افراد کا ذکر چھیڑیں تو عمر رضی اللہ عنہ کو ہر گروہ میں پیش پیش اور ان کا امام پائیں گے اور اگر حکومت ومملکت آباد کرنے والے اور زمین میں اپنے آثار و نقوش چھوڑنے والے دنیا کے بڑے بڑے انسانوں کو تلاش کریں تو ان میں عمر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر بلند مقام اور شرف وعظمت والا کوئی نظر نہ آئے گا۔ مزید برآں آپ اخلاق کے دھنی اور تواضع کے شاہکار تھے۔
سبحان اللہ سبحان اللہ۔ آپ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود 22لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھیں، آپ کے اندازِحکمرانی کودیکھ کر ایک غیر مسلم یہ کہنے پہ مجبور ہوگیاکہ ''اگر عمر کو 10سال خلافت کے اور ملتے تو دنیا سے کفر کانام ونشان مٹ جاتا''۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کازمانہ خلافت اسلام کی فتوحات کا دور تھا۔اس میں دو بڑی طاقتوں ایران وروم کو شکست دے کرایران عراق اور شام کو اسلامی سلطنتوں میں شامل کیا، بیت المقدس کی فتح کے بعدآپ خودوہاں تشریف لے گئے۔
قبول اسلام کے بعد عہد نبوت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سرکار دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہ صرف قرب حاصل ہوا بلکہ تمام معاملات میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشاورت کو اہمیت حاصل تھی۔ غزوات ہوں یا حکومتی معاملات، سب میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ لیا جاتا تھا۔ حضرت عمر فاروق ؓ کا مشہور قول ہے کہ ''اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کُتا بھی پیاسا مر گیا تو عمر سے پوچھا جائے گا''۔
اس قدر خوف خدا رکھنے والا راتوں کو جاگ کر رعایا کی خدمت اور جس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی تائید میں سورہ نور کی آیات مبارکہ کا نازل ہونا جس نے اپنی آمد پر مدینہ کی گلیوں میں اعلان کیا، کوئی ہے جس نے بچوں کو یتیم کرانا ہو، بیوی کو بیوہ کرانا ہو، ماں باپ کی کمر جھکانا ہو، آنکھوں کا نورگْم کرانا ہو،آئے عمر نے محمد رسول اللہﷺکی غلامی کا دعویٰ کر لیا ہے، آج سے اعلانیہ اذان اور نماز ہوا کرے گی۔ آخری ایامِ حیات میں آپؓ نے خواب دیکھا کہ ایک سرخ مرغ نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین چونچیں ماریں،آپؓ نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا اور فرمایا کہ میری موت کا وقت قریب ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ایک روز اپنے معمول کے مطابق بہت سویرے نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے۔
اس وقت ایک درّہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور سونے والے کو اپنے درّہ سے جگاتے تھے، مسجد میں پہنچ کر نمازیوں کی صفیں درست کرنے کا حکم دیتے، اس کے بعد نماز شروع فرماتے اور نماز میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے۔ اس روز بھی آپؓ نے ایساہی کیا، نماز ویسے ہی آپؓ نے شروع کی تھی، صرف تکبیر تحریمہ کہنے پائے تھے کہ ایک مجوسی کافر ابو لؤلؤ (فیروز) جو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا غلام تھا، ایک زہر آلود خنجر لیے ہوئے مسجد کی محراب میں چھپا ہوا بیٹھا تھا، اس نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین کاری زخم اس خنجر سے لگائے، آپؓ بے ہوش ہوکر گر گئے اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر امامت کی، مختصر نماز پڑھ کر سلام پھیرا، ابولؤلؤ نے چاہا کہ کسی طرح مسجد سے باہر نکل کر بھاگ جائے، مگر نمازیوں کی صفیں مثل دیوار کے حائل تھیں، اس سے نکل جاناآسان نہ تھا، اس نے اور صحابیوں کو بھی زخمی کرنا شروع کردیا، تیرہ صحابی زخمی، جن میں سے سات جاں بر نہ ہوسکے، اتنے میں نماز ختم ہوگئی اور ابولؤلؤ پکڑ لیا گیا، جب اس نے دیکھا کہ میں گرفتار ہوگیا تو اسی خنجر سے اس نے اپنے آپ کو ہلاک کردیا۔
یکم محرم کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی، حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور خاص روضۂ نبویﷺ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میںآپؓ کی قبر بنائی گئی۔ خلیفہ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور ختم ہونے کے ساتھ ایک وسیع ومستحکم اسلامی سلطنت کے بانی کا دور ختم ہوجاتا ہے۔
آپ ایک فاتح قائد، باشعور و عالی ہمت امیر، ذمے دار نگران، مہربان، نرم دل، انصاف پسند اور قوی حاکم تھے، آپ نے فرض منصبی کی ادائیگی اور سچائی و نیکی کی چوکھٹ پر خود کو قربان کر دیا، اللہ کے برگزیدہ بندوں، صدیقین اور صالحین کی فہرست میں آپ نے بھی اپنا نام درج کروا لیا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا نام انسانی تہذیب و تمدن اور فقہ و بصیرت اور تمدن کی تاریخ میں ہمیشہ چمکتا ہوا باقی رہے گا۔