بارے ساون کا کچھ بیاں ہو جائے

سیاسی قائدین کی دھواں دار بیان بازیاں ملک کی سیاست میں ہلچل پیدا کر رہی ہیں


Latif Chaudhry July 28, 2022
[email protected]

کراچی: سیاسی محاذ آرائی 'آئینی اور قانونی موشگافیوں اور معاشی زوال کے اسباب و علل بے نقاب کرنے کے لیے رنگ برنگے تجزیہ کاروں اور اینکرز حضرات کی فوج میدان کارزار میںبرسرپیکار ہے۔

سیاسی قائدین کی دھواں دار بیان بازیاں ملک کی سیاست میں ہلچل پیدا کر رہی ہیں'ایسے حالات کے بارے میں سیانوں کا کہنا ہے کہ تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔ اس لیے میں نے سوچا کہ ایسے ماحول میں جب کہ اڑتا ہوا تیز نظر بھی آ رہا ہو تو بھاگ کر اس کے سامنے جانا اول درجے کی حماقت ہو گی۔ ویسے بھی ملک کے مسائل کوحل کرنے کے لیے بقراطوں اور بزرج مہروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ وطن عزیز میں یہ فصل چاروں طرف لہلہا رہی ہے۔ لہٰذا سارے جھمیلوں سے ہٹ کر کچھ اور لکھا جائے۔ ویسے بھی طویل وقفے کے بعد قلم استعمال کرنا 'مشکل ہو جاتا ہے۔

آڑے ترچھے خیالات لفظوں میں ڈھل نہیں پاتے اور اسی ادھڑبن میں قلم ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ ملک کے حالات تو 70برس سے ہی نازک اور سنگین چلے آ رہے ہیں 'پاکستان بنا تو تب بھی حالات سنگین تھے ' قائداعظم کی رحلت ہوئی تو حالات خطرناک تھے 'لیاقت علی خان کو گولی مار کر قتل کیا گیا تو حالات خراب تھے ' ایوب خان آیا تو حالات تب بھی اچھے نہیں تھے بلکہ محترمہ فاطمہ جناح بہت بڑا خطرہ بن کر سامنے آئیں اور اس وقت کے خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے بڑی بہادری کے ساتھ اس خطرے کا قلع قمع کر کے پاکستان کو بچا لیا۔ اس کے بعد ایک اور صاحب جو جنرل محمد یحییٰ خان کے نام سے جانے جاتے تھے' وہ بھی پاکستان کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کرتے رہے اور ان کی پیروی میں جنرل اے اے کے نیازی مشرقی پاکستان میں پاکستان کو بچاتے بچاتے سرنڈر پر تیار ہو گئے۔

پھر بھٹو صاحب نے بچے کھچے پاکستان کو بچانے کا بیڑا اٹھایا لیکن وہ بھی ' محب وطن ' نہیں تھے۔ مرد مومن مرد حق نے آگے بڑھ کر ملک کو درپیش خطرات سے نکالا اور بھٹو کو عدالت میں کھڑا کر کے انصاف کا پرچم سربلند کرایا ' یوں پاکستان ایک بار پھر محفوط ہاتھوں میں پہنچ گیا۔

اس محفوظ پاکستان پر جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھیوں نے اپنے تجربات کا آغاز کیا 'پاکستان کے عوام کو سیکولر اور لبرل نظریات و خیالات سے محفوظ رکھنے کے لیے طویل المدتی تعلیمی پالیسی تیار کی اور جیسا کہ آپ کو پتہ ہی ہے کہ پاکستان میں علم و دانش کی کمی نہیں ہے ' ملک کے دائیں بازو کے اہل دانش نے پاکستان کو جدیدیت اور اعتدال پسندی جیسی برائیوں سے محفوظ کرنے کے لیے بغیر کسی لالچ اور طمع کے ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں کو اپنی خدمات پیش کر دیں۔

یہ الگ بات ہے کہ انھیں باامرمجبوری کچھ وزارتیں اور عہدے قبول کرنا پڑے ورنہ انھیں تو ان چیزوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ان کا مشن پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو محفوظ بنانا تھا اور اب بھی ہے ۔ دیکھیں میں جذبات کی روح میں بہہ کر کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔ جن باتوں سے جان چھڑانا تھا'انھیں میں الجھ کر رہا گیا 'سوری !میں کچھ زیادہ ہی دانشور بن گیا۔ لہٰذا ان باتوں کو یہیں چھوڑ کر کہیں اور چلتے ہیں۔

آج کل ساون کا مہینہ ہے 'بارشیں چل رہی ہیں اور امنگیں مچل رہی ہیں۔ساون کا مہینہ ہو اور بارش کا بیان نہ ہو' یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اردو اور ہندی شاعری میں ساون رت کا ذکر ایسے دل موہ لینے والے اندازمیں کیا گیا ہے، جیسے جنت میں شاید ایسا ہی موسم ہوگا۔ کالی اور گنگھور گھٹائیں' کبھی رم جھم'پھوار پڑتی ہے' کبھی موسلادھار بارش' ٹھنڈی ہوائیںروح تک اتر جاتی ہیں' ہر جانب ہریالی، باغوں میں جھولے اور پینگیں' الہڑ مٹیاروں کی چوڑیوں کی چھن چھن' مترنم قہقہے اور ماہی کی یاد میں گیت ۔اسی ظالم مہینے سے وابستہ ہیں۔

اوچیاں لمیاں ٹالیاں اوئے

وچ گجری دی پینگ وے ماہیا

ساون اور برسات کو لے کر شاعروں نے کمال فن کا ایسا مظاہرہ کیا ہے کہ سدبدھ جاتی رہتی ہے اور قاری تصور ہی تصور میں برسات کی رعنائیوں اور محبت میں کھو کر کسی اور دنیا میں پہنچ جاتاہے۔ ایسی دنیا جہاں دوست ہوتے ہیں' عاشق اور معشوق عہد و پیماں باندھتے ہیں۔ بارشوں میں بھیگتے ہیں، مستی اور شرشاری میںماہیے'ٹپے اور گیت گاتے ہیں۔ استاد برکت علی خان نے تو کمال کر دیا۔راگ پہاڑی میں گایا ہوا اردو ماہیا دل کے تار چھیڑ دیتا ہے۔پڑھئیے اور سر دھنیے۔

باغوں میں پڑے جھولے

تم بھول گئے ہم کو

ہم تم کو نہیں بھولے

یہ رقص ستاروں کا

سن لو کبھی افسانہ

تقدیر کے ماروں کا

ساون کا مہینہ ہے

ساجن سے جدا رہ کر

جینا بھی کیا جینا ہے

اب ذرا آنجہانی مکیش اور لتا منگیشکر کے گائے ہوئے اس چلبلے نغمے کا مکھڑا ملاحظہ کیجیے

ساون کا مہینہ 'پون کرے سور

جیا را را جھومے ایسے

جیسے بن میں ناچے مور

کیا یہ گیت سن کر بے اختیار دل مچلنے کو نہیں لگتا' میرا تو مچلتا ہے ، آپ کا پتہ نہیں۔

اب ذرا برسات اور بارش کی مبارک باد کا پیغام ان اشعار میں ملاحظہ کریں۔

بیسن کی روٹی' لیموں کا اچار

دوستوں کی خوشی اپنوں کا پیار

ساون کی بارش' کسی کا انتظار

مبارک ہو آپ کو بارش کی بہار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھیگے موسم کا بھیگا سا ساتھ

بھولا ہوا وقت' بھولی ہوئی بات

وہ بھیگی سی آنکھیں' وہ بھیگی سی یاد

مبارک ہو' آپ کو ساون کی برسات

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں