عدالت عظمیٰ کا فیصلہ

فیصلے کے تحت انھوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین و قانون کے مطابق درست نہیں ہے


Editorial July 28, 2022
فیصلے کے تحت انھوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین و قانون کے مطابق درست نہیں ہے۔ فوٹو:فائل

سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ نے اگلے روز چوہدری پرویزالٰہی کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ کالعدم قراردیدی اور پرویز الٰہی کو 22 جولائی سے ہی وزیراعلیٰ پنجاب قرار دے دیا ہے۔سپریم کورٹ کے3رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال تھے جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختربینچ کے رکن تھے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے مختصر فیصلہ سنایا۔ اس فیصلے کے تحت انھوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین و قانون کے مطابق درست نہیں ہے، گورنر پنجاب کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ پرویز الٰہی سے رات ساڑھے گیارہ بجے تک حلف لیں، اگر گورنر تیار نہ ہوں تو صدر عارف علوی وزیراعلیٰ سے حلف لیں۔ حمزہ شہباز کا حلف غیرآئینی تھا، وہ اب وزیراعلیٰ پنجاب نہیں رہے۔ پنجاب کابینہ بھی کالعدم قرار دی جاتی ہے، حمزہ شہباز اور ان کی کابینہ فوری طور پر عہدہ اور دفاتر چھوڑدیں۔

حمزہ شہباز اور کابینہ کے آئین و قانون کے مطابق کیے گئے فیصلوں کو تحفظ حاصل ہوگا، نئے وزیراعلیٰ اور کابینہ چاہے تو ان اقدامات کو واپس لے سکتے ہیں یا ترمیم کر سکتے ہیں۔ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ برقرار نہیں رکھی جا سکتی، پنجاب میں آئین کے مطابق گورننس کی نفی کی گئی اور عوام کے بنیادی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، حمزہ شہباز منتخب وزیراعلیٰ نہیں ہیں۔

ان کے حلف اور کابینہ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، فیصلے میں کہا گیا کہ کیس میں بنیادی سوال آرٹیکل 63 اے پر عدالتی فیصلے کے عملدرآمد اور بنیادی حقوق کا تھا، سپریم کورٹ کے 2015 کے جسٹس عظمت سعید کے فیصلے سے متعلق دلائل اس کیس میں قابل قبول نہیں، جسٹس عظمت سعید کے تحریر کردہ فیصلے میں پارٹی سربراہ سے متعلق پاسنگ ریمارکس تھے، جسٹس عظمت سعید کے فیصلے میں پارٹی سربراہ سے متعلق ریمارکس کی آئین کے الفاط سے مطابقت نہیں، جسٹس عمر عطا بندیال نے21ویں آئینی ترمیم کے فیصلے میں الگ سے تحریری نوٹ میں آرٹیکل 63 اے کا ذکر نہیں کیا تھا۔

عدالت نے حکم دیا کہ فیصلے کی نقول فوری طور پر گورنر اور چیف سیکریٹری پنجاب کو پہنچائی جائیں۔ قبل ازیں گزشتہ روز سماعت شروع ہوئی تو ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر اور پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے اور کہا کہ انکے موکلان کی ہدایت ہے کہ عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بننا، ملک میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ چل رہا ہے، فل کورٹ سے متعلق فیصلے پر نظرثانی دائر کریں گے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد چوہدری پرویز الہی اپنے رفقا کے ہمراہ وزیر اعلیٰ کا حلف لینے کے لیے گورنر ہاؤس پہنچے لیکن گورنر ہاؤس کے دروازے بند کر دیے گئے اور انھیں اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ وہاں کچھ دیر انتظار کے بعد پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر اور ایم پی اے میاں محمود الرشید نے صدر مملکت کو ٹیلیفون کیااور انھیںبتایاکہ گورنر بلیغ الرحمان پرویز الٰہی سے حلف لینے سے کترا رہے ہیں ' اس کے بعد ایوان صدر اسلام آباد میں حلف لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ادھرچیف سیکریٹری پنجاب نے وزیر اعلیٰ پنجاب کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا۔

نومنتخب وزیر اعلیٰ کو لینے کے لیے خصوصی طیارہ اسلام آباد سے لاہور پہنچا جو انھیں لے کر اسلام آباد پہنچا۔ زین قریشی ،میاں محمود الرشید، مراد راس اور چوہدری وجاہت بھی چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ طیارے پر اسلام آباد پہنچے۔ جہاں صدر عارف علوی نے ان سے حلف لیا۔ یوںحلف برداری کا عمل مکمل ہو گیا۔ اب پنجاب کابینہ کی تشکیل کا فیصلہ ہو گا اور پنجاب کے سرکاری امور کے انجام دہی کا باقاعدہ آغاز ہو جائے گا۔

وفاقی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں نے اس فیصلے پر کڑی تنقید کی ہے اور ان جماعتوں کے وکلاء نے عدالتی کارروائی کا حصہ بننے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ اب پنجاب اور مرکز میں سیاست کیا رخ اختیار کرتی ہے، اس کا اندازہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی 'جے یو آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کے تندوتیز بیانات سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ ادھر پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے بیانات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ملکی سیاست میں افراتفری اور انتشار کم ہونے کا امکان نہیں ہے بلکہ یہ انتشار پہلے سے بھی زیادہ بڑھ سکتا ہے۔

پنجاب گزشتہ تین چار ماہ سے سیاسی محاذ آرائی اور عدالتی فیصلوں کے اثرات کی وجہ سے انتظامی طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔بیوروکریسی کے تبادلے اور تقرریاں مسلسل جاری ہیں۔ اب پنجاب کے نومنتخب وزیر اعلیٰ صوبے میں استحکام لانے میں کس قدر کامیاب ہوتے ہیں ' اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہو جائے گا لیکن سیاسی منظرنامے کو دیکھا جائے تو حالات کچھ زیادہ اچھے نظر نہیں آتے اور صوبے میں سیاسی محاذ آرائی میں اضافہ نظر آتا ہے۔

ملک میں مسلسل سیاسی ومعاشی غیریقینی صورتحال کے باعث ڈالر کے نرخ بڑھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ادھر ہفتہ واربنیادوں پر زرمبادلہ میں مسلسل کمی اور روپے کی قدر مزید گھٹنے کے خدشے کے پیش نظر درآمدی شعبوں کی لیٹر آف کریڈٹس کھولنے کی رفتار تیز ہوگئی ہے جس سے روپے پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے جب کہ برآمدکنندگان زرمبادلہ کی صورت میں موصول ہونے والی برآمدی آمدنی کو روپے میں تبدیل کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے جب تک سیاسی حالات بہتر نہیں ہوتے اور آئی ایم ایف قسط جاری نہیں ہوتی تب تک ڈالر کی اڑان جاری رہے گی۔

ادھرسٹاک مارکیٹ بھی مسلسل مندی کا شکار چلی آ رہی ہے۔اس صورت حال میںمارکیٹ کے بڑے پلیئرزچھوٹے انویسٹرز کو کھا رہے ہیں'کرنسی مارکیٹ کا بھی یہی حال ہے۔ادھر ملک کے بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام میں معاشی تنزلی کی رفتار بڑھا دی ہے' ابھی تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے طے نہیں پا سکا۔پاکستان کی سیاست اور معیشت کے ساتھ جو کھیل کھیلا جا رہا ہے ' اس کا نتیجہ سب کو معلوم ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ملک کے پالیسی ساز اور دیگر سٹیک ہولڈرز اپنے مفادات کی جنگ ریاست کی قیمت پرلڑ رہے ہیں۔دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں بھی پاکستان کا نمبر مسلسل نیچے جا رہا ہے۔

ادھر وفاقی کابینہ نے بجلی کی قیمت میں مرحلہ وار اضافہ کی منظوری دیتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ 5بڑے برآمدی شعبوں کو ترجیحی بنیاد پر کم قیمت پر گیس اور بجلی فراہم کی جائے گی، ڈیڈیکیٹڈ صنعتی فیڈرز کو 24 گھنٹے بجلی کی فراہمی جاری رہے گی، غریب ترین صارفین پر بجلی کی قیمت میں اضافہ کا اثر نہیں پڑے گا، 26 جولائی سے بجلی کی قیمت میں اضافہ 3روپے 50پیسے فی یونٹ اور آیندہ ماہ سے مزید 3روپے 50فی یونٹ ہوگا، اکتوبر میں بجلی کی قیمت 90 پیسے فی یونٹ بڑھے گی، نومبر کے بعد بجلی کی قیمت میں کمی شروع ہو جائے گی۔

قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر مرتضی سید نے کہا کہ ہمیں طوفان کے ٹل جانے کا انتظار نہیں کرنا۔ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کیے جانے والے وعدے پورے کرنے ہوں گے ، مشکلات کے بارے میں عوام سے کھل کر بات کرنی ہوگی اور مشکلات سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا ہوگا، مراعات یافتہ طبقے کو زیادہ بوجھ اٹھانا ہوگا جب کہ غریب طبقے کو تحفظ دینا ہوگا۔ اسٹیٹ بینک کے ترجمان کے مطابق قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ عالمی معیشت میں کئی بحران بیک وقت ابھرتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور پاکستان بھی اس طوفان کی زد میں ہے۔

اگرچہ یہ دباؤ زیادہ تر عالمی وجوہات کی وجہ سے ہے تاہم اس میں ملکی عوامل بھی شامل ہوگئے ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ ، 15 برسوں کی بلند ترین مہنگائی، زر مبادلہ ذخائر میں کمی ، روپے کی قدر میں کمی اور ہمارے بین الاقوامی بانڈز کے پریشان کن حد تک بڑھ جانے والے منافع اس طوفان کی نشاندہی کرتے ہیں۔

آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر کے بارے میں ڈاکٹر مرتضی سید نے کہا کہ سیاسی بے یقینی کی وجہ سے فیصلہ سازی میں نقصان دہ تاخیر اور مالیاتی سطح پر پالیسی کے حوالے سے کوتاہیاں آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیرکا سبب بنیں جس کے نتیجے میں بیرونی رقوم کی فراہمی معطل ہوئی جب کہ بیرونی قرضے کی واپسی کی رقوم بڑھتی رہیں۔ فروری سے اب تک زرمبادلہ کے ذخائر میں 7 ارب ڈالر کی بھاری کمی آئی۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ مشکلات ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں تاہم اس معاشی طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کی پوزیشن دیگرممالک کی نسبت بہتر ہے۔

ملک کی معیشت اور سیاست میں اب بھی استحکام لایا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے اعلیٰ سطح کے تدبر' معاملہ فہمی اور دانائی کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ کا وقار اور اختیار بحال رکھنا 'پارلیمنٹرینز اور سیاسی جماعتوں کی قیادت کا کام ہے 'امریکی کانگریس 'برطانوی پارلیمنٹ اور بھارتی لوک سبھا اور سینیٹ کا کردار 'معیار اور اختیاردیکھ لیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں