امریکی صدر کا دورہ سعودی عرب
امریکی صدر کے لیے یہ دورہ مشکل تھا کیونکہ تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے سعودی عرب نے کوئی وعدہ نہیں کیا
www.facebook.com/shah Naqvi
HYDRABAD:
حال ہی میں امریکی صدر جوبائیڈن نے سعودی عرب کا دورہ کیا جس کا مقصد سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بحال کرنا تھا جو صحافی جمال خشوگی کے قتل کے بعد بگڑ گئے تھے اور روس چین کے خطے میں بڑھتے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا تھا، اس دورے میں انھیں کیا کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
اس کے بارے میں مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں ۔ امریکی صدر کے لیے یہ دورہ مشکل تھا کیونکہ تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے سعودی عرب نے کوئی وعدہ نہیں کیا اور اسے آیندہ اوپیک اجلاس پر چھوڑ دیا ہے دوسری طرف انھیں علاقائی سلامتی کے بارے میں سعودی عرب کی حمایت نہ مل سکی ۔ اس طرح انھیں ایک طرح سے خالی ہاتھ واپس امریکا جانا پڑا ۔ امریکی صدر کے لیے یہ دورہ بڑا اہم تھا کیونکہ امریکا سعودی سٹرٹیجک تعلقات جو گذشتہ 80سال سے قائم ہیں انھیں پچھلے چند سالوں سے شکوک و شبہات نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
اس دورے کو ناکام بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یمن تنازع میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کی حمایت حاصل کرنا ایک اہم کامیابی ہے دوسری کامیابی یہ حاصل ہوئی کہ سعودی عرب نے اسرائیل کی تمام فضائی کمپنیوں کے لیے اپنی فضائی حدود کھولنے کا اعلان کیا ہے ۔ اس طرح سے اسرائیل میں مقیم مسلمان عازمین براہ راست مکہ پہنچ سکیں گے ۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور 2020 میں ابراہیمی معاہدہ کے تحت اسرائیل متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ سعودی عرب سمیت باقی عرب ممالک بھی اسرائیل کو جلد تسلیم کر لیں گے لیکن امریکی صدر کے حالیہ دورے میں سعودی عرب نے واضح کر دیا ہے کہ جب تک ایک آزاد خود مختار فلسطینی ریاست کو قائم اور تسلیم نہیں کر لیا جاتا سعودی عرب اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کا کہنا تھا کہ ریاض ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے خلیج اسرائیل دفاعی اتحاد پر بات چیت کا حصہ نہیں بنے گا۔
امریکی رسالے بلوم برگ نے کہا کہ بائیڈن کا یہ دورہ سعودی عرب ایک جوا تھا اور امریکی صدر غیر یقینی سیاسی حیثیت میں واشنگٹن واپس اس صورت حال میں آئے ہیں کہ جب وسط مدتی انتخابات صرف مہینوں (نومبر) کی دوری پر ہیں جب کہ امریکی اتحادیوں کو اس بات سے مایوسی ہوئی ہے کہ وائٹ ہاؤس اپنے بہت سے مقاصد حاصل نہیں کر سکا لیکن امریکی صدر نے اس دورے کو عرب ممالک کے ساتھ اتحاد کی بحالی کے لیے ضروری سمجھا جو ممکنہ طور پرخطے میں روس چین کا مقابلہ کرنے میں مدد کر سکتا ہے جس سے ایشیاء میں چین کے بڑھتے اثرو رسوخ کو محدود کرنے میں مدد ملے گی ۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے جدہ سمٹ کے اختتام پر کہا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات مثبت رہے ہیں تا ہم ابھی اپنے مقصد تک نہیں پہنچے ۔ انھوں نے کہا اس کانفرنس کا بنیادی مقصد امریکا کے ساتھ شراکت داری تھا تاہم ریاض تہران کے ساتھ تعلقات کی برقراری پر زور دیتا ہے ۔ سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس کانفرنس کے دوران یا اس سے پہلے اسرائیل کے ساتھ عسکری تعاون یا ٹیکنالوجی کے میدان میں تعاون کے حوالے سے کسی بھی قسم کی کوئی تجویز زیر غور نہیں آئی اور عرب نیٹونام کے کسی منصوبے کا کوئی وجود نہیں ہے اور مجھے نہیں معلوم یہ نام کہاں سے آیا۔سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم ایران کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے کی جانب گامزن ہیں اوراب سعودی عرب کے ہاتھ ایران کی طرف بڑھے ہوئے ہیں ۔
امریکی صدر جوبائیڈن دورہ مشرق وسطیٰ پر ردِ عمل دیتے ہوئے ایران نے کہا ہے کہ امریکا خطے میں کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے کہ ایران پر جوہری ہتھیار بنانے کے الزامات خطے میں امریکی کی شر انگیز پالیسی کا حصہ ہے ۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امریکا نے خطے میں زیادہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والی صہیونی حکومت سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔
ترجمان نے کہا ایران پر ایسے جھوٹے الزامات واشنگٹن کی طرف سے خطے میں فتنہ پیدا کرنے کی پالیسی کا حصہ ہیں ۔امریکی صدر کے دورے کے فوراً بعد تہران میں امن کانفرنس ہوئی جس میں روسی صدر پیوتن ، ترکش صدر اردوان اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے شرکت کی ایران نے اس موقعہ پر روس سے 40ارب ڈالر توانائی کا معاہدہ کیا ۔ جب کہ 10سال ہونے جا رہے ہیں پاکستان کو ایران سے سستی گیس ، تیل لینے کی اجازت نہیں کیونکہ امریکی دباؤ ہے۔
ایک طرف ہم ہیں تو دوسری طرف سعودی عرب ہے جو اپنے تیل کے باوجود روس سے سستا تیل خرید رہا ہے ۔ مزید یہ کہ روس یوکرین جنگ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے امریکا کا ساتھ نہیں دیا۔ امریکی صدر کے حالیہ دورے نے واضح کر دیا ہے کہ سعودی عرب اپنے مفادات سے ہٹ کر امریکی دباؤ میں آنے کے لیے تیار نہیں۔