امن غربت تعلیم اور نوجوان
اس وقت امن کے متلاشی طبقے نوجوان نسل سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ’’ملک میں امن کے لیے نوجوان ہی کچھ کر سکتے ہیں
ISLAMABAD:
بلاشبہ ملک کی ترقی و تنزل میں نوجوان طبقہ مرکزی کردار ادا کرتا ہے اور اس وقت امن کے متلاشی طبقے نوجوان نسل سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ''ملک میں امن کے لیے نوجوان ہی کچھ کر سکتے ہیں''۔ جناب! امن نام ہے سکون کا، چین کا، اطمینان کا، آرام کا، آشتی اور پناہ کا۔ اب آپ ہی بتائیں ''ایام گردش'' میں مغرب سے جنوب اور شمال سے مشرق تک نوجوانوں کو یہ نعمتیں کہاں نصیب ہیں؟ اس لیے میری طرح آپ کو بھی اس عنوان سے یقیناً اختلاف ہو گا۔
امن کے متلاشی یہ بھول جاتے ہیں کہ ''امن، غربت، بے روزگاری اور تعلیم'' باہم مشترک ہیں۔ انھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ غربت کی وجہ سے ناخواندگی ہے اور ناخواندگی کی وجہ سے غربت ہے۔ جب تعلیم غریبوں کے دسترس میں ہو گی تو غریب معاشرے میں تعلیم عام ہو گی اور جب غریب معاشرے میں تعلیم ہو گی تو ایک مستحکم معاشرہ جنم لے گا اور جب مثبت معاشرہ پروان چڑھے گا تو وہاں پر ہر سو خوشحالی ہو گی اور امن و آشتی کا بول بالا ہو گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ''تعلیم'' کون عام کرے گا؟
بدقسمتی سے تعلیم عام کرنے کے دعویداروں کی کمی نہیں ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ طبقوں میں بٹی ہوئی مہنگی تعلیم کے باعث صرف ان گھرانوں کے بچے، نوجوان منزل تک پہنچ پاتے ہیں جو مالی لحاظ سے مستحکم ہوتے ہیں جب کہ 90 فیصد گھرانوں کے نوجوان منزل کی تلاش میں بھٹکتے رہ جاتے ہیں۔ سرکاری درس گاہوں کی حالت یہ ہے کہ کہیں اسکول آباد ہیں تو کہیں ویران ہیں۔ کہیں اساتذہ زیادہ ہیں تو بچے کم ہیں، کہیں طالب علم زیادہ ہیں تو استاد کم ہیں، کہیں تعلیم دی جا رہی ہے تو کہیں گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کی جا رہی ہیں۔
نوجوانوں کو حیلے بہانوں اور طفل تسلیوں کے گرداب میں جکڑ لیا گیا ہے۔ جو چیز یعنی ''تعلیم'' انھیں آگے لے جا سکتی ہے اسے اس سے دور کر دیا گیا ہے ایسے میں امن کا خواب عبث ہے۔ جہاں تعلیم کی راہیں مسدود کر دی گئی ہوں، جہاں نوجوانوں کے لیے روزگار کے راستے بند کر دیے گئے ہوں، جہاں غربت اژدھا کا روپ دھار چکی ہو۔ وہاں غربت کے بیچ سے کیسے خوشحالی آ سکتی ہے؟ اگر امن کے خواہاں ہو تو تعلیم کو غریبوں کے لیے عام کرو، ویران درس گاہوں کو آباد کرو۔
اب ذرا ملک میں تعلیم کی صورت حال ملاحظہ کریں! اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پرائمری سطح پر بچوں کے مقابلے میں اساتذہ کی شرح خطے میں سب سے کم ہے، اسکول نہ جانے والے بچوں میں دو تہائی تعداد لڑکیوں کی ہے، پرائمری سطح پر لڑکیوں کی انرولمنٹ شرح 54 فیصد جب کہ سیکنڈری سطح پر صرف 12 فیصد ہے۔ پاکستان میں 7 سے 15 سال تک کی 62 فیصد غریب لڑکیوں نے آج تک کلاس روم کی شکل نہیں دیکھی، خواتین کی شرح خواندگی 47 فیصد اور مردوں کی شرح خواندگی 70 فیصد ہے۔ خواتین کی صرف 49 فیصد آبادی نے تعلیم حاصل کی اور پاکستان کے دیہی علاقوں میں صرف 38 فیصد خواتین اسکولز میں پڑھی ہیں۔ اسرائیل جس سے ہم نفرت کرتے ہیں اس وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ سالانہ عالمی ایجوکیشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی 46 فیصد آبادی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، 25 سال سے 64 سال کی عمر کے لوگوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا تناسب دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا یہ نتیجہ 2008ء میں نافذ ہونے والی تعلیمی اصلاحات کا سبب ہے جن میں اساتذہ کی تنخواہیں تعلیمی ڈھانچہ اور روزگار کی شرائط میں تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ اسرائیل میں 2003ء میں گریجویشن کرنے والے طلبا کی شرح 89 فیصد تھی جو 2010ء میں بڑھ کر 92 فیصد ہو گئی۔
یہ رپورٹ 34 ممبر ملکوں کے سروے سے تیار کر کے جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کینیڈا اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے لحاظ سے دنیا کا نمبر ون ملک ہے۔ جب کہ اس کے برعکس پاکستان کے دیہی علاقوں میں اسکول جانے کی عمر کے تمام بچوں خصوصاً بچیوں میں سے 23 فیصد اسکولوں سے باہر ہیں، سرکاری اسکولوں کے 6 اور نجی اسکولوں کے 25 فیصد طالب علم ٹیوشن پڑھنے جاتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں پہلی جماعت کے 68 اور نجی اسکولوں کے 43 فیصد طالب علم گنتی کی پہچان نہیں کرسکتے، تیسری جماعت کے سرکاری اسکولوں کے 57 اور نجی اسکولوں کے 31 فیصد طالب علم انگریزی الفاظ پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں جب کہ 5 ویں جماعت کے سرکاری اسکولوں کے 57 اور نجی اسکولوں کے 36 فیصد طالب علم اردو کے جملے پڑھنے سے قاصر ہیں۔ اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے ذریعہ تعلیم کے حوالے سے 46 فیصد کی پہلی ترجیح اردو، 37 کی گھروں میں بولی جانے والی اور 17 فیصد کی انگریزی زبان ہے۔ دیہات میں غریب ترین طبقے کے 54، غریبوں کے 67 امیروں کے 73 اور امیر ترین طبقے کے 81 فیصد بچے اسکول جاتے ہیں۔
ماضی میں صوبہ سندھ کا تعلیمی معیار دیگر صوبوں سے بہتر تھا مگر اس وقت سندھ دیگر صوبوں سے پیچھے ہے۔ سندھ میں 60 لاکھ بچے ابھی بھی اسکولوں سے دور ہیں۔ سندھ کے 40 ہزار میں سے 38 ہزار اسکول فعال ہیں یعنی 11 ہزار اسکول غیر فعال ہیں۔ جمعرات 20 فروری 2014 کو سندھ اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے ''سیاسی چارٹر'' کی منظوری دی جس میں عہد کیا گیا ہے کہ سندھ میں اسکولوں کی 100 فیصد داخلے یقینی بنا کر تعلیم کے معیار کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔ یہ قرارداد سینئر وزیر برائے تعلیم و خواندگی نثار احمد کھوڑو نے پیش کی تھی۔ یہ چارٹر کراچی میں تمام سیاسی جماعتوں کے اجلاس میں منظور کیا گیا تھا اور اس عہد کی سندھ اسمبلی سے بھی منظوری لے لی گئی ہے یہ عہد 2 نکات پر مشتمل ہے یعنی سندھ میں 100 فیصد داخلے ہوں اور معیار تعلیم بہتر ہو۔ واضح رہے کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں تعلیم کا بجٹ 132 ارب روپے ہے ان میں سے 110 ارب روپے تنخواہوں کی مد میں خرچ ہوجاتے ہیں باقی 22 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ہے۔ حکومت سندھ کے کل 15 لاکھ ملازمین ہیں جن میں سے ڈھائی لاکھ ملازمین صرف محکمہ تعلیم میں ہیں۔
ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کے محکمہ تعلیم میں بدانتظامی اور مبینہ کرپشن افسوس ناک ہے، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کو کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کا بجٹ ملتا ہے لیکن وہ سندھ میں سرکاری اسکولوں کے بچوں کو بروقت کتابیں مہیا نہیں کرسکتا ۔ ہر دفعہ جب نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے تو پورے سندھ میں درسی کتب نہ ملنے پر چیخ و پکار شروع ہوجاتی ہے۔ کتابوں کی اشاعت کے ٹھیکے دینے پر اب تک سندھ میں کئی کئی اسکینڈلز منظر عام پر آچکے ہیں لیکن اب تک کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ صرف سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ میں ہی نہیں بلکہ پورے محکمہ تعلیم میں بدانتظامی اور کرپشن کے سوا کوئی اچھی بات سننے کو نہیں ملتی۔ صرف موجودہ حکومت میں ہی یہ صورت حال نہیں ہے بلکہ سابقہ حکومتوں میں بھی محکمہ تعلیم کے حالات کو ٹھیک کرنے کے بجائے مزید بگاڑا گیا ہے اور یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ سندھ میں تعلیم کا شعبہ واحد نہیں ہے جو تباہ حالی کا شکار ہو۔ صوبے میں گڈ گورننس بھی ایک بہت بڑا مسئلہ رہی ہے۔ گزشتہ پانچ سال بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی لیکن گورننس پر توجہ نہیں دی گئی۔ ان پانچ سالوں کے دوران بھی ہزاروں غیر فعال اسکولوں کو فعال نہیں کیا جا سکا۔ گھوسٹ اساتذہ کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکی۔ اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ معیار تعلیم کے مسلسل انحطاط کو نہیں روکا جا سکا۔ عالمی بینک اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے سندھ میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے امداد اور قرضے کی مد میں جو رقم فراہم کی تھی، وہ ضایع کر دی گئی اور جتنے بھی نئے منصوبے شروع کیے گئے وہ مطلوبہ نتائج نہ دے سکے۔ اس پورے عرصے میں سرکاری تعلیمی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال نہ کیا جا سکا۔
مذکورہ بالا صورت حال کے پیش نظر آپ خود فیصلہ کریں کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟ ترقی کی راہ پر گامزن ہیں یا کہ تنزلی کی جانب رواں دواں ہیں؟ الغرض یہ کہ دہشت گردی جیسے مسائل کے حل میں تعلیم اسی وقت اپنا موثر کردار ادا کر سکتی ہے جب آپ پڑھے لکھے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقعوں کا بھی بندوبست کریں۔ نوجوانوں کو قومی مفاد میں استعمال کرنے کی حکمت عملی طے کرنا ہو گی۔ اگر یہ نہیں ہو گا تو پھر تعلیم دہشت گردی، اخلاقی انحطاط اور غربت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔