افغان طالبان کا غلط رویہ
ہر سال افغانستان کو پاکستان سے تیس لاکھ ٹن سے زیادہ گندم اسمگل ہوتی ہے
MADRID:
پاکستان اور افغانستان کے مابین مختلف تنازعات ہمیشہ رہتے ہیں لیکن ہمارے ''پیارے اور راج دلارے'' طالبان کی حکومت کا رویہ دیکھ کر مجھے بہت حیرانی اور افسوس ہوتا ہے' اس لیے آج ایک مختلف نکتہ نظر سے حالات کا جائزہ لیں گے' جس میں طعنے بھی ہیں اور حقائق کا آئینہ دکھانا بھی ہے۔
1971/72 کے سیشن کے دوران میں خیبرلاء کالج پشاور یونیورسٹی کی یونین کا منتخب جنرل سیکریٹری تھا' اس سال طلباء کے ایک گروپ کو افغانستان کے ٹور پر لے گیا' یونین صدر والد کی بیماری کی وجہ سے نہیں گئے۔ کابل میں سیر کی' قندھار اور غزنی بھی گئے' پھر شمالی افغانستان کا پروگرام بنا' جبل السراج سے ہوتے ہوئے 'سالانگ کے برف پوش پہاڑوں سے گزر رہے تھے' شام کو مزار شریف پہنچے۔
اگلی منزل بلخ کا شہر تھا۔ یہاں کی دکانوں سے خریداری کی اور ایک چیز جو میں نے نوٹ کی' وہ ہر جگہ دکانوں میں اور ہوٹلوں میں پاکستان کے سامان کی بھرمار تھی، آٹے اور گھی کے علاوہ چینی' صابن' بسکٹ' سگریٹ غرض پاکستان کی بنی ہوئی' ضرورت کی ہر چیز افعانستان میں وافر مقدار میں موجود تھی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں یہ معلومات دی گئی ہیں کہ ہر سال افغانستان کو پاکستان سے تیس لاکھ ٹن سے زیادہ گندم اسمگل ہوتی ہے' یہ اس گندم کے علاوہ ہے جو قانونی طور پر افغانستان جاتی ہے' پاکستان کے شہریوں خصوصاً خیبرپختونخوا اور پنجاب کے باشندوں کے کوٹے کی یہ گندم اسمگل ہوکر پورے افغانستان کے شہروں، قصبوں اور دیہات تک جاتی ہے، اسمگلر کون ہیں؟ گندم دینے والے کون ہیں؟ سرحد کراس کروانے والے کون ہیں؟ ارباب اختیار کو اچھی طرح معلوم ہے۔
گندم ہی نہیں بلکہ چاول، گھی،وغیرہ بھی اسمگل ہوکر افغانستان جاتا ہے، بہرحال بات ہو رہی تھی، افغانستان کی سیر کی، چاول افغانوں کی پسندیدہ خوراک ہے 'ہر ہوٹل میں پلاؤ' چلاؤ اور کابلی' چاول کی تینوں اقسام کی زیادہ مانگ ہوتی ہے' جس طرح ہمارے ہاں لوکل پلاؤ اور ہندوستانی بریانی مشہور ہیں' افغانستان میں ہر جگہ چاول لازمی ملتے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ چاول افغانستان میں کہیں بھی پیدا نہیں ہوتا' وہاں پر تعمیرات کافی ہوتی ہیں' لیکن میری اطلاع کے مطابق وہاں سیمنٹ کا کوئی کارخانہ نہیں ہے' چینی' گھی اور دیگر اشیائے ضروریہ پاکستان سے جاتی ہیں۔ یہی وجہ پنجاب، صوبہ خیبر پختونخوا کو مقررہ کوٹے سے زائد گندم کی سپلائی بند کرنے کے لیے یہی جواز پیش کرتا ہے کہ خیبر پختونخوا سے گندم افغانستان اسمگل کر دی جاتی ہے۔
اب پاکستان نے افغانستان میں تین بڑے اسپتال بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے عملے کی تنخواہ وغیرہ بھی پاکستان ادا کرے گا' موجودہ صورت حال میں افغان مریضوں کی کافی بڑی تعداد پاکستان اور خاص کر پشاور کے اسپتالوں میں علاج کے لیے آتی ہے' ان کو بڑے احترام کے ساتھ علاج کی سہولتیں دی جاتی ہیں' بلکہ ان کی سہولت کے لیے طورخم میں ان اسپتالوں نے اپنے دفاتر کھولے تھے۔
تاکہ ان مریضوں کو آنے میں تکلیف نہ ہو۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان کی تمام اشیائے ضرورت' الف سے لے کر یے تک پاکستان مہیا کرتا ہے' ان اشیائے ضرورت کی زیادہ مقدار افغانستان کو قانونی طور پر برآمد نہیں ہوتی بلکہ اسمگل ہوتی ہیں' ان کے طلباء پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور حکومت پاکستان سے باقاعدہ وظیفہ بھی حاصل کرتے ہیں۔
افغانستان کی ریاست کا سارا 'معاشی' سیاسی اور تجارتی دار و مدار پاکستان کے ناتواں کندھوں پر پڑا ہے، پاکستان کے بغیر افغانستان میں زندگی کا تصور نا ممکن ہے' اب بھی روزانہ ہزاروں افغان باشندے پاکستان آ رہے ہیں۔ ان احسانات کے باوجود' افغانستان نے جہاں بھی اور جب بھی اس کا بس چلا' پاکستان کے احسانات کا بدلہ برائی اور عہد شکنی سے دیا' چند دن قبل وزیر اعظم پاکستان نے افغانستان سے سستا کوئلہ منگوانے کا ذکر کیا تو افغانستان کی طالبان حکومت نے جواب میں کیا کیا۔ اخباری اطلاعات ملاحظہ ہو۔
''پاکستان جیسا بڑا گاہک ملنے کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت نے کوئلے کی قیمت کو دوبار مہنگا کر دیا ' واضح رہے کہ گزشتہ دنوں وزیر اعظم شہباز شریف نے بجلی پیدا کرنے کے لیے افغانستان سے کوئلہ درآمد کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ پڑوسی ملک سے کوئلے کی درآمد سے دو ارب ڈالر کی بچت ہوگی' افغانستان کو ادائیگی' ڈالر کے بجائے روپے میں ہوگی' وزیر اعظم کے اعلان کے بعد طالبان حکومت نے درآمدی کوئلے کی قیمت 90ڈالر فی ٹن سے بڑھا کر 200ڈالر فی ٹن کر دی' چند دن کے بعد' اب ایک بار پھر طالبان حکومت نے کوئلے کی قیمت بڑھا دی ہے' اس بار 80ڈالر فی ٹن اضافہ کر دیا ہے۔
افغانستان کی وزارت معدنیات اور پیٹرولیم کے ترجمان عصمت اللہ برہان کے مطابق کوئلے کی نئی قیمت 280ڈالر فی ٹن ہوگی' اس قیمت کا نفاذ فوری طور پر ہوگا۔ افغان حکومت نے کوئلے کی قیمت میں یہ اضافہ پاکستانی وفد کے دورے سے قبل کر دیا ہے۔ پاکستان کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے یہ کوئلہ پاکستان کو سستا پڑے گا اس لیے یہ فیصلہ ہوا ہے' یہ کوئلہ افغانستان کے پڑوسی وسطی ایشیائی ممالک کو جا رہا تھا لیکن جیسے ہی پاکستان نے دلچسپی ظاہر کی تو افغانستان نے فوراً کوئلے کی قیمت 90ڈالر سے 200 ڈالر اور اب 280ڈالر فی ٹن کردی اور ساتھ ہی ترجمان نے پاکستان کے خلاف باتیں بھی کیں۔
آج بھی افغان طالبان سرحدی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں' ایک طالبان رہنماء کا بیان کہیں پڑھا تھا کہ ''جب بھی افغانستان طاقتور ہو گیا تو فوراً پاکستان سے اپنے علاقے واپس لے گا''۔ آج بھی تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد افغانستان میں موجود ہیں اور تواتر کے ساتھ پاکستان کے اندر کارروائیاں کر رہے ہیں' افغان طالبان سے توقع تھی کہ وہ حسب وعدہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے اور پاکستان کے مجرموں کو پاکستان کے حوالے کریں گے' یہ سب کچھ کرنے کے بجائے انھوں نے تحریک طالبان کو پاکستان کی ریاست کے برابر کھڑا کر دیا ہے۔
افغان حکومت نہ ان کو نکالتی ہے اور نہ پاکستان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا کہتی ہے' بلکہ پاکستان کو مجبور کر دیا کہ وہ تحریک طالبان کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کرے، یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان ان کا مفتوحہ علاقہ ہے اور پاکستانیوں کے ہاتھوں میں اپنے ملک کا اقتدار نہیں ہے۔
عجیب مطالبہ یہ ہے کہ فاٹا کو پاکستان سے الگ کرکے ان کے حوالے کیا جائے۔ 30لاکھ سے زیادہ افغان اب بھی پاکستان میں مقیم ہیں' ایران میں ان کو باقاعدہ کیمپوں کے اندر رکھا گیا ہے' اس کے برعکس ان کو پاکستان میں نقل و حرکت اور کاروبار کی مکمل آزادی ہے' ان طالبان کو چاہیے کہ پاکستان کے مفاد کا خیال رکھیں' کیونکہ یہ ملک ان کی مستقل آرامگاہ ہے۔ اس تھالی میں کھا کر اس میں چھید نہ کریں۔