بارش کی تباہ کاریاں

وسیع پیمانے پر مالی و جانی نقصانات کے واقعات قومی میڈیا میں رپورٹ ہورہے ہیں


Editorial July 30, 2022
وسیع پیمانے پر مالی و جانی نقصانات کے واقعات قومی میڈیا میں رپورٹ ہورہے ہیں۔ فوٹو: فائل

PARIS: ملک بھر میں مون سون بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر مالی و جانی نقصانات کے واقعات قومی میڈیا میں رپورٹ ہورہے ہیں۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ قدرتی اور موسمی حالات کا ترقی یافتہ ممالک بھی پوری طرح مقابلہ نہیں کر پاتے، جب کہ ہمارے یہاں تو سرے سے اس ضمن میں کوئی پلاننگ نظر نہیں آتی ہے، ہمارے ملک میں بیش تر تباہ کاری قدرتی آفات کی وجہ سے کم اور ناقص منصوبہ بندی سے زیادہ ہے۔

ایک طرف گرمی کی شدت کی وجہ سے شہری بارش کی دعا مانگ رہے تھے لیکن جب بارش ہوتی ہے تو اس کی تباہ کاری قومی ذرایع ابلاغ کا موضوع اس لیے بن جاتا ہے کہ شہری سیلاب کے باعث آبادی محصور ہو جاتی ہے اور ان کی املاک کو نقصان پہنچتا ہے ، جس کی ایک بڑی مثال کراچی جیسا میگا سٹی ہے۔ ہر سال مون سون بارشیں ہوتی ہیں ، لیکن قدرتی آبی گزر گاہوں پر تجاوزات اور جمع شدہ کچرے کے ڈھیر، بارش کے پانی کی نکاسی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

اس وقت پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں سیوریج نظام کی تباہی کے باعث صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ دیہاتی علاقے ہوں یا پھر شہری علاقے ہر جگہ خود عوام اور حکومتی ناقص اقدامات ہی زیادہ تر شہری و دیہی سیلاب کا باعث بن رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں مون سون بارشوں کی صورتحال کافی خراب ہے ، مختلف اضلاع میں بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثرین کی مشکلات کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت اداروں کی منصوبہ بندی سے لے کر امدادی کارروائیوں میں ناکامی کے ثابت شدہ کردار کے اعادے کا عمل بھی سامنے آتا ہے جو معمول بلکہ ضرب المثل بن چکا ہے۔

صوبے کے مختلف اضلاع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے ، بارشوں کے تسلسل سے حالات کے مزید سنگین ہونے اور بڑے پیمانے پر علاقوں اور عوام کے متاثر ہونے کا امکان ہے املاک، باغات اور زرعی اراضی ایریگیشن چینلز کی تباہی ہوئی ہے جب کہ گھروں کو شدید سیلاب اور شدید بارشوں سے نقصان پہنچا ہے۔

اس وقت خاص طور پر چترال صوبے کا سب سے متاثرہ ضلع ہے ، چترال کے مختلف علاقوں میں سیلاب سے تباہی آئی ہے۔ تحریک انصاف کی مسلسل دوسری بار جاری صوبائی حکومت قدرتی آفات کا تو پوری طرح مقابلہ نہیں کر سکتی ، لیکن پی ڈی ایم کو جاری فنڈز کا حساب تو لے سکتی ہے۔

ضلع انتظامیہ سی اینڈ ڈبلیو ایریگیشن اور دیگر متعلقین سے جواب طلبی تو کر سکتی ہے اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات امداد اور بحالی کی مساعی تو ممکن ہیں، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا ، جس کے باعث عوام مشکلات سے دوچار ہیں۔ بلوچستان میں بارش اور سیلاب سے 5 ہزار مکانات تباہ ہوئے ہیں، جب کہ صوبے کے چھوٹے ایک ہزار ڈیموں کو نقصان پہنچا ہے ، کچھ علاقوں کے زمینی رابطے بھی منقطع ہوئے ہیں، کیچ، تربت، لسبیلہ، جھل مگسی زیادہ متاثر ہیں۔ ضلع لسبیلہ میں سیلابی ریلوں کی وجہ سے بلوچستان کا کراچی سے بھی زمینی رابطہ منقطع ہوا ہے۔

کراچی سے کوئٹہ اور گوادر و تربت جانے والی آمد و رفت معطل ہے۔ حب دریا کے پل کے چار پلر گر گئے ہیں جس کی وجہ سے کراچی اور حب میں آمدورفت متاثر ہے، اس کے علاوہ گڈانی کے مقام پر باگڑی ندی اور اوتھل کے مقام پر لنڈا پل سیلابی پانی سے متاثرہے۔

سندھ حکومت غیر معمولی بارشوں کی پیشگی اطلاع کے باوجود ان بارشوں سے کراچی کے شہریوں کو غیر معمولی نقصانات سے بچانے کے اقدامات اٹھانے میں مکمل ناکام رہی ہے اور کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں جاری بارشوں کے سلسلے نے تباہ کاریوں کی داستانیں رقم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بارشوں کے دوران مختلف واقعات میں تین درجن افراد جاں بحق ہوئے جب کہ شہریوں کی املاک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔ جنوبی پنجاب میں مسلسل بارشوں کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔

پنجاب میں عملا حکومت نام کی کوئی چیز اس وقت موجود نہیں ہے ، صوبے میں گزشتہ کئی ماہ سے جاری سیاسی عدم استحکام اس کی بنیادی وجہ ہے ، لہٰذا انتظامیہ اور متعلقہ ادارے کوئی کام نہیں کررہے ہیں ۔

این ڈی ایم اے وہی ادارہ ہے جس کی تشکیل ملک میں ہولناک زلزلے کے بعد ہوئی تھی کہ مستقبل میں قدرتی آفات سے نمٹنے کا ذمے دار یہی ادارہ ہوگا، مگر گزشتہ برسوں میں سیلاب ہوں یا طوفانی بارشوں کی تباہ کاریاں، اس ادارے کی کارکردگی ساکت ہی رہی۔درحقیقت اس دھرتی پر دو پاکستان ہیں۔ ایک اشرافیہ کا اور دوسرا مسائل میں گھرے عوام کا۔ یہاں دہرے معیار ہیں۔ یہاں ایک طبقاتی خلیج ہے جس نے معاشرے کو تقسیم کر رکھا ہے۔ ایک طرف پاکستان میں اشرافیہ کو جدید دنیا کی تفریحات کا حق حاصل ہے اور دوسری طرف محرومیوں کا ڈھیر ہے۔

وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے اس سے قبل بھی شہری سیلاب کے خطرے سے خبردار کیا جاچکا ہے۔ محکمہ موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں گلوبل وارمنگ یا موسمیاتی تغیر کے باعث بارشوں میں اضافے اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا چھٹا ملک بن گیا ہے۔ وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی نے ذرایع ابلاغ کے ذریعے بارش اور سیلاب سے پیش آنے والے خطرات سے تو بروقت خبردار کردیا تھا لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ حکومت اور متعلقہ محکموں کے پاس فوری اور طویل المیعاد منصوبے ہیں یا نہیں۔

پاکستان کے تمام شہروں میں نکاسی آب کا نظام انتہائی ناقص ہے ، شہروں میں ابھی تک شہری سیلاب کے امکانات اور اس سے نمٹنے کی کوئی تیاری دکھائی نہیں دیتی، خود شہریوں نے بھی اپنے آپ کو اور اپنے اپنے شہر کو ڈبونے کا پورا بندوبست خود اپنے ہاتھوں کر رکھا ہے، سالہا سال جو کچرا اور پلاسٹک کی اشیاء وغیرہ نالوں میں پھینک دی جاتی ہیں تیز پانی کا ایک بہاؤ ہی ان کو مزید جمع کرکے خود ہی نکاسی آب کے راستے میں بند باندھنے اور رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے۔

اسی طرح کی صورتحال میں جب کہ سیلابی نالوں کے کنارے عمارتوں کی صورت میں جو رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں حکومت اور انتظامیہ متجاوزین کے سامنے جس طرح بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے وہ تباہی کا نوشتہ دیوار ہے جب کبھی سیلاب کی تباہ کاریوں پر شور مچتا ہے تو انتظامیہ کچھ دنوں کے لیے دکھاوے کے لیے حرکت میں آتی ہے اس کے بعد چپ سادھ لی جاتی ہے، ندی نالوں اور آبی گزرگاہوں میں کھڑی رکاوٹوں کے خاتمے پر اب بھی توجہ کی ضرورت ہے اس ضمن میں جو بار بار کے سروے ہوتے رہے ہیں اور تجاوزات کی رپورٹیں حکام کے پاس موجود ہیں وہ رپورٹیں اب الماریوں سے نکال کر گرد جھاڑ کر اس کے مطابق کارروائیوں کی ضرورت ہے مژگان تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا کی نوبت آئے تو کیا فائدہ؟ وفاق تو صوبوں کی بھرپور انداز میں مدد کررہا ہے ، لیکن صوبائی حکومتیں بارشوں کے بعد پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہیں ۔

ہمارا یہاں بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز نہیں ہیں ، جس کے باعث لاکھوں گیلن پانی سمندر میں جاگرتا ہے ، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم پون صدی گزرنے کے باوجود ایک قوم نہیں بن سکے، کالاباغ ڈیم کا منصوبہ بھی قومی سطح پر اتفاق رائے نہ ہونے کے سبب پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ چین اور بھارت نے ان گنت ڈیمز بنا لیے ہیں، لیکن ہم تو عملی طور پر کچھ بھی نہیں کرسکے ہیں۔

آج بھی وقت ہے کہ ہماری قومی قیادت فہم و فراست اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے سر جوڑ کر بیٹھے اور ملک میں ڈیمز کی تعمیر کا عمل جنگی بنیادوں پر شروع کیا جائے ، تاکہ بطور ایک زرعی ملک ہم اپنی مشکلات پر قابو پاسکیں۔

ماضی میں کئی بار مختلف علاقوں میں سیلاب آچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں قدرتی آفات سے محفوظ رہنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ ملک میں سیلابی صورت حال اور پانی کی قلت دونوں صورتوں کے تجربات ہمارے سامنے ہیں۔ کیا تمام صوبائی حکومتوں نے سیلاب کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تمام اداروں کو مربوط کرلیا ہے۔ اب بھی ہنگامی بنیادوں پر نالوں سے لے کر نکاسی آب کے تمام راستوں کو صاف اور تجاوزات سے پاک کرنے کا کام شروع کیا جائے ، اس ضمن میں تاخیر سے عوام کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں