امیرالمومنین سیّدنا عمر فاروقِ اعظمؓ

چولہے کے پاس بیٹھ کے خود پُھونکتے تھے آگ، چہرہ تمام آگ کی گرمی سے لال تھا


بچوں نے پیٹ بھر کے جو کھایا تو کِھل اٹھے، ایک ایک اب تو فرطِ خوشی سے نہال تھا۔ فوٹو : فائل

BERLIN: علامہ شبلی نعمانی کو سیدنا عمرِ فاروقؓ سے جس درجہ عقیدت تھی، اس کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خاص ان پر تصنیف کی غرض سے شبلی نے روم، مصر اور شام کا سفر اختیار کیا اور وہ بھی اس وقت، جب وہ مالی اعتبار سے کچھ ایسے آسودہ نہ تھے اور نہ ہی گھریلو ذمے داریاں انہیں اس کی اجازت دے رہی تھیں۔ چھے ماہ تک انہوں نے استنبول، دمشق اور قاہرہ کے کتب خانوں سے استفادہ کیا اور پھر اس موضوع پر ایسے متوجہ ہوئے کہ اسے مکمل کر کے دم لیا۔

سیدنا عمرِ فاروقؓ پر عالمِ اسلام میں غالباً یہ پہلی تحقیقی کتاب ہے۔ اگرچہ اس کتاب کے آغاز، دَورانِ تصنیف اور عرصہ اشاعت میں متعدد رکاوٹیں حائل ہوئیں، لیکن شبلی کے پائے استقلال میں لرزش پیدا نہ ہوئی اور وہ بالآخر اپنے مقصد میں کام یاب ہوگئے۔

شبلی نے اپنی اس شہرہ آفاق کتاب میں سیدنا فاروقِ اعظمؓ کی زندگی کی تمام تر تفاصیل پر تحقیقی نگاہ ڈالی ہے اور واقعات کو درایت کی کسوٹی پر پرکھ کر تحریر کیا ہے۔ اس تحقیقی کاوِش کے ساتھ شبلی نے حضرت عمرؓ کی شخصیت کے بعض واقعات کو اپنی شاعری کا حصہ بھی بنایا ہے، جن میں سے چند ایک پیش کیے جاتے ہیں۔

سیدنا عمرؓ کے طرزِ حکم رانی سے متعلق شبلی نے ایک واقعے کو بائیس اشعار پر مشتمل اپنی نظم ''خلافتِ فاروقی کا ایک واقعہ'' میں قلم بند کیا ہے۔ یہ واقعہ اُس زمانے سے تعلق رکھتا ہے، جب سلطنت میں قحط پھیل چکا تھا اور خوراک کی شدید کمی تھی۔

سیدنا عمرؓ کے ایک غلام اسلم کی زبانی واقعہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ ایک دفعہ سیدنا عمرؓ رات کو گشت کے لیے نکلے۔ مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر صرار نامی ایک مقام ہے۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت کچھ پکا رہی ہے اور دو تین بچے رو رہے ہیں۔ پاس جا کر حقیقت حال دریافت کی۔ اس نے کہا کہ کئی وقتوں سے بچوں کو کھانا نہیں ملا، ان کے بہلانے کے لیے خالی ہانڈی میں پانی ڈال کر چڑھا دی ہے۔ سیدنا عمرؓ اسی وقت اٹھے مدینہ میں آکر بیت المال سے آٹا، گوشت، گھی اور کھجوریں لیں اور اسلم سے کہا کہ میری پیٹھ پر رکھ دو۔ اسلم نے کہا کہ مَیں لیے چلتا ہوں، تو آپؓ نے فرمایا: ہاں! لیکن قیامت کے روز میرا بار تم نہیں اٹھاؤ گے۔ غرض سب چیزیں خود اٹھا کر لائے اور عورت کے آگے رکھ دیں۔ آٹا گوندھا اور ہانڈی چڑھائی:

چولہے کے پاس بیٹھ کے خود پھونکتے تھے آگ
چہرہ تمام آگ کی گرمی سے لال تھا

بچوں نے پیٹ بھر کے جو کھایا تو کِھل اٹھے
ایک ایک اب تو فرطِ خوشی سے نہال تھا

تھی وہ زنِ ضعیف سراپا زبانِ شُکر
یاں حضرتِ عمرؓ کو وہی انفعال تھا

عہدہ عمرؓ کو یہ جو ملا، تجھ سے چھین کر
جو کچھ گزر رہا ہے، یہ اس کا وبال تھا

ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروقؓ کے پاس کچھ کپڑے آئے، جنہیں صحابہ کرامؓ میں تقسیم کیا گیا، ہر آدمی کو ایک کپڑا ملا۔ اس کے بعد ایک دن آپؓ انہی کپڑوں کا کرتا پہنے منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ اپنے امیر کے اطاعت گزار بنو۔ حضرت سلمانؓ کہنے لگے کہ ہم تو نہیں سنیں گے۔ سیدنا عمرؓ نے پوچھا کہ اے ابُوعبداﷲ! سمع و طاعت سے انکار کس لیے؟ جناب سلمانؓ کہنے لگے: اے عمرؓ! اس وقت جو کرتا آپ نے پہن رکھا ہے، وہ ان کپڑوں سے زیادہ کا بنا ہوا ہے، جو تقسیم کیے گئے تھے۔ اس موقع پر سیدنا فاروقِ اعظمؓ اور ان کے فرزند عبداﷲ بن عمرؓ کے مکالمے کو شبلی نے ''عدلِ فاروقی کا ایک نمونہ'' میں یوں بیان کیا ہے:

اپنے فرزند سے فاروقِ معظمؓ نے کہا
تم کو ہے حالتِ اصلی کی حقیقت پہ عبور

تم ہی دے سکتے ہو اس کا مِری جانب سے جواب
کہ نہ پکڑے مجھے محشر میں مِرا ربِّ غفور

بولے یہ ابنِ عمرؓ، سب سے مخاطب ہو کر
اس میں کچھ والدِ ماجد کا نہیں جرم و قصور

ایک چادر میں جو پورا نہ ہوا ان کا لباس
کر سکی اس کو گوارا نہ مِری طبعِ غیور

اپنے حصے کی بھی مَیں نے انھیں چادر دے دی
واقعہ کی یہ حقیقت ہے کہ جو تھی مستور

شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ فقہ کا فن تمام تر حضرت عمرؓ کا ساختہ و پرداختہ ہے۔ اس فن کے متعلق ان کی قابلیت اور افضلیت کا تمام صحابہؓ کو اعتراف تھا۔ حذیفہ بن الیمان کا کہنا ہے کہ فتویٰ دینا اس شخص کا کام ہے، جو امام ہو یا قرآن کے ناسخ و مسنوخ جانتا ہو۔ لوگوں نے پوچھا: ایسا کون شخص ہے؟ حذیفہ نے کہا: عمر بن الخطابؓ۔ عبداﷲ بن مسعودؓ کا قول ہے کہ اگر تمام عرب کا علم ایک پلّہ میں رکھا جائے اور عمرؓ کا علم دوسرے پلّے میں تو عمرؓ کا پلّہ بھاری رہے گا۔ علامہ ابواسحاق شیرازی لکھتے ہیں کہ اگر تطویل کا خوف نہ ہوتا تو مَیں عمرؓ کے فتویٰ اور ان میں جو فقہ کے اصول پائے جاتے ہیں، اس قدر لکھتا کہ فضلاء حیران رہ جاتے۔ ایک طرف تو میدانِ فقہ میں آپؓ کا یہ پایہ تھا اور دوسری جانب دوسروں کی درست رائے کا اتنا احترام اور اظہارِ رائے کی آزادی کا یہ عالم تھا کہ مرد تو مرد، خواتین بھی انھیں ٹوک دیا کرتی تھیں۔

ابن مصعبؓ کا بیان ہے کہ امیر المؤمنین عمر بن خطابؓ کے دور میں لوگوں نے حق مہر بہت زیادہ مقرر کرنا شروع کر دیا۔ ایک دن انہوں نے لوگوں سے کہا کہ تم لوگ عورتوں کا مہر چالیس اوقیے سے زیادہ مت باندھا کرو، خواہ وہ عورت کسی بڑے سردار کی بیٹی ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کسی نے مہر کی رقم اس سے زیادہ رکھی تو مَیں چالیس اوقیے سے زاید رقم بیت المال کے حوالے کردوں گا۔ ایک خاتون نے یہ بات سنی تو امیر المؤمنینؓ کا راستہ روک لیا۔ کہنے لگی کہ آپؓ کون ہوتے ہیں چالیس اوقیے مہر کی رقم مقرر کرنے والے، جب کہ خدا تعالیٰ نے اس پر کوئی پابندی عاید نہیں کی۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: وہ کیسے؟ خاتون نے جواب دیا: اس لیے کہ خدا تعالیٰ کا قرآن کریم میں ارشاد ہے: ''اگر تم نے اپنی بیویوں میں سے کسی کو (بہ طور مہر) خزانہ بھی دے رکھا ہو، تو بھی اس میں سے کچھ نہ لو۔'' (سورہ النساء)

یہ سن کر حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا: خاتون کا استدلال صحیح ہے اور عمر معاملے کو نہ سمجھ سکا۔ اے عمر! ہر آدمی تم سے زیادہ فقیہ اور سمجھ دار ہے۔''

اس واقعہ کو شبلی نے اپنی نظم ''اظہار و قبولِ حق'' میں اس انداز میں پیش کیا ہے:

مجمعِ عام میں لوگوں سے انہوں نے یہ کہا
مہر باندھو نہ زیادہ کہ ہے یہ بھی تبذیر

جس قدر تم کو ہو مقدور، وہیں تک باندھو
حکم یہ عام ہے سب کو، امرا ہوں کہ فقیر

ایک بڑھیا نے وہیں ٹوک کے فوراً یہ کہا
تجھ کو کیا حق ہے، جو تُو کرتا ہے ایسی تقریر

صاف قرآن میں قنطار کا لفظ آیا ہے
تجھ کو کیا حق ہے کہ اس لفظ کی کر دے تغییر

لاکھ تک بھی ہو تو کہہ سکتے ہیں اس کو قنطار
تھا یہ اِک وزن کہ اس وزن کی یہ ہے تعبیر

سر نگوں ہو کے کہا حضرتِ فاروقؓ نے، آہ!
مَیں نہ تھا اس سے جو واقف تو یہ میری تقصیر

یہ کہنا بجا ہے کہ سیدنا عمرِ فاروقؓ سے متعلق تحقیقی کاوشوں کا آغاز شبلی نعمانی نے کیا اور ان سے متعلق نظموں کی ابتدا بھی انہی سے ہوئی۔ اردو میں واقعاتی نظموں میں سیدنا عمر ِ فاروقؓ کے عدل و انصاف اور طرزِ حکم رانی پر شبلی نے ان سے اپنی عقیدت کا ایسا اظہار کیا، جس کی مثال اردو زبان و ادب میں ان سے پہلے نہیں ملتی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔