نااہلی
جو شخص اپنی تنہائی سے عدل نہیں کرتا، وہ زندگی میں کیا عدل کرے گا
PARIS:
معروف صوفی دانشور واصف علی واصف اپنی کتاب ''حرف حرف حکایت '' میں لکھتے ہیں کہ حق والے کو اس کا صحیح حق مل جانا ہی عدل ہے۔ کسی ترازو تولنے والے کو غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ دو پلڑے کس طرح ہم وزن کیے جاتے ہیں۔ اسی ہم وزن کرنے کے عمل کو عدل کہتے ہیں۔ ترازو کو ڈنڈی نہیں مارنی چاہیے۔ کم تولنا، کم وزن کے اوزان استعمال کرنا عدل نہیں ظلم ہے۔
عدل کا میدان بڑا وسیع ہے۔ یہ انسان کی تنہائی سے شروع ہو کر میدان حشر تک پھیلا ہوا ہے، جو شخص اپنی تنہائی سے عدل نہیں کرتا، وہ زندگی میں کیا عدل کرے گا۔ یعنی خیال عادل نہ ہو تو عمل عادل نہیں ہو سکتا۔ ظاہر و باطن میں فرق رکھنے والا ہی ظالم ہے۔ ایک سے زیادہ زندگیاں گزارنے والا عادل نہیں ہو سکتا۔ عدل ہمہ حال عادل ہے۔
اس کی بات عدالت، اس کی خاموشی عدالت، اس کی گواہی عدالت، اس کی زندگی عدالت، اس کے فیصلے عدالت، اس کی موت بھی ایک بڑی عدالت۔ حق، حق ہے، اسے ہر صورت بیان ہونا چاہیے، حق بات کا برملا اظہار کرنے سے قطعاً نہ ہچکچاؤ، آخر سورج نکل ہی آتا ہے، سچ کو سچ کہو اور جھوٹ کو جھوٹ، دن کو دن اور رات کو رات، سچ اور جھوٹ کو ملا کر بولنے والا بڑے دروازوں اور خوب صورت مکانوں کے اندر عذاب کی زندگی بسر کرتا ہے۔ لوگ اسے خوش سمجھتے ہیں لیکن وہ جانتا ہے کہ خوشی نام کی کوئی چیز اس کے پاس نہیں آ سکتی۔ البتہ وہ شعور ضبط غم کو خوشی کہہ کر اپنے آپ کو صرف دھوکا ہی دے سکتا ہے۔ عدل کرنا صرف خوف خدا اور فضل خدا سے ہی ممکن ہے۔ ورنہ یہ ایک پل صراط ہے، عادلانہ زندگی گزارنا بلاشبہ مشکل کام ہے۔
واصف صاحب کے بقول انسان کے لیے یہ قابل غور بات ہے کہ اس کے خیال کا عدل کیا ہے۔ عمل نیت سے پہچانا جاتا ہے، لیکن نیت عمل کرنے کو ہی معلوم ہوتی ہے، اگر عمل سے نیت کو پہچانا جاتا تو آج کچھ بھی نہ پہچانا جاسکتا۔ خیال کی اصل پہچان تو خیال دینے والے کو ہو سکتی ہے۔ خیال کی تخلیق وہی ذات فرماتی ہے جو انسان کو پیدا کرتی ہے۔ خیال بھی انسان کی طرح پیدا ہوتے رہتے ہیں، اچھے اور برے، لیکن تربیت اور نصیب سے یہ ممکن ہے کہ ہم اچھے خیال حاصل کریں اور ان کو عمل کی تقویت دے کر ان کے ساتھ اور اپنے ساتھ عدل کریں۔ عادل کے لیے اپنے خیال کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ وہ اپنے دل کے دروازے پر دربان بن کر بیٹھ جائے تاکہ اسے خیالات کے آنے اور جانے کا علم ہو اور یہی عدل کا تقاضا ہے۔
خیال کے عادل کے لیے لازم ہے کہ وہ نگاہ کا بھی عادل ہو۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اپنا کیا ہے اور پرایا کیا ہے۔ اس کے پاس پہچان ہونی چاہیے کہ جو چیزیں اس کے گھر میں استعمال ہو رہی ہیں وہ کہیں دفتر کی تو نہیں ہیں، جو پیسہ وہ استعمال کر رہا ہے وہ کسی دوسرے انسان سے غلط بیانی کرکے تو حاصل نہیں کیا، اگر نگاہ عادل ہو جائے تو بیڑا پار ہو جاتا ہے۔
زبان کا عدل بھی ازبس ضروری ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ میٹھی زبانوں میں تقریر کرنے والے سماجی زندگی کی شریانوں میں زہر گھول رہے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ لوگ سیاست میں معمولی مقام حاصل کرنے کے لیے قرآن بولتے ہیں، حدیث بولتے ہیں، اقبال اور مولانا رومی بولتے ہیں، فصاحت و بلاغت بولتے ہیں اور مقصد صرف ووٹ کا حصول۔ عدل کیا ہے، قابل غور بات ہے۔ اگر سیاست میں عدل آ جائے تو یہ ملک کہاں سے کہاں ترقی کر جائے۔ سیاسی بزرگ عدل کے بزرگ نہیں ہوتے۔ سیاست میں سب کچھ جائز ہے اور یہی بات عدل میں ناجائز ہے۔
اس پس منظر میں وطن عزیز میں نظام عدل کا جائزہ لیں تو عجیب صورت حال سامنے آتی ہے۔ ہمارے ہاں عدل کے معیارات، اصول، قانون، ضابطے اور پیمانے ہر ایک کے لیے جداگانہ ہیں۔ کبھی نظریہ ضرورت عدل کا معیار بن جاتا ہے، کبھی آمروں کو آئین میں ترمیم کی اجازت دینا عدل قرار پاتا ہے تو کبھی شب خون مارنے والوں کی حکمرانی کو سند جواز عطا کرنا عدل قرار دیا جاتا ہے۔ کبھی سوموٹو ایکشن عدل سمجھا جاتا ہے تو کبھی آئین کی کسی شق کی تشریح کو عدل کا نام دے دیا جاتا ہے۔ غرض وقت اور حالات کے بدلنے سے عدل کے معیارات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
بعینہ ایوان عدل سے آنے والے فیصلوں سے متاثر ہونے والے ہر دو فریق کے فیصلوں کے حوالے سے خیالات و نظریات اور اصول بھی جدا جدا ہیں۔ جس فریق کے حق میں فیصلہ آجائے اس کے نزدیک عدلیہ آزاد ہے، آئین و قانون کی بالادستی قائم ہے، ملک میں جمہوریت کی استحکام حاصل ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور جس فریق کی مخالفت میں فیصلہ آجائے تو گویا جیسے آسمان سر پہ گر پڑا ہو، ملک میں انصاف اور قانون کا قتل ہو گیا ہو، جوڈیشل کو کا نعرہ بلند کردیا جاتا ہے، عدلیہ پر تنقید کے ایسے ایسے نشتر چلائے جاتے ہیں کہ الحفیظ الامان۔ تازہ ترین مثال وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے حمزہ شہباز اور پرویز الٰہی کے درمیان مقابلے کے نتیجے سے لے کر عدالت عظمیٰ کے فیصلے اور سیاسی رہنماؤں کے تند و تیز بیانات سے دی جاسکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب انھی ججز صاحبان نے اسی عدالت عظمیٰ سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف فیصلہ دیا اور شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہوئی تو پی ڈی ایم والوں نے واہ واہ! اور کلمہ ہائے تحسین کے شادیانے بجائے، اب اسی عدالت اور انھی ججز نے حمزہ شہباز کو فارغ کیا تو پی ڈی ایم کے نزدیک جوڈیشل کو ہو گیا ۔ قومی زندگی کے ہر شعبے میں تقسیم در تقسیم کا عمل جاری ہے۔ کیا سیاست، کیا عدالت، کیا تجارت ، کون سا شعبہ زندگی مستحکم، مربوط اور منظم ہے؟ سیاست کا سب سے برا حال ہے، نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اب دیگر قوتوں کو امریکا سے کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ قرضہ دینے کے لیے آئی ایم ایف پر دباؤ ڈالے۔ یہ ہماری سیاسی قیادت کی نااہلی ہے۔