کراچی تاریخ کے آئینے میں آخری حصہ
جو لوگ اصل حقائق اور تاریخ جاننا چاہتے ہیں ان کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت ضروری ہے
اس دور کے کراچی میں برہمنوں کے تین یا چار اسکولوں میں ہندوؤں کو سندھی زبان میں تعلیم دی جاتی تھی۔ طالب علم روزانہ اپنے استاد کے لیے تحفے کے طور پر تھوڑی مقدار میں چاول اور ایندھن کے لیے چند لکڑیاں ضرور لے کرجایا کرتا تھا جبکہ والدین ہر ماہ ایک یا دو روپے ادا کرتے تھے۔
''حساب نوید اور پڑھنا اور خطوط لکھنا'' فارسی کی بنیادی تعلیم کے ساتھ نصاب کا حصہ تھے۔ دربار کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ دریں اثنا مولوی حضرات مسجدوں میں جماعتیں منعقد کرتے تھے اور تدریس فارسی میں ہوتی تھی۔ شاگرد کی تعلیم مکمل ہونے پر رواج کے مطابق تحفہ پیش کیا جاتا تھا۔ ہندو لڑکیوں کو بالکل تعلیم نہیں ملتی تھی لیکن چند مسلمان خواتین کو قرآن پڑھنا سکھایا جاتا تھا۔ یہاںاس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں اپنے بچوں کی شادیاں بہت کم عمر میں کردیتے تھے۔ بشرطیکہ اس کے اخراجات اٹھا سکیں جوکہ اکثر اوقات ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا تھا۔
شراب کی تیاری اور اسکی فروخت کی اجازت تھی اور یہ راب سے کشید کیا جاتا تھا۔ بعض اوقات اس میں کھجوریں شامل کردی جاتی تھیں۔ شراب بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے برتن اور لکڑیاں فراہم کی جاتی تھیں۔ شراب بنانے کا ٹھیکہ دیا جاتا تھا اور ٹھیکیدار اسے بردہ فروشوں کے ہاتھوں فروخت کرنے میں آزاد تھا جو اپنے گاہکوں کو فروخت کرسکتے تھے۔ اہم لوگوں کو خصوصی اجازت ''بطور رعایت'' دی جاتی تھی تاکہ وہ شراب بنانے کے لیے اپنا کارخانہ بنائیں اور یہ رعایت موروثی ہوسکتی تھی۔
شہر میں ایک قمار خانہ بھی تھا اور یہ حکومت کی ملکیتی عمارت میں واقع تھا۔ اس قمار خانے کے علاوہ کہیں اور جوا کھیلنا منع تھا اور اس کی خلاف ورزی پر سخت سزا دی جاتی تھی۔ جیتے جانے والے ہر روپے پرٹیکس عائد کیا جاتا تھا۔ قمار خانے کی انتظامیہ بھی ٹھیکے پر دی جاتی تھی۔ ہارٹ (Hart) کا بیان ہے کہ ٹھکیدار کے خزانچی ہارنے والوں کو کچھ رقم ادھار دینے پر تیار رہتے تھے ۔ ان کو یقین ہوتا تھا اگر رقم کی واپسی میں کوئی مشکل درپیش ہوگئی تو حکومت کے افسران اس معاملے میں اس کی مدد کریں گے۔
برٹون (Burton) نے اجتماعی زندگی،لباس اور طرز عمل کی چند پہلوؤں کا تذکرہ کیا ہے وہ گڑھوں سے جمع کردہ پانی بھرنے والی عورتوں کا طریق عمل بیان کرتا ہے، اس عمل کے ساتھ بہت لطف اندوزی اور بلند آہنگ مسلسل قہقہے شامل ہوتے ہیں۔ برٹون یہ نشاندہی کرتا ہے کہ ہندوستان کے دیگر مقامات کے برعکس کراچی کی عورتیں خصوصاً مہانا ذات سے تعلق رکھنے والی کبھی کبھار ہی نقاب اوڑھتی ہیں اور اجنبی شخص کو دیکھ کر اکثر ان پر جملے بازی کرتی ہیں۔
مذہبی تقریبات سماجی زندگی کا لازمی جز تھیں جو مندروں اور درگاہوں کے اندر اور انکے چاروں طرف منعقد کی جاتی تھی۔ 1938 میں شہر کے گردو نواح میں 21 مسجدیں اور 13 درگاہیں تھیں۔ صرف منگھو پیر کو حکومت کی جانب سے تیل فراہم کیا جاتا تھا ورنہ کسی کو کوئی حکومتی مراعت حاصل نہیں تھی۔ اسکے علاوہ 34 عدد ہندو مندر اور دھرم شالائیں تھیںجن کو ہندو آبادی کی مدد ملتی تھی۔ انہیں بھی بندرگاہ کے دریا لال مندر کے علاوہ حکومت کی جانب سے کوئی مراعات نہیں دی جاتی تھی۔
ملک کے ممتاز دانشور جناب نصیر میمن نے بھی اپنی ایک دلچسپ تحریر میں عارف حسن اور بعض محققین کا حوالہ دیتے ہوئے ماضی کے کراچی کے بارے میں ایسے حقائق بیان کیے ہیں جو ہمارے بہت سے قارئین کے لیے حیران کن بھی ثابت ہوسکتے ہیں وہ لکھتے ہیں:
کئی مہربانوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ سندھ کے باشندوں کو پاکستان بننے سے پہلے اسلام کا پتا نہیں تھا ویسے ہی کئی محترم دوستوں کویہ غلط فہمی بھی ہوتی ہے کہ پاکستان بننے سے قبل کراچی کوئی ویران سی جگہ تھی جس کو باہر سے آنے والے لوگوں نے رہنے کے قابل بنایا۔ کراچی 1947 سے قبل کیسا تھا، اس کے بارے میں ویسے تو بہت مواد موجود ہے لیکن میں کراچی سے تعلق رکھنے والے تین قابل احترام محققین کی تصنیفات کا حوالہ دوں گا۔
شہری ترقی کے نامور ماہر عارف حسن کی کتاب ''انڈراسٹینڈنگ کراچی'' سٹی پریس نے شایع کی ہے۔ مصنف 1947 سے قبل کے کراچی کا تذکرہ کرتے ہوئے صفحہ 18-20 پر مندرجہ ذیل حقائق بیان کرتے ہیں: 1856 سے 1872 کے دوران کراچی کا کاروباری حجم 855,103 پاؤنڈ سے بڑھ کر 50 لاکھ پاؤنڈ ہو چکا تھا،ان ہی برسوں میں کراچی چیمبر آف کامرس قائم ہو چکا تھا،1861 میں سندھ ریلوے کی بنیاد ڈالی جا چکی تھی جس سے کراچی کو کوٹری سے ملایا گیا اور یوں کراچی، پنجاب اور شمالی بھارت تک کپاس اور گندم پیدا کرنے والے علاقوں سے منسلک ہو گیا۔ اس ترقی کے نتیجے میں 1872 اور 1901 کے درمیان کراچی کی آبادی دگنی ہوگئی۔1885 میں کراچی میں ٹرام متعارف کروائی گئی،1885 میں سندھ مدرسہ، 1887 میں ڈی جے سندھ کالج، اور 1889 میں ایمپریس مارکیٹ قائم کیے گئے۔
کراچی پورٹ اس حد تک ترقی کر چکا تھا کہ جنگ عظیم دوئم میں انگریز نے اسے فوجی اڈے اور رشیہ کے محاذ کی رسد کے لیے استعمال کیا ۔کراچی سے تعلق رکھنے والے بہرام سہراب رستم جی اور سہراب کے ایچ کترک نے اپنی مشترکہ تصنیف ''کراچی ڈیورنگ برٹش ایرا'' جو کہ آکسفورڈ نے شایع کی ہے کراچی کے حوالے سے مندرجہ ذیل حقائق قلمبند کیے ہیں:
1799'میں جناب جوناتھن کرو نے کراچی سے کسٹمز کی آمدنی کا تخمینہ 80 ہزار روپے لگایا تھا۔چارلس میسن نے 1830 میں سندھ رزرو فورس کے بریگیڈیئر ویلینٹ کے حوالے سے لکھا کہ کراچی کا ہاربر شاندار ہے جس میں پورا سال بیڑے محفوظ طریقے سے چلائے جا سکتے ہیں۔1850 کی دہائی میں بارٹل فیریئر کے دور مین نارائن جگن ناتھ ہائی اسکول، چرچ مشن ہائی اسکول اور کراچی گرامر اسکول قائم ہو چکے تھے۔کراچی پورٹ ٹرسٹ کے قیام کا بل یکم اپریل 1887 سے نافذ ہو چکا تھا۔کارلیس کے مطابق 1837 میں کسٹمز سے آمدنی 17 لاکھ روپے سے زائد تھی۔ 1851 میں کراچی میونسپل کونسل کے پہلے کمشنرکا تقرر ہوا، 1931 میں کراچی میں آل انڈیا انڈسٹریل اینڈ کمرشل نمائش منعقد ہوئی تھی ۔13 اپریل 1853 میں کراچی میونسپالٹی وجود میں آ چکی تھی۔
جب انگریزوں نے 1843 میں سندھ پر قبضہ کیا اس وقت کراچی پورٹ پر سالانہ تجارت کا حجم 12 لاکھ 21 ہزار روپے تھا جو 1940 میں بڑھ کر 55 کروڑ روپے کا ہو چکا تھا۔فروری 1936 میں انڈین مرچنٹس ایسوسی ایشن کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا تھا۔ 1866 میں کراچی میونسپل کی روینیو آمدنی 240,914 روپے ہو چکی تھی۔1862 میں اسٹیمپ آفیس اور سمال کاز کورٹ کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔1882 میں کراچی کو پانی فراہم کرنے کے لیے ملیر ندی پر دو بڑے کنویں اور 20 لاکھ گیلن کی گنجائش کا تالاب تعمیر ہو چکا تھا۔
ان مختصر حوالاہ جات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 1947 میں کراچی اس خطے کا ایک ترقی یافتہ شہر تھا۔ 1941کی آدم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 713,900 نفوس پر مشتمل تھی جن میں406,050 یعنی 57 فیصد کی مادری زبان سندھی تھی۔ ہندوستان سے کراچی منتقل ہونے والے افراد خوش نصیب تھے کہ ان کو سندھ میں ملک کا سب سے ترقی یافتہ شہر رہنے کو ملا اور مقامی آبادی نے دہائیوں کی محنت سے بنایا ہوا اپنا سب سے خوبصورت شہر ان کے حوالے کیا۔ اس شہر اور صوبے کی ترقی ہم سب کے اتحاد اور یگانگت سے ہی ممکن ہوگی۔ امید ہے کہ یہ حقائق کراچی کے پس منظر کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
جو لوگ اصل حقائق اور تاریخ جاننا چاہتے ہیں ان کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔تاریخ ان قوموں کو معاف نہیں کرتی جو اس کے ساتھ جعل سازی کا ارتکاب کرتے ہیں۔یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم نے اپنے لوگوں کو اصل تاریخ سے بے خبر رکھا ۔جس کی وجہ سے لوگ خطر ناک ذہنی الجھاؤمیں مبتلاہوچکے ہیں اور ہمارا معاشرہ تخلیقی طور پر بانجھ ہوگیا ہے۔اب بھی وقت ہے کہ نصابی کتابوں میں اصل تاریخی حقائق بیان کیے جائیں اور ماضی کی غلطیوں کی تلافی کرلی جائے ۔امید کی جانی چاہیے کہ عارف حسن سندھ کے حوالے سے اپنی تحقیقی کاوشوں کو جاری رکھیں گے اور لوگوں کو اصل حقائق سے آشناکرنے کا عمل مزید تیز تر ہوگا۔