بارشوں سے ہونے والی تباہ کاریاں جاری
بلوچستان اور دیگر علاقوں میں پاک افواج و دیگر امدادی اداروں کا ریلیف آپریشن جاری ہے
پورے پاکستان میں شدید بارشوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے جبکہ ادھر دریاؤں میں بھی سیلابی صورتحال بدستور موجود ہے۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے جنوبی اضلاع خصوصاً ڈیرہ غازی خان اور راجن پور بارشوں اور سیلاب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
تحصیل تونسہ اور سخی سرور میں بارش اور سیلاب کی تباہ کاریاں زیادہ ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا تعلق بھی تونسہ ہے۔ سندھ میں کراچی میں بھی غیرمعمولی بارش ہوئی لیکن اب بارش میں ٹہراؤ آیا جب کہ اندرون سندھ میں دریائے سندھ میں پانی کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے سیلابی صورتحال کا سامنا ہے جب کہ وسطی پنجاب میں بارشیں جاری ہیں لیکن شدت کم ہے جب کہ شمالی پنجاب میں بارشوں نے خاصا نقصان پہنچایا ہے، ادھر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی شدید بارشیں ہو رہی ہیں۔
بلوچستان اور دیگر علاقوں میں پاک افواج و دیگر امدادی اداروں کا ریلیف آپریشن جاری ہے۔ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ہونے والے مختلف قسم کے حادثات میں بیسیوں انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں، سیکڑوں مویشی اوردرخت سیلابی پانی کی نذر ہوئے ہیں، سینکڑوں ایکڑ پر کھڑی فصلو ں کو نقصان پہنچا ہے۔
گزشتہ روز بھی پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختوتخوا میں موسلادھار بارش کا سلسلہ جاری رہا۔ محکمہ موسمیات نے ملک کے مختلف علاقوں میں سیلاب اور پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا خدشہ ظاہر کیا ہے، ادھر بھارت سے سیلابی ریلا آنے کے خدشات کے باعث ضلع قصور اور لاہور میں دریاؤں کی قریبی آبادیوں کو الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔
صرف بلوچستان میں 2 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی تباہ ہونے کی اطلاعات ہیں، ہزاروں خاندان بے گھر ہوچکے ہیں اور 15 پْل متاثر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے لوگ سخت مشکل میں ہیں۔ سیلابی ریلے میں دالبندین کے قریب ریلوے ٹریک بہہ جانے سے پاک ایران ریلوے سروس بند کر دی گئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔
نقصانات کا فضائی جائزہ بھی لیا۔ متاثرین سے ملاقات کی اور بارشوں اور سیلاب میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء کے لیے 10 لاکھ امداد کا اعلان کیا، متاثرین سے ملاقات میں وزیراعظم نے کہا کہ گھروں کی تعمیر کے لیے 5 لاکھ روپے امداد، جزوی نقصان والوں کو دو لاکھ روپے یا زیادہ رقم دیں گے، انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت ان کی بحالی اور امداد کے لیے تمام تراقدامات اٹھائے گی۔ وزیراعظم نے خیبر پختونخوا میں پولیو کے بڑھتے ہوئے کیسز پر تشویش کا اظہار کیا۔
پاکستان کا کمزور انتظامی ڈھانچہ اور مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے حکومتی ادارے قدرتی اور شدید موسمی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی شدید بارشیں ہوتی، سمندری اور دریائی سیلاب آتے ہیں، لیکن انفرا اسٹرکچر کی فعالیت اور انتظامیہ کے کوئیک رسپانس کی وجہ سے جانی و مالی نقصانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں، نشینی علاقوں میں پانی بھی تھوڑے وقت کے لیے رہتا ہے لیکن پاکستان میں صورتحال اس سے قطعی طور پر مختلف ہے۔
پاکستان میں پچاس سے ستر کی دہائی تک بڑے شہروں میں نکاسی آب کا نظام فعال رہا، بلدیاتی سطح پر بارشوں، حادثات اور دیگر ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کے لیے منصوبہ بندی بھی موجود تھی، فائر بریگیڈ بھی فعال تھا، کہیں کوئی سانحہ رونما ہو جاتا تو فائر بریگیڈ فوری مدد کو پہنچ جاتا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اداروں میں بہتری آنے کے بجائے ترقی معکوس کا عمل شروع ہوا اور صورتحال کافی پریشان کن دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان کے سائنسدانوں اور حکمران اشرافیہ نے ایٹم بم تو بنالیا، میزائل ٹیکنالوجی میں بھی خاطر خواہ ترقی کی، ایٹمی بجلی بھی پیدا کی، فلورملیں قائم ہوگئیں، شوگر ملیں بن گئیں، سیمنٹ فیکٹریاں، کھاد فیکٹریاں قائم ہوگئیں، امراء نے محلات بنا لیے، اچانک امیر ہونے والوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہوگیا۔
یہ امراء کلاس کسی کاروبار یا محنت کے بل بوتے پر پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ چور دروازوں سے ملنے والی غیرمعمولی مراعات ملنے سے امیر ہوئی، ایک طرف لوٹ مار سے امیر کلاس پیدا ہوئی تو دوسری جانب غربت کی لکیر سے نیچے جانے والوں کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا، یہ سب کچھ ہوگیا لیکن اس ترقی کی قیمت ریاستی خصوصاً بلدیاتی اداروں کی تباہی کی صورت میں ادا کی گئی۔
آج ملک میں وفاقی حکومت کے پاس کوئی مستقل پلاننگ نہیں ہے، کسی صوبائی حکومت کے پاس بھی کوئی پلاننگ نہیں ہے اور ضلع و بلدیاتی حکومتیں بھی فرائض کی ادائیگی سے بے نیاز ہوچکی ہیں۔ انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد ہے اور ہمارے مرکزی، صوبائی حکمران اور اداروں کے کرتا دھرتا چین کی بانسریاں بجا رہے ہیں۔
پاکستان میں تباہ کاریاں قدرتی آفات کی وجہ سے کم اور ناقص منصوبہ بندی اور سرکار کی نااہلی اور کم فہمی کی وجہ سے زیادہ ہوتی ہیں۔ بارش ہوتی ہے تو اس کی تباہ کاری قومی ذرائع ابلاغ کا موضوع بن جاتی ہے، جس کی ایک بڑی مثال کراچی جیسا میگا سٹی ہے۔ ہر سال مون سون بارشیں ہوتی ہیں ، لیکن قدرتی آبی گزر گاہوں پر تجاوزات اور جمع شدہ کچرے کے ڈھیر، بارش کے پانی کی نکاسی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں سیوریج نظام کی تباہی کے باعث صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ زرعی اراضی کے ایریگیشن چینلز کی تباہی ہوئی ہے۔
گزشتہ چند برس کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو صرف بارشوں کی وجہ سے کراچی کے شہریوں کو اربوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ کراچی اور سندھ میں بارشوں اور سیلاب نے تباہ کاریوں کی داستانیں رقم کی ہیں۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی تو بات ہی کیا کرنی، وہاں بس حکومتیں ہوتی ہیں لیکن ان کی کوئی ذمے داری نہیں ہوتی، عوام جائے بھاڑ میں۔ جنوبی پنجاب میں مسلسل بارشوں کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ پنجاب میں عملاً حکومت نام کی کوئی چیز اس وقت موجود نہیں ہے، صوبے میں گزشتہ کئی ماہ سے جاری سیاسی عدم استحکام اس کی بنیادی وجہ ہے، لہٰذا انتظامیہ اور متعلقہ ادارے کوئی کام نہیں کر رہے ہیں۔
گزشتہ برسوں میں سیلاب ہوں یا طوفانی بارشوں کی تباہ کاریاں، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا ادارہ بھی اپنی افادیت ثابت نہیں کرسکا۔ پاکستان میں گلوبل وارمنگ یا موسمیاتی تغیر کے باعث بارشوں میں اضافے اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا چھٹا ملک بن گیا ہے۔
پاکستان کے تمام شہروں میں نکاسی آب کا نظام انتہائی ناقص ہے، شہروں میں ابھی تک شہری سیلاب کے امکانات اور اس سے نمٹنے کی کوئی تیاری دکھائی نہیں دیتی، خود شہریوں نے بھی اپنے آپ کو اور اپنے اپنے شہر کو ڈبونے کا پورا بندوبست خود اپنے ہاتھوں کر رکھا ہے۔
دریاؤں کے کنارے آبادیاں قائم ہیں، گندے نالے اور برساتی نالے چھوٹی چھوٹی نالیوں میں تبدیل کر دیے گئے اور باقی زمین لوگوں نے اپنے گھروں میں شامل کرلی ہے۔ سارا کچرا اور پلاسٹک کی اشیاء گندلے نالوں اور گٹروں میں پھینک دی جاتی ہیں۔ حکومت اور انتظامیہ متجاوزین کے سامنے جس طرح بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے وہ تباہی کا نوشتہ دیوار ہے۔ جب کبھی سیلاب کی تباہ کاریوں پر شور مچتا ہے تو انتظامیہ کچھ دنوں کے لیے دکھاؤے کے لیے حرکت میں آتی ہے اس کے بعد چپ سادھ لی جاتی ہے، ندی نالوں اور آبی گزرگاہوں میں کھڑی رکاوٹوں کے خاتمے پر اب بھی توجہ کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں جو بار بار کے سروے ہوتے رہے ہیں اور تجاوزات کی رپورٹیں حکام کے پاس موجود ہیں وہ رپورٹیں اب الماریوں سے نکال کر گرد جھاڑ کر اس کے مطابق کارروائیوں کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے اقتدار پر قابض اشرافیہ بڑے ڈیم بنانے سے قاصر رہی، شہروں میں گراؤنڈز اور کھیل کے میدان ختم کر دیے گئے۔ سڑکیں چوڑی کرنے کے لیے گرین بیلٹس ختم کردی گئیں۔ لیکن ٹریفک پھر بھی کنٹرول نہ ہوسکی۔ پاکستان کے رنگ رنگ کے حکمران اپنی اپنی ڈفلی بجا کر چلے گئے لیکن ملک کا انتظامی ڈھانچہ زوال پذیر ہی رہا۔
کالاباغ ڈیم کے منصوبے پر تو صوبے اعتراض کرتے ہیں لیکن توانائی کے متبادل پر بھی غور نہیں کیا اور نہ زراعت کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی منصوبہ بنایا گیا۔ چین اور بھارت نے ان گنت ڈیمز بنا لیے ہیں، لیکن ہم تو عملی طور پر کچھ بھی نہیں کرسکے ہیں۔
پاکستان کی حکمران اشرافیہ آج بھی نوشتہ دیوار پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہے یا پھر ان کو پڑھنا ہی نہیں آتا۔ زوال کی رفتار تیز ہوچکی ہے، ریاست کا مال کھا کر امیر ہونے والی حکمران کلاس بدمست ہوکر پاکستان کے عوام کے مفادات کے خلاف کام کر رہی ہے۔ ٹیکس پیئرز کے پیسوں سے ٹیکس پیئرز کے مفادات کے خلاف کام پاکستان کی حکومتیں ہی کر سکتی ہیں، دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔