معاشی حالات اور آئی ایم ایف

دنیا کی معیشتوں پر خدائی عذاب پہلے کورونا کی شکل میں ظاہر ہوا


Zamrad Naqvi August 01, 2022
www.facebook.com/shah Naqvi

MOSCOW: جرمنی کے شہر ہمبرگ میں قائم ایک ادارے انسٹیٹیوٹ فار فیوچر اسٹڈیز کی طرف سے کورونا وبا کے پھیلاؤ سے قبل اور پھر بعد میں یعنی یوکرین جنگ کے آغاز کے فوری بعد جو اس سال 24فروری کو شروع ہوئی۔ سروے کیا گیا اس سروے میں لوگوں سے ملک کے مستقبل کے حوالے سے سوالات کیے گئے۔

سروے سے معلوم ہوا کہ ملک کے مستقبل کے حوالے سے بے چینی تمام عمر کے لوگوں میں بڑھ رہی ہے۔ مثال کے طور پر ایسے افراد کی شرح جو امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے فرق سے خوفزدہ ہیں ان کی تعداد 2019 میں 60فیصد تھی اب وہ بڑھ کر 87فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ سستی رہائش کی عدم دستیابی کا خوف 2019 میں 46فیصد لوگوں کو تھا جو اب بڑھ کر 83فیصد لوگوں کو ہو چکا ہے۔

اندازہ کریں اس سروے میں شامل ہر 10میں سے 8لوگوں کو یقین ہے کہ انھیں مستقبل میں مزید پریشان کن مالی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جرمنی یورپ کی سب سے بڑی معیشت اور دنیا کی معیشتوں میں اس کا تیسرا نمبر آتا ہے۔ ذرا سوچیں اس کے باوجود جرمن عوام اپنے مستقبل کے بارے میں کس قدر خوفزدہ ہیں۔

دنیا کی معیشتوں پر خدائی عذاب پہلے کورونا کی شکل میں ظاہر ہوا۔ ادھ موئی عالمی معیشت اس حملے سے بمشکل ابھی سنبھل ہی رہی تھی کہ امریکا نے یوکرینی صدر سے ساز باز کر کے عالمی معیشت کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔

مزید سونے پے سہاگا امریکا کی طرف سے خوشخبری یہ ہے کہ یہ جنگ ابھی برسوں چلے گی کیونکہ اپنے حریف روس کو تباہ کرنا مقصود ہے کہ اُس نے چین کے ساتھ مل کر دنیا پر امریکی قبضے کے خاتمے کی جرات کرنے کی کوشش کیوں کی جس پر اُس نے پچھلے 32سالوں سے بلا شرکت غیرے قبضہ جمایا ہوا ہے۔

پوری دنیا کو چھوڑیں صرف پاکستان ہی کی بات کریں تو یہ امریکی عالمی قبضہ ہی ہے کہ پاکستان روس سے بھارت کے برعکس سستا تیل اور سستی گندم خرید سکتا ہے نہ ہی ایران سے سستی گیس اور سستا تیل حاصل کر سکتا ہے جب کہ پاکستان کو عنقریب 30لاکھ ٹن گندم کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا اور صورتحال یہ ہے کہ اس وقت ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر انتہائی تشویش ناک سطح پر ہیں ۔جاں بلب عالمی معیشت کامیڈین یوکرینی صدر اور امریکی صدر کے ہاتھوں دم توڑ رہی ہے ۔

دنیا آیندہ ایک سال کے لیے ایک بہت بڑے معاشی بحران کی لپیٹ میں آنے والی ہے۔ آئی ایم ایف نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ آنے والے وقت میں عالمی معاشی شرح نمو 3.2فیصد تک گرنے والی ہے جس سے ہر ملک کی معیشت پر انتہائی منفی اثر پڑے گا۔

صورت حال غیر یقینی اور تاریک ہے جب کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک میں جی ڈی پی کا تخمینہ 3سے 4فیصد لگایا ہے جب کہ گذشتہ سال ہماری جی ڈی پی 6فیصد کے قریب رہی۔ یہ صورت حال انتہائی الارمنگ ہے۔ سستا تیل، گیس اور گندم اگر روس، ایران سے مل جائے تو پاکستانی عوام کے لیے موجودہ صورتحال میں غیبی مدد کے مترادف ہے لیکن اس میں سب سے بڑی اور واحد رکاوٹ امریکا ہے۔

پاکستان کو رواں مالی سال کے لیے 35ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت ہے۔ اگر آئی ایم ایف پروگرام بحال نہیں ہوتا تو بیرونی فنڈنگ کا حصول ناممکن ہو جائے گا اور پاکستان کی معاشی صورتحال اور عالمی کریڈٹ ریٹنگ انتہائی خطرناک حدتک گر جائے گی جس سے خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔

اس وقت دنیا میں ایک درجن سے زائد ممالک ایسے ہیں جو بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی استطاعت نہیں رکھتے جس کے باعث اُن کی کرنسی اور زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہو کر نچلی ترین سطح اور مہنگائی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ پاکستان سمیت ایک درجن ممالک قرضوں کے ناقابلِ برداشت بوجھ اور معاشی بحران کے باعث خطرناک زون میں داخل ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے بیرونی قرضے ناقابلِ برداشت حد تک پہنچ چکے ہیں اور ہم اپنے ریونیو کا 40فیصد سے زیادہ قرضوں پر سود کی ادائیگی پر خرچ کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ قرضے لیے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ سود کی ادائیگی کی جا سکے۔

پاکستان کی معاشی صورتحال پریشان کن ہے کہ آرمی چیف کو امریکی نائب وزیر خارجہ کو ٹیلیفون کرنا پڑا کہ امریکا آئی ایم ایف پر دباؤ ڈال کر رقم دلوائے۔ آئی ایم ایف کا تین ہفتوں تک کوئی اجلاس نہیں ہونا یہاں تک کہ قرض منظوری کے اعلان کے لیے ابھی کوئی ٹھوس تاریخ طے نہیں ہوئی ہے ۔

ان تمام حوصلہ شکن حالات کے باوجود اسٹیٹ کے قائم مقام گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے خوشخبری سنائی ہے کہ پاکستان کے ڈیفالٹ میں جانے کا کوئی خطرہ نہیں وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ اگلے بارہ مہینے مشکل مہینے ہیں لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم ڈیفالٹ کے خطرے سے کہیں دور ہیں کیونکہ ہمارا داخلی اور بیرونی 95ویںفیصد قرضہ درمیانی یا طویل مدت کا ہے ۔ ہمارا اصل مسئلہ وہ 7فیصد قلیل مدتی قرضے ہیں جو ہمیں رواں مالی سال میں ادا کرنے ہیں لیکن ڈاکٹر مرتضیٰ سید کی خوش امیدی کا انحصار بھی آئی ایم ایف پیکیج پر ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔