نہ معیشت بچی نہ سیاست
چار مہینے ہوچکے اس حکومت کو وہ ابھی تک ڈالر کو قابو نہیں کرپائی ہے
SINGAPORE:
پی ڈی ایم نے جب عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں PTI کی حکومت کو معزول کرکے گھر بھیجا تھا تو اس کا مؤقف تھا کہ ہم نے ریاست کو بچانے کی خاطر اپنی سیاست کی قربانی دی ہے۔
عنان حکومت سنبھالتے ہی بڑھتی ہوئی عالی مہنگائی کا بوجھ عوام کے کاندھوں پر منتقل کرتے ہوئے، ان کا یہ استدلال تھا کہ ہم نے یہ سخت گیر فیصلے وطن عزیز کو ڈیفالٹ یا دیوالیہ ہوجانے سے بچانے کی خاطر کیے ہیں۔ ہم اگر یہ فیصلے نہ کرتے تو ملک کب کا دیوالیہ ہوچکا ہوتا۔ بڑی بڑی تسلیاں اور دلاسے دیے گئے کہ چند مہینوں کی بات ہے یہ مشکل دور بھی گذر جائے گا اور ملک پھر سے ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ مصائب اور پریشانیوں کے یہ دن بہت جلد ختم ہوجائیں گے، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہر گذرتے دن کے ساتھ حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔
کہیں سے کوئی آس واُمید کی جھلک بھی دکھائی نہیں دے رہی۔ آئی ایم ایف نے اپنی ساری سخت شرائط ہم سے من وعن منوا بھی لی مگر امداد اور قرضے کی ایک قسط تو کیا ایک دھیلا بھی جاری نہیں کیا۔ وزیر خزانہ قوم کو تسلی دیتے رہے کہ چند دنوں میں ہمیں قرضے کی قسط مل جائے گی۔
آئی ایم ایف کی یہ روش دیکھتے ہوئے ہمارے دیگر دوست ممالک بھی پیچھے ہوگئے اور اپنے ہاتھ روک لیے۔ نظر کرم اور نظر التفات تغافل اور لاتعلقی میں بدل گئیں۔ ہماری یہ بیچارگی اور گداگری دنیا کی باعزت اقوام میں ہمیں کیا اعلیٰ مقام دلواتی اُلٹاجگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہے کہ دیکھو دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت کس طرح ایک چھوٹی سے رقم کے لیے منت سماجت کر رہی ہے۔ اُسے اگر یہ رقم فوراً نہ ملی تو دنیا کے نقشے پر ایک اور ملک کو دیوالیہ ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا جائے گا۔
مفتاح اسماعیل جس دن سے برسراقتدار آئے ہیں ہر روز اچھے دنوں کی نوید سناتے رہے ہیں، لیکن یہ اچھے دن نجانے کب آئینگے کسی کو نہیں پتا۔ عدم سیاسی استحکام کی موجودگی میں تو یہ ہوتا ہمیں تو کم ازکم دکھائی نہیں دیتاہے۔ ڈالر مہنگے سے مہنگا ہوتا چلا جارہا ہے اور ہمارا روپیہ بے وقعت اور رسوا ہوتا جا رہا ہے۔
اب اگر اگست کے آخری ہفتے میں ہمیں ایک ارب ڈالر مل بھی گئے تو کس کام کے۔ کیا ڈالر واپس 190 پر آسکے گا۔ کیا اس ایک ارب سے ہماری روٹی پانی کا بندوبست ہوجائے گا۔ کیا اس چھوٹی سی رقم سے ہم دیوالیہ ہونے سے بچ جائیں گے۔
یہ حکومت نہ ریاست بچا سکی اور نہ سیاست۔ 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج سے یہ بات تو کھل کر عیاں ہوچکی ہے کہ عمران حکومت کی مبینہ نااہلیوں اور ناکامیوں کا سارا ملبہ اپنے سروں پر ڈال کر بھی وہ خود کو تنقید سے بچا نہیں سکی۔ پی ٹی آئی حکومت کو گرانا اگر اتنا ہی ضروری اور ناگزیر تھا تو جس نے یہ سارا کھیل ترتیب دیا تھا اُسی کو یہ ذمے داری بھی نبھانے کی دعوت دیتے کہ سنبھالو، یہ مصائب و مسائل کا ٹوکرا، ہمیں ان حالات میں وزیراعظم بننے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ ہم تو شروع ہی سے عدم اعتماد کی کسی تحریک کے خلاف تھے۔
اب اگر یہ کام ہوچکا ہے تو آئیے سنبھالیں اس جز وقتی حکومت کو۔ آج جس طرح پی ٹی آئی نے دس سیٹوں والے پرویزالہی کو اپنا وزیراعلیٰ بنا لیا ہے تو مسلم لیگ نون بھی بلاول کو بطور وزیراعظم کامیاب کروا سکتی تھی۔ اس طرح وہ کم ازکم پنجاب میں تو اپنی ساکھ برقرار رکھ سکتی تھی۔ اب نہ وفاق اس کے ہاتھ میں رہا اور نہ پنجاب ۔ عارضی وزیراعظم بن کر میاں شہباز شریف نے نہ صرف اپنا نقصان کیا ہے بلکہ مسلم لیگ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
17 جولائی کو پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد ہماری اطلاعات کے مطابق PDM کے اپنے ایک ہنگامی اجلاس میں مسلم لیگ نون نے حکومت چھوڑنے کا عندیہ دے ڈالا تو اُس اتحاد کی ایک اہم شخصیت کی جانب سے 22جولائی تک رکنے کا کہا گیا اور ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ ہم حمزہ شریف کو بچا لیں گے، مگر جب اعلیٰ عدلیہ نے ساری گیم ہی پلٹ کر رکھ دی ہے اور اب نہ پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت باقی رہی اور نہ وزیراعلیٰ اپنے عہدے پر برقرار رہ سکا تو پھر کیا وجہ ہے کہ وفاق میں ن لیگ ابھی تک براجمان ہے، وہ کس دن کا انتظار کر رہی ہے، اُسے کس نے یقین دہانی کروائی ہے کہ حالات سازگار ہوجائیں گے اور وہ سرخرو ہو پائے گی۔
میاں نوازشریف کے بارے میں تو یہ خبریں بھی آتی رہی ہیں کہ وہ کسی طور ایسی لنگڑی لولی حکومت لینے کے لیے راضی ورضامند نہیں تھے جسے ہروقت معزول ہونے کا دھڑکا لگا رہے اور ایسے حالات میں جب ملکی معیشت ڈانواں ڈول ہو رہی ہو۔ حکومت سنبھالنے کا فیصلہ سراسر گھاٹے کا سودا تھا جو نجانے کس کے دباؤ اور یقین دہانیوں پر کیا گیا، ہر گذرتا دن مسلم لیگ نون کے لیے مشکلیں پیدا کرتا جا رہا ہے، وہ اپنے اجلاسوں میں کیا فیصلے کرتی ہے کھل کرعوام کو بتاتی بھی نہیں ہے۔
حکومتیں اس طرح چلا نہیں کرتیں۔ ایک طرف معیشت تباہ حال ہو اور دوسری طرف عدلیہ کے فیصلے اُس کے ہاتھ باندھ رہے ہوں تو وہ کیوں ابھی تک کرسی سے چمٹے ہوئے ہے۔ خدارا جلد فیصلہ کیجیے کیا اسی طرح اگلا ایک سال گذارنا ہے یا پھر دامن جھٹک کر میدان میں اترنا ہے۔
یوں تذبذب اور ہچکچاہٹ کے ساتھ فیصلے کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ معیشت اگر مضبوط ہوتی تو شاید گوارہ ہوسکتا تھا لیکن ان حالات میں ہم تساہل اور غفلت کا شکار نہیں ہوسکتے ہیں۔ ہمیں ریاست بچانے کا ٹھیکہ کسی اور کودے دینا چاہیے یا پھر عوام پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ کس کو اس کام کا اہل سمجھتے ہیں۔ نون لیگ اکیلی خود کو اس کا اہل نہ سمجھے، یہ ملک سب کا ہے، سب کو مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا۔ جتنی دیر کی جائے گی نقصان اتنا ہی زیادہ ہوگا۔
چار مہینے ہوچکے اس حکومت کو وہ ابھی تک ڈالر کو قابو نہیں کرپائی ہے، ہم صرف IMFپر اکتفا کیے بیٹھے ہیں، وہ اگر اب بھی قرضہ دینے سے انکار کر دے تو ہم کہاں کھڑے ہونگے۔ ہمیں اپنی معیشت کے سدھار کے لیے دوسرے آپشنز پر بھی غور کرنا ہوگا۔ قرضوں سے معیشت بہتر نہیں ہوسکتی، صرف سہارا مل سکتاہے وہ بھی کچھ دنوں کے لیے۔ہم جب تک اپنے پیروں پرخود کھڑے نہ ہونگے دنیا ہمیں اسی طرح بلیک میل کرتی رہے گی۔