انتخابات جلد کیوں نہیں
یہ حکومت انتخابات کی طرف جانے کا ارادہ نہیں رکھتی
ISLAMABAD:
سینیٹر جناب عرفان صدیقی کی شہرت صحافی کی ہے۔ انھیں سیاست دانوں کی فہرست میں بھی شامل کیا جاتا ہے لیکن فی الاصل ہیں تو وہ ادیب اور شاعر۔ ویسے تو ان کے کالم اور صحافتی تحریریں بھی ادب پاروں کا درجہ رکھتی ہیں لیکن سفر حجاز پر ان کا سفر نامہ 'مکہ مدینہ' اور شخصی خاکے 'جو بچھڑ گئے' قرطاس ادب پر اپنا نقش جما چکے ہیں۔
حال ہی میں ان کا شعری مجموعہ 'گریز پا موسموں کی خوشبو ' خوشبو دے رہا ہے۔ زبان و بیان پر قدرت رکھنے والے شعرا ہمارے یہاں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں لیکن فیض صاحب ان سب سے بڑے ہیں۔ وہ بڑے اس لیے ہیں کہ وہ نہ فقط زلف و قاقل کی بات کرتے ہیں اور نہ گردش زمانہ سے متاثر ہو نے کے بعد پڑھنے والے کا لہو گرما کر اسے توپ و تفنگ اٹھانے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب کی ندرت یہ ہے کہ غم دل اور غم زمانہ کو باہم یک جان کر کے انفرادی اور اجتماعی درد میں رومانی احساس پیدا کر دیتے ہیں جو ان کے غنایت بھرے لہجے کی پشت پر سوار ہو کر انسانی فکر و خیال میں مستقل جگہ حاصل کر لیتا ہے۔
عرفان صاحب کو فیض صاحب کا پیرو کہیں نہ کہیں، یہ موضوع الگ ہے، قدما کے پیرو تو وہ ہیں۔ وہ کلاسیکی رنگ میں شعر کہتے ہیں لیکن ان کے شعر میں جہاں اکیسویں صدی کے انسان کے احساسات اور معاملات اپنی تمام تر انفرادیت کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں، وہیں سیاسی اور اقتصادی دباؤ کی وجہ کسی حساس انسان کی روح کے چٹخنے کی آواز ہھی ان کی شاعری میں سنائی نہیں دیتی بلکہ اس ظلم سے نبرد آزما ہونے کی آرزو بھی پیدا کرتی ہے جیسے ؎
تمام ہو گا یہ آزمائش کا مرحلہ کیا
کہ تا قیامت رہے گا یوں ہی یہ سلسلہ کیا
میں اسی خوب صورت شاعری پر بات کرنے بیٹھا تھا لیکن حالات حاضرہ کی بلی راستہ کاٹ گئی ہے۔
ہمارے حالات 'حاضرہ' دہائیوں سے ایک جیسے رہے ہیں لیکن ادھر کچھ عرصے سے ان میں ایک جوہری تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ وہی عرفان صدیقی کے شعر جیسی بات کہ جگر پھاڑ احتجاج بھی نہیں لیکن ایک غنائی احساس کے ساتھ تسلیم خم بھی نہیں بلکہ عہد نو کے تقاضوں پر پورا اترنے کی جان توڑ جستجو۔ ہماری سیاست میں شعر جیسی خوب صورتی تو شاذ ہی پیدا ہوتی ہے لیکن ادھر کچھ دنوں سے اس میں کسی قدر مثبت، دیرپا اور انقلابی تبدیلی کے آثار ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی اچھی کارکردگی اور بعد میں چوہدری پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ بن جانے کے بارے میں عمومی خیال یہی تھا کہ کھیل ختم ہو گیا۔ شاید یہی احساس تھا کہ بعض حلقوں کی طرف سے قبل ازوقت انتخابات کی باتیں کی جانے لگیں۔ ان میں سیاست دان بھی شامل ہیں اور سیاسی مبصرین بھی۔ سیاسی پیشین گوئی میں شیخ رشید کا درجہ بہت بلند ہے، وہ اکثر پیشین گوئی کرتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو تاریخ اور دن کے علاوہ پل اور گھڑیاں بھی بتا دیں لیکن حالات بے وفائی کر جاتے ہیں۔ اس کے باوجود شیخ صاحب حوصلہ نہیں ہارتے، نئی پیشین گوئی کر دیتے ہیں۔
شیخ صاحب اب بھی وہی ہیں اور وہی ان کی باتیں ہیں۔ انھوں نے اکتوبر میں انتخابات کی سناونی سنائی ہے۔ ایک صحافی دوست نے تو یہ بھی بتا دیا ہے کہ اگست کی 18 تاریخ کو آیندہ انتخابات کی تاریخ دے دی جائے گی اور اسی سال 8 اکتوبر کو انتخابات ہو جائیں گے۔ پیشین گوئیوں کی اس دوڑ میں طلعت حسین نسبتاً مختلف ہیں۔
وہ انتخابات کی بات نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ انتخابات ہونے چاہئیں لیکن یہ حکومت انتخابات کی طرف جانے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ وہ انتخابات کی طرف تب آئے گی جب اسے مجبور کر دیا جائے گا۔ اس رائے تک پہنچتے پہنچتے وہ اپنے مزاج کے برعکس کافی تلخ ہو جاتے ہیں۔ اس کا سبب سلمان شہباز سے ان کی تازہ تکرار رہی ہو یا کچھ اور، یہ ہم نہیں جانتے لیکن ان کے تجزیے پر توجہ دی جائے تو ان کی پیشین گوئی کا پہلا حصہ زیادہ قرین حقیقت محسوس ہوتا ہے یعنی عمومی خیال کے برعکس فوری طور پر انتخابات نہیں ہونے جا رہے بلکہ یہ اپنے وقت پر ہوں گے یا اس سے کسی قدر قبل۔
ضمنی انتخابات کے نتائج اور چوہدری پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ بن جانے پر رہوار خیال رک جائے تو یہ الگ بات ہے لیکن ان دو واقعات کے بعد بہت کچھ ایسا ہو گیا ہے جس نے سیاست کا تقریباً منظر نامہ ہی بدل ڈالا ہے۔ منظر کو بدلنے میں پہلا اور جوہری واقعہ عدالتی محاذ پر اس وقت رونما ہوا جب جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف سے اپنی مرضی کے جج مقرر کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی۔ واقعات ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں۔ یہ واقعہ بھی تنہائی میں نہیں ہوا۔ اس پسپائی کے پہلو بہ پہلو حکمراں اتحاد بھی متحرک ہے۔
اس نے عدالتی تقرریوں کا معاملہ آئین کی روح کے مطابق طے کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم میں طے کر دیا گیا تھا کہ ججوں کا تقرر دنیا بھر کے جمہوری طریقے کے مطابق پارلیمنٹ کے ذریعے ہوگا۔ اس موقعے پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اعتراض کیا اور دھمکی دی کہ اگر ججوں کے تقرر کا اختیار پارلیمنٹ کو منتقل کیا گیا تو وہ پورے آئین پر نظر ثانی شروع کر دیں گے۔ جسٹس افتخار اس وقت مقبولیت کے گھوڑے پر سوار تھے۔ یوں کئی نئے پنڈورا باکس کھلنے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ اس لیے ججوں کے تقرر کے سلسلے میں انیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کا اختیار سلب کر لیا گیا۔
یہ اختیار سلب ضرور ہوا لیکن جمہوری قوتوں نے اپنی رائے اور ارادہ تبدیل نہیں کیا۔ یہی سبب تھا کہ دو برس قبل میاں نواز شریف نے پی ڈی ایم کے جلسوں سے خطاب شروع کیا تو انھوں نے جمہوریت کے اس نامکمل ایجنڈے کو بھی مکمل کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ اب موجودہ حکومت نے اس پر کام شروع کر دیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے قومی اسمبلی کے خطاب پر اگرچہ بعض حلقوں نے تنقید کی ہے لیکن وہ اس اعتبار سے تاریخی اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں اسی نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کا اعلان کیا گیا۔ اس معاملے پر پارلیمانی کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ آیندہ چند ہفتوں میں اس پر پیش رفت دیکھنے کو ملے گی جس کے نتیجے میں حکومت اور ریاستی اداروں کے درمیان جو کیفیات پیدا ہوں گی، وہ جلد الیکشن کی طرف اشارہ نہیں کرتیں۔
حکمراں اتحاد نے الیکشن کمیشن پر بھی دباؤ بڑھا دیا ہے کہ وہ فارن یا ممنوعہ فنڈنگ کیس کے محفوظ فیصلہ جلد سنائے۔ الیکشن کمیشن پر اب تک صرف پی ٹی آئی اور عمران خان کا دباؤ تھا۔ حکمراں اتحاد کا دباؤ ظاہر کرتا ہے کہ اس نے معاملات کو انجام تک پہنچانے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ بھی ایک طویل لڑائی ہے۔ یہ لڑائی اگست یا اکتوبر تک رہنے والی حکومت نہیں لڑ سکتی۔
پی ٹی آئی کے گیارہ اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری آنے والے دنوں میں کئی انتخابی معرکوں کی نوید دیتی ہے۔ یہ انتخابی معرکے اب نہ کسی ایک صوبے میں ہوں گے اور نہ صرف دو جماعتوں کے درمیان ہوں گے۔ اس کشمکش کا دائرہ بھی وسیع ہونے والا ہے۔
شہباز شریف کو ہومیو پیتھک انقلابی قرار دینے والے ایسا کہتے رہیں لیکن ایک طویل فیصلہ کن لڑائی اور دیرپا اثرات رکھنے والے فیصلوں کی بنیاد ان کے دور میں رکھی گئی ہے۔ مکرر عرض ہے کہ اس ماحول میں آیندہ چند ماہ کے دوران میں انتخابات کا امکان کم سے کم ہو گیا ہے۔ اس تذکرے میں عرفان صدیقی صاحب کے مجموعہ کلام پر بات درمیان میں رہ گئی لیکن یہ بھی اچھا ہی ہوا۔ یہ شاعری ایسی نہیں ہے جس پر روا روی میں بات کی جائے۔