معیشت کی بحالی اہم مسئلہ
آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے پاکستان نے سخت شرائط پر اتفاق کیا
پاکستان میں معیشت کی بحالی اہم ترین مسئلہ بن چکی ہے، آئی ایم ایف کے بورڈ کا اجلاس اگست کے تیسرے ہفتے میں ہوگا اور مقامی کرنسی پر دباؤ کی وجہ سے یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کا سامنا کر سکتا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے پاکستان نے سخت شرائط پر اتفاق کیا، پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کی، بجلی گیس کے ٹیرف اور ٹیکسوں میں اضافے کیے۔
ان اقدامات نے عام آدمی کو بری طرح متاثر کیا ہے لیکن آئی ایم ایف کی جانب سے فنڈز کے اجرا میں تاخیر نے مالی اداروں کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے، روپے کی قدر تاریخ کی نچلی سطح پر جا پہنچی ہیں اور ایک ڈالر240 روپے کا ہو چکا ہے۔
فہمیدہ حلقوں کی رائے کے مطابق معیشت پر سیاست نہیں ہونی چاہیے بلکہ تمام جماعتوں کے درمیان میثاق معیشت کی ضرورت ہے، لیکن ملک میں کئی ماہ سے جاری سیاسی عدم استحکام نے ملکی معیشت کو مزید کمزور کیا ہے۔ چند روز قبل وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ملکی معیشت پر میڈیا بریفنگ میں بتایا تھا کہ پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضے 129ارب ڈالر ہیں اور 2022-23 میں ان قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے 35 ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت ہے جس میں دسمبر 2022 میں ایک ارب ڈالر کے حکومتی ڈالر بانڈز کی ادائیگی بھی شامل ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول پر رواں ماہ کے اوائل میں معاہدہ کیا تھا لیکن فنڈز کے اجرا میں تاخیر کی وجہ سے ملکی معیشت کو نقصان ہو رہا ہے، جب کہ سیاسی بحران بھی بڑھ رہا ہے۔
عمران خان نے مخالفین کو ٹف ٹائم دینے کی خواہش میں ملک میں موجود سیاسی کشیدگی اور عدم استحکام کو بہت بڑھا دیا۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے موجودہ حکومت بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ پاکستان کو اس وقت معاشی بحران کا سامنا ہے، ذرائع آمدن محدود اور اخراجات میں اضافے کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ ایسے میں اگر پاکستان پر کوئی مشکل آتی ہے تو اس سے صرف حکومت نہیں بلکہ عوام بھی شدید متاثر ہوں گے۔ یہ مشکلات کتنی خطرناک ہوسکتی ہیں یہ جاننے کے لیے صرف سری لنکا کی مثال کافی ہے جہاں معیشت دیوالیہ ہونے کے بعد ہر چیز کی قیمت اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہوچکی ہے۔
یہ بات سب کے علم میں ہے کہ ہماری مجموعی صنعتی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے، برآمدات کے مقابلے میں درآمدات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اسمگلنگ میں اضافے کی وجہ سے ہماری اپنی صنعتیں دباؤ کا شکار ہیں۔ توانائی کے بحران اور توانائی کی قیمتوں میں آئے روز ہونے والے اضافے اور ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے ہمارے پیداواری اخراجات ریکارڈ حد تک بڑھ چکے ہیں جس کی وجہ سے ہم اب عالمی منڈیوں میں مقابلے کے قابل ہی نہیں رہے ہیں۔
پاکستان غیر ملکی مصنوعات کی منڈی بن چکا ہے سابقہ حکومت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے 1.24کھرب روپے کا مالی بحالی پیکیج دے کر معیشت کو مثبت سمت پر گامزن کر دیا تھا۔ شاید اْن کے دل فریب دعوؤں کا کمال تھا کہ اسٹاک ایکسچینج کے گراف نیچے گر گئے تھے اور ڈالر اْڑان بھرنے لگا، بجٹ خسارہ بھی بڑھنے لگا توانائی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تیزی سے بڑھنے لگیں اور ملک میں مہنگائی کے سونامی نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا اور حقیقتاً ملکی معیشت غیر ملکی قرضوں کے سہارے ہی سِسک سِسک کر چل رہی تھی۔
معیشت کا ہر شعبہ زوال پذیر تھا لیکن تحریک انصاف کے حکمران اصلاح احوال کے بجائے ہر خرابی اور تباہی کی ذمے داری سابقہ حکومتوں پر ڈال کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے میں لگے ہوئے تھے اور پھر چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ آخری بال تک کھیلنے کا دعویٰ کرنے والے ''پچ خراب کر کے اور وکٹیں اکھاڑ'' کر چل دیے۔
افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ سابقہ حکومت کے 44 ماہ کے دوران زراعت سمیت پیداواری شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا اور اہم برآمدی شعبہ ٹیکسٹائل کپاس کی پیداوار میں تقریباً 60 فیصد کمی ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ ہمیں اپنی کپاس کی ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر کے اسے درآمد کرنا پڑا جس سے ہماری معیشت مزید دباؤ میں آگئی دوسرے گندم اور چینی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ان کی درآمد پر بھی بھاری زرمبادلہ خرچ کرنا پڑا۔ پاکستان میں حکومت کے ساتھ ساتھ عوام بھی کوشش کرنا شروع کریں تو اپنے ملک کو مشکل صورتحال سے بچا سکتے ہیں۔
پاکستان کو پیٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ پر سالانہ 17 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے لیکن ہم تھوڑی سی کوشش سے گاڑی کا استعمال کم کر کے حکومت کو سالانہ 300 ڈالر تک یعنی گاڑی استعمال کرنے والا ہر شہری تقریباً 60 ہزار روپے کا فائدہ پہنچا سکتا ہے جس سے ہمارا امپورٹ بل کم ہوگا اور پاکستان کو ادائیگی کے لیے درپیش مشکلات میں بھی کمی ہوگی۔ پاکستان میں مہنگے موبائل فونز رکھنا ایک فیشن بن چکا ہے اور لوگ نئے نئے ماڈلز کے موبائل فونز خریدنا پسند کرتے ہیں۔
بیرون ممالک سے موبائل فونز امپورٹ کرنا بھی پاکستان کی معیشت پر بہت بھاری پڑتا ہے۔ ملک میں گزشتہ سال تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کے موبائل فونز درآمد کیے گئے۔ عوام مہنگے فونز کی خریداری کا سلسلہ کچھ عرصہ کے لیے روک کر پاکستان کو بھاری بلز کی ادائیگی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ایک طرف کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں کنٹرول سے باہر جارہی ہیں تو دوسری طرف پٹرول کی قیمت بھی قابو میں آنا مشکل ہے ایسے میں ملک میں مہنگی گاڑیاں منگوانا کسی بھی طرح دانشمندانہ اقدام نہیں ہوسکتا۔ پاکستان نے گزشتہ سال ڈھائی ارب ڈالر سے زائد کی گاڑیاں امپورٹ کیں، اگر پاکستانی عوام بحران کے دوران غیر ضروری گاڑیاں منگوانا بند کر دیں تو ملک پر معاشی دباؤ کم ہوسکتا ہے۔
پاکستانی عوام چائے کے بہت زیادہ شوقین ہیں اور یہاں چائے کے بغیر ہر محفل ادھوری سمجھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان پوری دنیا میں چائے کی پتی درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے اور پاکستانیوں کے چائے کے اس شوق کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو سالانہ تقریباً 600 ملین ڈالر تک خرچ کرنا پڑتے ہیں لیکن اگر عوام چائے کا استعمال کم کر دیتے ہیں تو پاکستان کا درد سر کم ہوسکتا ہے۔
ہمارے ملک میں اور کچھ ہو یا نہ ہو دکھاؤے کے لیے برانڈڈ اشیا کا استعمال ضرور کیا جاتا ہے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ان اشیاء کے لیے حکومت کو بھاری زرمبادلہ بیرون ممالک کو ادا کرنا پڑتا ہے جس کے اثرات ہماری روزمرہ زندگیوں پر بھی ہوتے ہیں، اگر ہم برانڈڈ اشیاء کے بجائے نسبتاً سستی اور مقامی اشیا کو ترجیح دیں تو ہماری معاشی مشکلات کافی حد تک کم ہوسکتی ہیں۔
پاکستان میں خوردنی تیل بھی پٹرول کی طرح معیشت پر بہت بھاری پڑتا ہے، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ملکی ضرورت کا صرف 10 فیصد مقامی جب کہ 90 فیصد خوردنی تیل بیرون ممالک سے امپورٹ کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے حکومت کو تقریباً 4ارب ڈالر تک ادا کرنا پڑتے ہیں، لیکن مہنگے اور امپورٹڈ تیل کا استعمال کم کرکے ڈالرز کو ملک سے باہر جانے سے روکا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے لیے بھی تیل اور گیس کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان تیل اور گیس دونوں چیزوں کے لیے خود کفیل نہیں ہے بلکہ تیل اور گیس در آمد کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارا امپورٹ بل بہت بڑھ جاتا ہے لیکن اگر عوام بتدریج بجلی کا استعمال کم کرکے سولر سسٹم کی طرف جاتے ہیں تو بجلی کی پیداوار کے لیے تیل اور گیس کا استعمال کم ہوسکتا ہے جو معیشت کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا۔ ہمارے ملک میں چیزوں کا ضیاع بہت زیادہ عام ہے۔
جہاں کسی کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں وہیں کچھ لوگ آدھا کھانا کھاکر باقی ضایع کردیتے ہیں ، اگر ہم اسراف کی یہ عادت تبدیل کر لیں تو ہمیں اپنے بجٹ کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے اور اشیا کی طلب میں بھی بہتری آسکتی ہے کیونکہ جب آپ ضرورت سے زیادہ کوئی چیز خرید کر ذخیرہ کرلیتے ہیں تو مارکیٹ میں اس کی کھپت بڑھ جاتی ہے اور اس کا خمیازہ قیمتوں میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔
پاکستان میں معاشی بحران کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر کم سے کم ہوتے جارہے ہیں ایسے میں اگر شہری بڑی تعداد میں بیرون ممالک کا سفر کرتے ہیں تو اس کے لیے بھی ڈالرز میں ادائیگی کرنا پڑتی ہے جس سے ملک کو مزید معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے لیکن اگر سفر ناگزیر نہیں ہے تو کچھ وقت کے لیے ہم اپنا ارادہ ملتوی کرکے ملک کو مشکل سے بچاسکتے ہیں۔ خصوصاً سیر و تفریح کے لیے جانے والے باہر سے زیادہ پاکستان میں سیر و تفریح کو ترجیح دیں تو اس سے نا صرف ملک میں سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ ڈالرز کو بیرون ملک جانے سے روکا سکتا ہے۔
اس وقت پوری دنیا آن لائن کام کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اور بھارت آن لائن خدمات کی فراہمی کے عوض کروڑوں ڈالرز کما رہا ہے جب کہ ہمارے نوجوان بھی درست رہنمائی نہ ہونے کے باوجود ہزاروں ڈالرز کما رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کو ڈالرز کی بہت زیادہ ضرورت ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ ڈالرز پاکستان کے سسٹم میں شامل ہوں اور ہمارا ملک معاشی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرسکے یہ ملک ہمارا ہے، اسے ہم نے بچانا ہے۔