فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ
8سال بعدچیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا
تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس 2014میں شروع ہوا، ممنوعہ ذرایع سے فنڈز حاصل کرنے کا یہ کیس الیکشن کمیشن میں کسی مخالف سیاسی جماعت نے نہیں بلکہ تحریک انصاف کے اپنے بانی اراکین میں سے ایک اکبر ایس بابر لے کر آئے ۔
اکبر ایس بابر نے الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف نے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکیوں سے بھی فنڈز حاصل کیے، جس کی پاکستانی قانون اجازت نہیں دیتا۔اُنھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے بھی ممنوعہ ذرایع سے پارٹی کو فنڈز ملے اور یہ رقم پاکستان تحریک انصاف میں کام کرنے والے کارکنوں کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی جب کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بھی ہنڈی کے ذریعے پارٹی کے فنڈ میں رقم بھجوائی گئی۔
جب اکبر ایس بابر کی طرف سے یہ درخواست الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی تو اس پر کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے یہ معاملہ مختلف اوقات میں چھ مرتبہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں لے جایا گیا اور یہ مؤقف اپنایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی جماعت کے اکاونٹس کی جانچ پڑتال کا اختیار نہیں۔ ایک مرتبہ حکم امتناع(اسٹے آرڈر) ملنے کے بعد جب عدالت عالیہ نے مزید حکم امتناع دینے سے انکار کیا تو پھر اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی سکروٹنی کمیٹی کے دائرہ اختیار اور مبینہ طور پر اسے کام کرنے سے روکنے کے لیے بھی حکم امتناع حاصل کیے گئے۔
پھر سپریم کورٹ نے ایک درخواست نمٹاتے ہوئے 2016 میں فیصلہ دیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگز کی تحقیقات کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو 2009 سے 2013 کے دوران اس جماعت کو جتنے بھی فنڈز ملے، اس کی جانچ پڑتال کا حکم دیا تھا۔ 2014 سے لے کر 2018 تک یہ معاملہ مختلف عدالتی فورمز پر زیر بحث رہا ہے۔جس کی کبھی تحریک انصاف تردید کرتی رہی تو کبھی سب کچھ ایجنٹس پر ڈالتی رہی۔
گزشتہ روز 8سال بعدچیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔اس فیصلے کے چیدہ چیدہ نکات کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف نے ممنوعہ فنڈز لیے ہیں۔ پی ٹی آئی نے جانتے بوجھتے عارف نقوی سے فنڈز وصول کیے۔فنڈ ریزنگ میں 34 غیر ملکی ڈونیشنز لی گئیں۔امریکا، آسٹریلیا، متحدہ عرب امارات سے عطیات لیے گئے۔
تحریکِ انصاف نے امریکی کاروباری شخصیت سے بھی فنڈز لیے۔ پی ٹی آئی کے مجموعی طور پر 16 بے نامی اکاؤنٹس نکلے۔پی ٹی آئی کی لگ بھگ ایک ارب روپے کی فنڈنگ کے ذرایع معلوم نہیں۔ اکاؤنٹ چھپانا آئین کی خلاف ورزی ہے۔پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے فارم ون جمع کرایا جو غلط تھا۔پارٹی اکاؤنٹس سے متعلق دیا گیا بیانِ حلفی جھوٹا ہے۔سیا سی جماعتوں کے ایکٹ کے آرٹیکل 6 سے متعلق ممنوعہ فنڈنگ ہے۔
بہرحال یہ فیصلہ یقینا پاکستان کی سیاست میں بھونچال پیدا کرے گا، کیوں کہ یہ فیصلہ کسی اور کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کی سب سے بڑی اور دو صوبوں پر حکمرانی کرنے والی سیاسی جماعت اور اس کے چیئرمین کے خلاف آیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والی قوتیں آخر چاہتی کیا ہیں؟ کیا اب اُن کا ٹارگٹ تحریک انصاف ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کا فائدہ نہیں ہوگا، ویسے فارن فنڈنگ کے معاملات میں تو کوئی ایک جماعت بھی سرخرو نہیں ہو سکتی ۔ الیکشن کمیشن کے پاس بقیہ تین جماعتوں ن لیگ، پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام جیسی جماعتوں کے خلاف بھی درخواستیں زیر التواء ہیں۔
مسلم لیگ نواز کے اثاثوں کی چھان بین اور مبینہ طور پر ممنوعہ ذرایع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ پی ٹی آئی 2017 میں الیکشن کمیشن میں لے کر آئی۔ الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ نواز سے بھی فنڈز کی تفصیلات طلب کر رکھی ہیں۔پیپلز پارٹی کے فنڈز کی جانچ پڑتال کرنے کا معاملہ بھی 2017 میں الیکشن کمیشن میں آیا۔ پھر تیسری جماعت جمعیت علمائے اسلام ف پر بھی اسی قسم کا الزام ہے۔ بہرکیف الیکشن کمیشن کا موجودہ فیصلہ تحریک انصاف پر کتنا اثر ڈالے گا، اس کا پتہ مستقبل میں چل جائے گا۔