الیکشن کمیشن کا فیصلہ
اگر تحریک انصاف کے مطابق یہ فیصلہ ان کے حق میں ہے تو انھیں الیکشن کمیشن کے خلاف مخالفانہ مہم ختم کر دینی چاہیے
الیکشن کمیشن کے فیصلے کی مختلف توجیحات سامنے آرہی ہیں۔ تحریک انصاف اسے اپنی فتح قرار دے رہی ہے جب کہ مخالفین اس کو اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔
اگر تحریک انصاف کے مطابق یہ فیصلہ ان کے حق میں ہے تو انھیں الیکشن کمیشن کے خلاف مخالفانہ مہم ختم کر دینی چاہیے، لیکن شاید ایسا نہیں ہوگا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر لیڈران الیکشن کمیشن کی مخالفت نہ صرف جاری رکھیں گے بلکہ اس کی شدت میں اضافہ کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔
عمران خان کو بخوبی اندازہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد انھیں پاکستان کی سیاست سے مائنس کرنے کے اسکرپٹ پر عملی طور پر کام شروع ہو گیا ہے۔ اگر عمران خان کا بیان حلفی الیکشن کمیشن میں جھوٹا ثابت ہو گیا ہے۔ تو یہ کم خطرے والی بات نہیں ہے۔
یہ ممکن ہے کہ انھیں جوشوکاز جاری کیا گیا ہے، اس کا بھی کئی سال فیصلہ نہ ہو۔ کبھی کسی عدالت اور کبھی کسی عدالت سے اسٹے آرڈر دے دیا جائے اور اس طرح وقت گزرتا جائے۔ جیسے ممنوعہ فنڈنگ کا یہ کیس آٹھ سال چل گیا، ویسے ہی شوکاز کا کیس بھی کئی سال چل جائے۔ لیکن اس کے لیے عمران خان کو سیاست بدلنا ہوگی۔ جس قسم کی سیاست وہ اس وقت کر رہے ہیں،اس میں ایسا ریلیف ملنا مشکل ہو جائے گا۔
میاں نواز شریف کی نا اہلی کے وقت میں نے لکھا تھا کہ یہ ایسا کھیل شروع ہوا ہے جس میں لڑتے لڑتے ہو جائے گی گم ایک کی چونچ اور ایک کی دم۔ نواز شریف کی نا اہلی پر تالیاں بجانے والے آج خود اسی مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دشمن مرے تے خوشی نہ کریے ، سجناں وی مرجانا ۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کی نا اہلی کے بعد کیا ہوگا؟ میری رائے میں کچھ بھی نہیں ہوگا۔ وہ پاکستان کے پہلے سیاستدان نہیں ہوںگے جو اس انجام سے دور چار ہوں گے ، سیاستدانوں کے ساتھ یہ کھیل عرصہ سے کھیلا جا رہا ہے۔
عمران خان کو اس نااہلی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ ان کے پاس کوئی سیاسی وارث نہیںہے۔ تحریک انصاف موجود ہے۔ تحریک انصاف میں عمران خان کے بعد قیادت کی ایک لمبی لائن ہے۔ شاہ محمود قریشی، اسد عمر، پرویز خٹک سے لے کر سب ہی عمران خان کے وارث ہیں۔ سب ہی نمبر ٹو کے دعویدار ہیں لیکن آج تک عمران خان نے کسی کو باقاعدہ اپنا نمبر ٹو نامزد نہیں کیا ہے اور نہ ہی یہ تاثر پیدا ہونے دیا کہ ان کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کون کرے گا۔
عمران اور پی ٹی آئی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ لیکن کیا نا اہلی کے بعد ان کے لیے ممکن ہوگا، کہ سب ان پر تو متفق ہیں لیکن ان کے بعد کس پر سب متفق ہوں گے۔ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ نواز شریف کے پاس بھائی بیٹی کی صورت میں سیاسی وراثت موجود ہے۔ بے نظیر کی سیاسی وراثت بھی موجود تھی۔ بھٹو کی سیاسی وراثت بھی موجود تھی لیکن عمران خان جب تک خود کسی کو اپنا سیاسی وارث نامزد نہیں کرتے کھیل اسی طرح چلے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ کیا عمران خان نا اہل ہوںگے؟ میں سمجھتا ہوں ہوںگے؟ عمران خان کو مائنس کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ وہ خود ہی کھیل کو اس نہج تک لے گئے ہیں جہاں اب ان کی سیاست میںموجودگی قابل قبول نہیں رہی ہے۔ یہ وہی اسٹیج ہے جہاں نواز شریف پہنچ گئے تھے۔ جہاں بے نظیر پہنچ گئی تھیں۔ عمران خان نے نواز شریف کی نا اہلی سے خوب فائدہ اٹھایا ہے، اس لیے اب ان کے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہوگا، سیاسی تنہائی ان کے لیے مزید مسائل پیدا کرے گی۔
عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ بلاشبہ عوام کی عدالت قانون کی عدالت سے بڑی ہے، لیکن عوام کی عدالت قانون کی عدالت کا فیصلہ نہیں بدل سکتی ۔ نواز شریف بھی قانون کی عدالت سے نااہلی کے بعد عوام کی عدالت میں گئے،عوام نے انھیں مقبولیت دی لیکن عوام کی عدالت قانون کی عدالت کے فیصلوں کو ختم نہیں کر سکی۔ عوام کی عدالت سے اتنا مینڈیٹ نہیں ملتا کہ قانون کی عدالت کے فیصلوں کو ختم کیا جا سکے۔ کیا عمران خان دو تہائی اکثریت سے جیت کر اپنے خلاف فیصلوں کو ختم کر لیں گے؟ عملی طورپر مشکل نظر آتا ہے۔
دوستوں کی رائے ہے کہ عمران خان کو سپریم کورٹ سے فوری ریلیف مل جائے گا۔ مخصوص بنچ کی بہت بات کی جا رہی ہے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا یہ ممکن ہوگا۔ کھیل فل کورٹ کی طرف ہی جائے گا۔ جیوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جو کچھ ہوا ہے، اس لیے مجھے الیکشن کمیشن کو کام سے روکنے کا اسٹے آرڈرممکن نظر نہیں آتا۔ عمران خان کو اندازہ ہے کہ انھوں نے جہانگیر ترین کے ساتھ ہی نا اہل ہوجانا تھا لیکن اس وقت وہ اسٹبلشمنٹ کے لاڈلے تھے۔ اس لیے ان کو بچا لیا گیا۔ لیکن کیا اب دوبارہ بھی بچا لیا جائے گا، مشکل نظر آتا ہے۔ اگر بچانا ہوتا تو کھیل یہاں تک پہنچتا ہی نہیں۔
الیکشن کمیشن ساری جماعتوں کے کیس اکٹھے سننا شروع کر دیتا۔ اس لیے عمران خان کھیل کو جانتے بھی ہیں اور انھوں نے اپنے مخالفین کے ساتھ یہ کھیل کھیلا بھی ہے۔ انھیں پتہ ہے اب ان کی باری ہے۔ وہ جو دباؤ ڈالنا چاہ رہے تھے، وہ نہیں ہوا۔جنرل الیکشن نہیں ہوئے، ان کی بچت صرف اور صرف قبل از وقت انتخابات میں ہی تھی جو نہیں ہو رہے۔