عمران خان کے آپشن

الیکشن کمیشن کے فیصلے نے حکومت کو سیاسی طور پر کافی مستحکم کیا ہے


مزمل سہروردی August 05, 2022
[email protected]

کراچی: سوال یہ ہے کہ کیا حکومت عمران خان کے گرد گھیرا تنگ کر سکے گی؟ کیا عمران خان کے خلاف ریفرنس دائر ہو سکے گا؟ کیا پھر حکومت اور سپریم کورٹ بینچ پر تنازعہ نہیں کھڑا ہو جائے گا؟ عمران خان کا ای سی ایل میں نام ڈالنے کا فائدہ ہے یا نقصان۔ پی ٹی آئی کا چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس کا کیا بنے گا؟ کیا تحریک انصاف پر پابندی لگے گی؟ کیا عمران خان نا اہل ہو جائیں گے؟ کیا عمران خان اب حکومت پر مزید چڑھائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے؟ ایسے کئی سوالات پاکستان کے سیاسی منظر نامہ پر آج بھی موجود ہیں اور ایک عام پاکستانی اپنی عقل و فہم اور علم کے مطابق ان کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے۔

جہاں تک سوال ہے کہ کیا حکومت عمران خان کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں کامیاب ہوگی؟ میں سمجھتا ہوں الیکشن کمیشن کے فیصلے نے حکومت کو سیاسی طور پر کافی مستحکم کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف نے سوشل میڈیا پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف ایک مہم چلائی ہے، جس میں اس فیصلے کو غلط قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ ایسے معاملات میں سوشل میڈیا کا اثر بہت کم ہوتا ہے۔ دوسری طرف سے حکومت نے بھی بھرپور چڑھائی کی ہے، اس لیے تحریک انصاف مشکل میں ضرور نظر آرہی ہے۔

یہی مشکل عمران خان کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں مد دے رہی ہے۔ عمران خان کو علم ہے کہ جیسے جیسے معاملات آگے بڑھیں گے، ان کو مشکلات میں پھنسایا جائے گا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ نا اہلی ہو جائے گی لیکن قانونی معاملا ت اس قدر پیچیدہ ہو جائیں گے کہ عمران خان ان میں پھنس جائیں گے۔ ہم نے ماضی میں بھی سیاسی قیادت کو قانونی معاملات میں پھنستے ہوئے دیکھا ہے۔ جس کا ان کی سیاست پر گہر ا اثر ہوتے بھی دیکھا گیا ہے۔ اس لیے قانونی معاملات پیچیدہ ہونے کے بعد عمران خان کی سیاست کیا ہوگی، یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ ابھی تک ہم نے عمران خان کو کسی بھی قسم کے قانونی معاملات میں پھنسے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ یہ پہلی دفعہ ہوگا کہ ان کو مدد بھی حاصل نہیں ہوگی اور معاملات بھی سنجیدہ ہوںگے۔

جہاں تک نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بات ہے۔ یہ ایک نفسیاتی حربہ ہے۔ ویسے تو عمران خان کی بیگم بشریٰ بیگم کے بھی بیرون ملک جانے کی غیرمصدقہ باتیں چل رہی ہیں۔ شہزاد اکبر تو بیرون ملک جا چکے ہیں۔ احسن جمیل گجر اور ان کی اہلیہ فرح گوگی بھی بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ اس لیے اب تک جس جس کے خلاف بھی کوئی کیس سامنے آیا ہے وہ بیرون ملک چلا گیا ہے۔

اس لیے کیا عمران خان جائیں گے کہ نہیں، یہ ایک مشکل سوال ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جب بھی پاکستان میں کسی سیاستدان یا کسی اور شخصیت کے خلاف قانونی معاملات پیچیدہ ہوئے ہیں، بیرون ملک جانا ہی ایک واحد حل نظر آیا ہے۔ کیا عمران خان ایسا نہیں کریں گے؟ مجھے لگتا ہے کہ جب بات جیل جانے تک آئے گی تو عمران خان بھی بیرون ملک جانے کا آپشن استعمال کر سکتے ہیں، اس لیے اس کارڈ کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنا ایک سیاسی حکمت عملی ہوگی۔ عمران خان بھی اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف یہ کارڈ استعمال کرتے رہے ہیں، اس لیے یہ ایک نفسیاتی کارڈ ہے۔

جہاں تک عمران خان کے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفر نس کا سوال ہے تو عمران خان کے پاس ایسی کوئی ٹھوس قانونی وجہ نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ ریفرنس کامیاب ہو سکے۔ صرف خلاف فیصلہ ریفرنس کی کامیابی کی کوئی قانونی وجہ نہیں ہے۔ سپریم جیوڈیشل کونسل نے سوشل میڈیا کے ٹرینڈز کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا ہے۔ وہاں ٹویٹس اور ٹک ٹاک پر فیصلہ نہیں ہونا ہے۔ عمران خان کے پاس ابھی تک کوئی ایسا ثبوت نہیں ہے جو مس کنڈکٹ کو ظاہر کرے۔ سیاسی جلسوں میں الزام تراشی اور بات ہے، لیکن سپریم جیوڈیشل کونسل میں ثبوت پیش کرنا اور بات ہے۔

آپ دیکھ لیں ماضی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ اس لیے میرے خیال میں اس ریفرنس کے کامیاب ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ عمران خان کو صرف ایک فائدہ ہو سکتا ہے کہ وہ ریفرنس فائل کرنے کے بعد یہ کہہ سکیں گے کہ ہم نے ریفرنس فائل کیا ہے، اس لیے چیف الیکشن کمشنر خود کو ہمارے خلاف معاملات سے علیحدہ کر لیں، اس سے زیادہ کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا ہے۔ لیکن یہ بھی بہت بڑا فائدہ ہوگا اگر حاصل ہوجائے، جس کے بھی امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔

کیا عمران خان الیکشن کمیشن کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد اسلام آباد پر چڑھائی کریں گے؟ کیا وہ پنجاب حکومت کو اسلام آباد پر چڑھائی اور ملک کو فوری قبل ازوقت عام انتخابات کے لیے استعمال کریں گے؟ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ اور دیگر قانونی پیچیدگیاں عمران خان کو روک سکیں گی؟ وہ جارحانہ سیاست سے پیچھے ہٹ جائیں گے؟ اس لیے عمران خان کا اب بڑا امتحان شروع ہو گیا ہے۔ اب انھیں علم ہوگا کہ ان کے ہر قدم کی ایک قیمت ہے اور ماضی میں انھیں جو کھلی آزادی حا صل تھی وہ اب نہیں ہے۔ عمران خان کو یہ بھی علم ہے کہ انھوں نے سیاست میں جو گرمی اور جوش پیدا کیا ہوا ہے وہ لمبا عرصہ قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ اس لیے جو بھی کرنا ہے جلدی کرنا ہے۔ دیر ان کے لیے نقصان دہ ہے۔ ان کا بیانیہ لمبے عرصہ تک کھڑا نہیں ہو سکتا۔

مجھے نہیں لگتا کہ کھیل تحریک انصاف پر پابندی کی طرف جا ئے گا۔ البتہ عمران خان کے لیے مشکلات بن سکتی ہیں۔ وہ کھیل کو سرٹیفکیٹ اور بیان حلفی کے درمیان پھنسانا چاہتے ہیں، لیکن شاید یہ مشکل ہوگا۔ پھر ان کے ساتھ ساتھی بھی مشکل میں ہیں جن کے بارے میں انھوں نے خود لکھ کر دیا ہے کہ انھوں نے تحریک انصاف کے اکاؤنٹس بغیر اجازت کے کھولے۔ ان میں اسد قیصر، میاں محمود الرشید، عمران اسماعیل جیسے قریبی ساتھی شامل ہیں۔

کیا یہ پہلے نا اہل ہوںگے تا کہ عمران خان کو باور کرایا جا سکے کہ اب ان کی باری ہے۔ ان کی نا اہلی بھی عمران خان کو کمزور کرے گی۔ یہ وہ ماحول نہیں کہ جہانگیر ترین کی نا اہلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لوگوں کو اندازہ ہے کہ نا اہلی کے بعد آپ کی سیاسی حیثیت ختم ہو جاتی ہے اور عمران خان نے ثابت بھی کیا ہے کہ وہ بعد میں کوئی خاص خیال نہیں کرتے۔ اس لیے لوگ سیاسی قربانی دینے کے لیے تیار ہوںگے کہ نہیں۔ یہ وقت ہی بتائے گا۔ لیکن میری رائے میں لوگ خود کو محفوظ کرنے کے لیے عمران خان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ جہانگیر ترین لوگوں کے لیے ایک مثال ہیں کہ عمران خان بعد میں کسی کاکوئی خیال نہیں رکھتے۔ اس لیے صورتحال مختلف بھی ہو سکتی ہے۔ ابھی تک تو انھیں الیکشن کمیشن نے بلایا ہی نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔