میرا پاکستان
شعلہ بیاں، محب وطن، ہمدرد، سچے اورکھرے یہ خصوصیات اگر کسی عظیم لیڈر میں گنوائی جائیں تو شناخت بنتی ہے
شعلہ بیاں، محب وطن، ہمدرد، سچے اورکھرے یہ خصوصیات اگر کسی عظیم لیڈر میں گنوائی جائیں تو شناخت بنتی ہے مولانا محمد علی جوہر کی جو آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ ہوکر بھی انگریزیت سے متاثر نہ ہوئے۔ امت مسلمہ پر کسی نے بھی انگلی اٹھائی ایک مصلوب ملک میں رہتے ہوئے بھی آپ اور آپ کے بھائی مولانا شوکت علی جوہر نے بھرپور احتجاج کیا اور نہ صرف برصغیر بلکہ کئی ممالک کے آقاؤں کو دکھا دیا کہ جو دل میں قوم کا درد رکھتے ہیں وہ کسی سے بھی نہیں ڈرتے، ان کی زندگی کا مقصد مسلمانوں کی خدمت اور ان کے لیے آزاد مملکت کے خواب کی تکمیل کرنا تھی۔ لندن میں گول میز کانفرنس کے چوتھے اجلاس میں جو 19 نومبر 1930 کو منعقد ہوا آپ نے ایسی تقریر کی کہ وہ لازوال بن گئی جو آپ نے کہا کر کے دکھایا۔ حالانکہ آپ سخت بیمار تھے اور آپ کے وجود میں اتنی طاقت نہ تھی کہ کھڑے ہوکر تقریر کرسکیں لہٰذا آپ نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے تقریر کی۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے اس مرد مجاہد کی تقریر کا یہ پراثر اقتباس۔۔۔
''میں اور میرے بھائی پہلے دو اشخاص تھے جنھیں لارڈ ریڈنگ نے جیل بھجوایا میں اس معاملے میں ان سے کوئی بغض نہیں رکھتا ، نہ مجھے ان سے کوئی شکایت ہے لیکن میں بھی اتنا اختیار چاہتا ہوں اتنی قوت چاہتا ہوں کہ اگر لارڈ ریڈنگ ہندوستان میں پھر کسی غلطی کے مرتکب ہوں تو انھیں جیل بھجوا سکوں۔''
''میں اپنے ملک واپس جانا چاہتا ہوں صرف اس صورت میں کہ اپنے ساتھ پروانہ آزادی لے جا سکوں۔ بصورت دیگر میں غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا۔ میں ایک ایسے دیار غیر میں اس وقت تک رہنے اور مر جانے کو ترجیح دوں گا جب تک وہ ایک آزاد ملک ہے اور اگر آپ ہندوستان میں ہمیں آزادی نہیں دے سکتے تو آپ کو یہاں مجھے ایک قبر دینی ہوگی۔''
یہ عظیم مسلم امہ سے پیار کرنے والی بے باک نڈر لیکن ایماندار شخصیت اس تقریر کے بعد زیادہ عرصے زندہ نہ رہی اور محض چند ہفتے بعد ہی آپ کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد تحریک عدم تعاون یعنی ہندو مسلم اتحاد بھی پارہ پارہ ہوگیا کیونکہ مشترکہ طور پر انگریزوں سے غلامی سے آزادی کی جو لہر اٹھی تھی اسے کانگریس کے تعصبانہ رویے نے زہر آلود کردیا صرف یہی نہیں کچھ اور تحریکیں بھی مسلمانوں کے خلاف اٹھیں مثلاً شدھی اور سنگھٹن تحریکیں جن کے مقاصد ایک سے تھے وہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی مسلمانوں کو غیر ہند باشندے قرار دیتے تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمان برصغیر سے چلے جائیں یا جو ہندو مسلمان ہوگئے ہیں وہ دوبارہ اپنا مذہب اپنالیں۔ ان تمام تحریکوں اور متعصبانہ رویوں نے واضح کردیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمان آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی غلام رہیں گے اور سچ تو یہ ہے کہ آج بھی جب انگریزوں سے آزادی حاصل کیے 66 سال گزر چکے ہیں، بھارت میں جتنے بھی مسلمان آباد ہیں انھیں وہ حقوق حاصل نہیں ہیں جس کے وہ حقدار ہیں۔ آج بھی وہ دوسرے درجے کے شہری کہلائے جاتے ہیں آج بھی چاہے ایک عام امیر مسلمان ہو یا فلمی دنیا کا چمکتا ستارہ بمبئی جیسے بڑے شہر میں اپنا گھر خریدنا ان کے لیے کس قدر دشوار ہے اکثر ہم اخبارات و رسائل میں پڑھتے ہی رہتے ہیں۔
محبت امن و آشتی، ثقافت بہت کچھ ایسا ہے جو ہم دوسروں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتے ہیں بھارت جو تقسیم سے پہلے بہت سے پاکستانیوں کے آباؤ اجداد کی جگہ بھی ہے اور آج بھی شادی بیاہ کے معاملات میں یہ پوچھا جاتا ہے کہ انڈیا میں کہاں کے رہنے والے ہیں اس سے خاندان کی قدروں کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ بہرحال یہ تو ایک اندرونی معاملہ ہے لیکن ایک نئی امن کی جوت کا سبق ہماری نئی نسل کو رٹایا جا رہا ہے کہ دونوں ممالک ایک سے ہیں ہماری زبان، اقدار، ثقافت بہت کچھ ایک سا ہے پھر یہ دونوں دور دور کیوں ہیں۔ ہمارے گھروں میں ان کے گانے، ان کے اداکار، گلوکار، ڈانسر غرض بہت کچھ اجنبی نہیں۔ یہاں تک کہ ان کی مذہبی رسومات بھی اب ہمارے لیے اجنبی نہیں رہیں سب دیکھتے ہی رہتے ہیں کسی نہ کسی طریقے سے۔۔۔ پھر کیا ہے؟ کیوں یہ دوریاں قائم ہیں؟ ہماری نئی نسل بہت حد تک ذہنی طور پر بہت کچھ قبول کر رہی ہے حالانکہ کرکٹ میچ ہو تو پاکستان اور بھارت کے درمیان کانٹے کا مقابلہ خودبخود بن جاتا ہے جوش و جذبات عجیب رنگ سے ابھرتے ہیں۔ پوری قوم متحد ہوجاتی ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں لیکن کیا بس اسی ایک لکڑی کے بیٹ اور لال یا سفید سی گول گیند کی حد تک اور اس سے آگے کیا ہے۔۔۔۔ایک سوال۔
بھارت کے سلمان خورشید کے نریندر مودی پر لگائے اعتراضات کی آج کل بڑی جے جے کار مچی ہے۔ نریندر جی بھی اب مدافعتی انداز اختیار کرچکے ہیں لیکن حقیقت پر آخر کتنا پردہ ڈالیں گے کہ پردہ اب سمٹ سمٹ کر دھجی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ مانا کہ یہ سیاست کی قلابازیوں میں سے ایک دلکش قلابازی ہے۔ لفظوں کی خوبصورت مار ہے لیکن سچائی پھر بھی بہت تلخ ہے ہم اپنے پاکستان میں اس پاک سر زمین پر اپنے بچوں سے کہتے ہیں کہ پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرو، محبت کرو، امن سے رہو لیکن دوسری جانب سے شر انگیزیوں کا سلسلہ ٹیڑھا میڑھا ہوکر اپنی شکل دکھا دیتا ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والی شہادتیں بھلائی کیسے جاسکتی ہیں۔ کیا کوئی جوان بھائی معصوم فضا ملک کے چہرے کی بشاشت بھلا سکتا ہے جس کے دل میں باہر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اپنے ملک اپنی دھرتی پر اپنے ملک اپنے لیے ابھی بہت سے کام کرنے کا جذبہ تھا۔ پر اب فضا ان ہی فضاؤں میں کہیں ہمارے کانوں میں چپکے چپکے سرگوشیاں کر رہی ہے، کاش ہم سب سن سکیں۔
ہنی سنگھ آج کل ہماری نئی نسل میں سنا جا رہا ہے یہ بھارتی گلوکار اپنی عجیب و غریب گانوں کی بدولت یا غالباً کریز ہی ہے سر پر چڑھا ہوا ہے۔ موصوف یقیناً تان سین جیسا نہیں تو ان سے خوب بہتر ہی گاتے ہوں گے جب انسان شہرت کی سیڑھیاں چڑھتا ہے تو ملک در ملک بھی سفر کرتا ہے جہاں ہر ملک میں وہ اپنے ملک کے سفیر کی حیثیت سے بھی نمایندگی کرتا ہے۔ اس کے بولنے، چلنے کے انداز ہر چیز پر لوگوں کی نظر ہوتی ہے عام طور پر کسی بھی ملک کے فنکار اور کھلاڑی اپنے ملک کے تاثر اور ملکوں کے درمیان رشتوں کو مضبوط کرتے ہیں ۔واضح کرتے ہیں ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب پاکستانی ٹینس کھلاڑی اعصام الحق کسی میچ کے اختتام پر میڈیا سے بات کرتے اپنے ملک کا دہشت گردی کے حوالے سے دفاع کرتے بے ساختہ رو پڑے تھے، لیکن نوجوان ہنی سنگھ نے جس طرح اپنی کلاکاری دکھائی اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ سفید کالر والوں کے سینوں میں اتنا بغض و عناد ہے جو وہ اپنے بچوں میں منتقل کرتے ہیں کسی پاکستانی پروموٹر نے ہنی سنگھ سے پاکستان میں کنسرٹ کرنے کی بات کی ان کے منیجر سے ڈیڑھ کروڑ میں بات طے پاگئی یہ بھی طے پایا کہ موصوف کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے کنسرٹ ہال تک پہنچایا جائے گا ، پھر موصوف نے نخرے دکھائے۔ جب پروموٹر نے گلوکار سے کہا کہ جناب! آپ کے منیجر سے تو بات طے پاگئی ہے تو انھوں نے بڑی بے اعتنائی سے کہا کہ دراصل وہ پاکستان میں کنسرٹ کرنا ہی نہیں چاہتے، اس سے پہلے کہ پروموٹر کچھ کہتے فون بند ہوچکا تھا۔۔۔؟