ذاتی ذمے داری اور قومی شعور

ماں کی ذہنی و جسمانی صحت بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ہمارے معاشرے میں گھرکی اکائی منتشر ہو رہی ہے


Shabnam Gul March 13, 2014
[email protected]

بہت سے مسائل ہماری معاشرتی زندگی کا حصہ بن گئے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو بے جا خواہش پرستی، دکھاوے اور دہرے معیار کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ یہ مسائل نہ فقط اخلاقی ترتیب کا توازن بگاڑ کے رکھ دیتے ہیں بلکہ معاشرتی زندگی کا سکون تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں۔ سکون وہ محور ہے جو قناعت کی جڑ سے پھوٹ نکلتا ہے۔ خواہش اور توقع یہ دو رویے ہیں، جو سیلابی ریلے کی طرح تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ جن پر توازن کا بند باندھنا ضروری ہے۔ انسان کی شخصیت میں اگر خواہش پرستی اور توقعات کے مابین ٹھہراؤ نہیں ملتا تو گھر سے لے کر معاشرتی زندگی ذہنی خلفشار کا شکار ہوجاتی ہے۔ لیکن ایک ہستی ایسی ہے جو زندگی کے تمام مسائل کو سنبھال لیتی ہے۔ یہ ہستی ماں ہے جو اپنے بچوں کی شخصیت کی تعمیر کرتی ہے۔ ان کی ذہنی و روحانی تربیت میں بھرپور حصہ لیتی ہے۔ ماں اگر خوش اور مطمئن ہے تو بچے بھی مثبت رویے اپنا لیتے ہیں۔ بچے کی شخصیت کی تعمیر میں گھر اہم کردار ادا کرتا ہے۔ والدین کے تعلقات و رویے بچے کی ذہنی نشوونما پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ بچے چونکہ ماں سے بہت قریب ہوتے ہیں لہٰذا ماں کی ذہنی و جسمانی صحت بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ہمارے معاشرے میں گھر کی اکائی منتشر ہو رہی ہے۔

جس میں بہت سارے عوامل کارفرما ہیں۔پیسے سے محبت اور مادیت پرستی ان عوامل میں سرفہرست ہے۔ وہ سکون جو قناعت کی جڑ سے پھوٹ نکلتا ہے وہ دھیرے دھیرے ہماری زندگی سے رخصت ہوتا رہتا ہے۔ گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے نسل در نسل بے اطمینانی محو سفر ہے۔ ایک انسان کی ذہنی ترتیب بگڑ جائے تو وہ متاثر ہونے والا فرد واحد نہیں ہوتا بلکہ اس سے وابستہ تمام تر لوگ بلاواسطہ متاثر ہوتے ہیں۔ ایک فرد کی ذہنی و جسمانی تباہی بہت سارے لوگوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ گھر کا یونٹ منتشر ہے تو پورا معاشرہ انتشار میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ عدم تحفظ پر رکھی گئی بچے کی ذہنی بنیاد اگر ناپائیدار ہے تو اس پر ایستادہ محل کسی وقت بھی زمین بوس ہوسکتا ہے۔ والدین کے آپس کے تعلقات کشیدہ ہوں۔ ازدواجی زندگی کے تنازعات، علیحدگی، بیماری و غربت کے مسائل بڑے بچوں کو ذہنی بیماریوں میں مبتلا کردیتے ہیں۔ خاص طور پر کم آمدنی والے خاندانوں میں بچوں کے ساتھ جارحانہ رویہ رکھا جاتا ہے۔ غیر مہذب الفاظ، کوسنے اور سخت قسم کی سزائیں جو ان بچوں کو راہ سے بھٹکا دیتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق وہ نوجوان نشے کے عادی ہوجاتے ہیں جن کے والدین میں ذہنی مطابقت نہیں پائی جاتی۔ ایسے افراد میں خودکشی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ نیورو کرمنالوجی کے مطابق جسمانی تشدد اور قتل کے واقعات میں ملوث لوگوں کے ذہنوں میں جرم کی ترغیب موجود ہوتی ہے۔

جس میں موروثی، ماحول اور نیوراتی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر معاشرے سے باغی لوگ ہیں جو Antisocial Personality Disorderمیں مبتلا ہوتے ہیں۔ نیوروکرمنالوجی میں ذہن کی تمام تر بیماریوں کی چھان بین کی جاتی ہے، جو جرائم کا پیش خیمہ بنتی ہیں۔ جن میں ڈپریشن، جارحیت پسندی، نرگسیت ودیگر ذہنی امراض شامل ہیں۔ بعض اوقات اذیت پسندی، ترغیب، نفرت، تعصب اور حسد سنگین جرائم کا سبب بنتے ہیں۔ سماجی و معاشرتی انتہا پسند رویے، اکسانا اور تنازعات جیسے معاملات خودکشی اور قتل پر اختتام پذیر ہوتے ہیں۔ کچھ عرصے سے ایسی خبریں آرہی ہیں جن میں لوگ خاندان کے دوسرے افراد کو قتل کرکے خودکشی کر لیتے ہیں۔ جیسے ابھی ایک ماں نے اپنے دو بچوں کو قتل کرنے کے بعد غربت کو اس کی اصلی وجہ قرار دیا ہے۔ ایسے لرزہ خیز واقعات سے معاشرے کا اصلی چہرہ سامنے آتا ہے۔ چند روز قبل واقع ہونیوالے اس حادثے کے ذمے دار والدین کی تصویر میں نے دیکھی۔ تصویر میں غربت سے متاثر والد نے قیمتی جیکٹ اور شرٹ پہن رکھی ہے۔ والدہ کے چہرے پر فقط بے حسی دکھائی دی۔ پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں ایسے واقعات ہوتے ہیں، جس میں ماں بچوں سمیت اجتماعی خودکشی کی مرتکب ہوتی ہے۔ غربت کی وجہ سے ماں خود تو زندہ رہنے کا فیصلہ کرے البتہ اپنے بچوں کی جان لے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ لیکن اس عمل کے پیچھے بھی کئی نفسیاتی عوامل کارفرما ہیں۔ نشہ کرنے والا شخص اپنی بیوی پر جسمانی تشدد بھی کرتا ہوگا۔ یہ قاتل ماںکی اذیت پسندی کی انتہا ہے کہ بچوں کے قتل کے ذریعے وہ شوہر اور اس کے گھر والوں کے سوئے ہوئے اعصاب جھنجھوڑنے کے لیے ایک غیر انسانی فعل کی مرتکب ہو۔ عورت چوں کہ حالات کا اثر زیادہ لیتی ہے لہٰذا اس پر ذہنی بیماریاں جلدی حملہ کردیتی ہیں۔

جس ماں کا بچہ چھوٹا ہو وہ اکثر Postpartum Psychosis کا شکار ہوجاتی ہے۔ اس بیماری کا اگر وقت پر علاج نہ کیا جائے تو یہ سنگین نوعیت اختیار کرلیتی ہے۔ اس پر معاشی مسائل، رشتوں کے منفی رویے اور اکسانا جلتی پر تیل کا کام دکھاتے ہیں۔ ایسے معاملات جب سامنے آتے ہیں تو اس جرم میں فقط ایک شخص ملوث نہیں ہوتا بلکہ گھر کے دوسرے افراد اور تمام تر معاشرہ اس گھناؤنے فعل میں برابر کا حصے دار ہوتا ہے۔اس وقت ہمارے معاشرے کی حالت یہ ہے کہ منفی رویوں کی انتہا کی وجہ ذہنی امراض میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کی وجوہات میں والدین کی بے توجہی، بچوں پر تشدد، نسلی تعصب اور غربت جیسے محرکات آجاتے ہیں۔ خانہ جنگی ہو یا دہشت گردی ہو یا معاشرتی بدنظمی سب سے زیادہ عورت متاثر ہوتی ہے۔ اسلام کی روح اور فکر و فلسفے سے دور جاتی ہوئی قوم گھرکی اہمیت اور افادیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔معاشرے کے موجودہ انتشار کی ایک سب سے بڑی وجہ خودکا ذاتی ذمے داری سے انکار ہے۔

وہ ذمے داری جو اس کی ذات پر عائد ہے۔ چینی مفکر لین یوتانگ کا کہنا ہے کہ ''انسانی معاملات حل کرنے کے لیے سانچے کام نہیں دے سکتے۔ خواہ یہ معاملات سیاسی ہوں یا معاشرتی۔ جو لوگ صاحب فردا اور اہل نظر بنتے ہیں۔ نت نئی اصلاحات اور نظریے گھڑتے ہیں اکثر ان کے اندازے غلط نکلتے ہیں۔ کیونکہ وہ انسان کی بشریت سامنے نہیں رکھتے۔ یہی وہ چیز ہے، جس سے قانون پاس کرنیوالے، نئے ادارے کھولنے والے اور سماج سدھار کے پرچارک مار کھا جاتے ہیں۔'' جس وقت معاشرہ بہت سے مسائل کا بیک وقت شکار ہو، وہاں اخلاقی و انسانی قدریں ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہیں۔ فرد اگر اپنی ذاتی ذمے داری سے آگاہ ہے تو یہ ذاتی فرض شناسی قومی شعور سے جھلکنے لگتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک گھر کی اکائی منتشر ہے اور ماں عدم تحفظ کا شکار ہے۔ یا آپس میں ربط باہمی کا فقدان ہے۔ چاہے وہ گھر ہوں، معاشرہ ہو یا ایوان سیاست کسی بھی مسئلے کا حتمی حل سامنے نہیں آسکتا۔ ایک اور دکھی ماں کی دردناک چیخ ای میل کے ذریعے مجھے موصول ہوئی ہے، جس کی بیٹی لاعلاج ذہنی بیماری میں مبتلا ہے۔ غلطی سے وہ ای میل ڈیلیٹ ہونے کے باعث اس اہم موضوع پر لکھنے سے قاصر ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں