خان صاحب اور معاشی استحکام

تحریک عدم اعتماد سے لے کر ضمنی انتخابات تک اور جب سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ کا فیصلہ آیا تو مارکیٹ دھڑکر کے گر گئی


جاوید قاضی August 07, 2022
[email protected]

یہ بھی عجیب حسن اتفاق ہے ، مارکیٹ بیٹھ جاتی ہے جب خان صاحب کے آنے کی خبر بنتی ہے اور مارکیٹ اوپر جاتی ہے جب خان صاحب کا پسپائی سے سامنا ہوتا ہے۔

تحریک عدم اعتماد سے لے کر ضمنی انتخابات تک اور جب سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ کا فیصلہ آیا تو مارکیٹ دھڑکر کے گر گئی، ڈالر نے وہ تیز اڑان پکڑی کہ دیوالیہ ہماری دہلیز پر آکے کھڑا ہوا نظر آرہا تھا اور پھر جب الیکشن کمیشن کا فیصلہ آیا کہ خان صاحب حلفیہ جھوٹے ثابت ہوئے، پی ٹی آئی نے آرٹیکل 17(3) سے انحراف کیا۔

سیکڑوں کمپنیاں وغیرہ پاکستانی بمع ہندوستانی ، اسرائیل اور امریکی، خان صاحب کو ممنوع فنڈنگ کرتے ہوئے بمع عارف نقوی جو بین الاقوامی قانونی شکنجے میں ہے۔ یہ وہ کام تھا جو ایف اے ٹی ایف کے قوائد سے ، دبئی امریکا برطانیہ کے قوانین میں تو جکڑے گئے توساتھ ہمارے قوانین کے تحت بھی جکڑے جا چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے پورا مروجہ عدالتی پراسیز کے تحت اس انجام تک پہنچی یعنی ٹرائل ہوا، شواہد سامنے آئے ، بمع اسٹیٹ بینک ان اٹھارہ پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ کے جو انھوں نے الیکشن کمیشن سے چھپائے۔ جو حلفیہ کہا کہ باقی اکاؤنٹ ان کے نہیں ہیں۔ یہ کہ رواداد بھی ان کی 2008 سے 2014 کی۔ اب کے اور بھی کیس الیکشن کمیشن میں آئے گا کہ ان فارن فنڈنگ یا ممنوع فنڈز 2015 سے 2022 تک کتنے ہیں؟

کسی کو آرٹیکل 62(1)(f) کے وہ ''صادق یا امین'' نہیں، کے لیے ثابت ہونے کا طریقہ کار بھی یہی ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس اسپیکر ریفرنس بھیجے یا خود عام شہری یہ ثابت کرپائے۔ الیکشن کمیشن میں اور جب یہ ثابت ہوجائے تو بھی حکومت پولیٹیکل پارٹی ایکٹ کے تحت ریفرنس داخل کرتی ہے یا خود کوئی بھی عدالت ٹرائل چلا کے کرے، خود نیب ہی کیوں نہ ہو کہ سپریم کورٹ ایسے شخص پر تاحیات الیکشن میں نہ کھڑا ہونے کی پابند ی لگائے اور ایسا شخص پارٹی کا سربراہ بھی نہیں ہوسکتا۔

یہ پانچ رکنی بینچ سپریم کورٹ 2017 کا آرڈر ہے جب اقامہ کی بنیاد پر انھوں نے الیکشن کمیشن میں اپنے حلفیہ بیان سے انحراف کیا تھا کہ اقامہ کے تحت کوئی آمدنی وہ نہیں لیتے ۔ جب کہ سچ بھی یہی تھا کہ وہ ان کے بیٹے کی کمپنی تھی، دبئی میں ان کی ملازمت یعنی اقامہ تھا، ایک رسم خاطر تھا۔

مگر تھا ،حیرت ہے کہ یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کا نہ تھا۔ نہ برسوں یہ کیس چلا تھا جس طرح عمران خان کا فارن فنڈنگ کیس جو الیکشن کمیشن میں پورے آٹھ برس چلا ہے۔ نواز شریف آرٹیکل 184(3) کے اندر سو موٹو کیس کے تحت یعنی خود سپریم کورٹ نے نوٹس لیا، پناما اسکینڈل کے پس منظر میں خود جی آئی ٹی بنائی یعنی خود ٹرائل کورٹ بن گئی۔ جی آئی ٹی کو کچھ بھی نہیں ملا ، صرف ایک اقامہ ملا اور باقی کیس نیب کورٹ میں بھیجا گیا، ایڑیاں رگڑتے زندگی گذاری نواز شریف اور اس کی بیٹی مریم نواز نے۔ اور خود جج ارشد یہ بیان دے گئے کہ انھوں نے نواز شریف کے خلاف ٖفیصلہ پریشر میں آکے سنایا ہے کہ ان کی کچھ وڈیوز کو سامنے رکھ کر بلیک میل کرکے نواز اور مریم نواز کے خلاف فیصلہ لیا گیا اور ابھی تک وہ اپیلیں ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں اور اقامہ کی سزا الگ، نواز شریف کو وزیر اعظم سے نہ صرف ہٹایا گیا بلکہ پارٹی سربراہ کے عہدے سے بھی ہٹایا گیا اور تا عمر انتخابات لڑنے یا ممبر اسمبلی ہونے کی پابندی لگادی ۔دوسری جانب برطانیہ میں پراپرٹی کے چکر میں جو مجرم ثابت ہوئے جن سے پیسے لے کر پاکستان کو دیے گئے کہ یہ انھوں نے منی لانڈرنگ کی ہے، ان کو سپریم کورٹ کے ناک تلے خان صاحب نے بچایا، پاکستان کے اکاؤنٹ میں پیسے جمع کروانے کے بجائے اس شخص کو واپس گئے۔

یہ سب بھی چلتا، امن بھی ہوتا، چاہے ظلم رہتا اگر معیشت صحیح طرح چلتی رہتی۔ خان صاحب کے زمانے میں400% دوائیاں ایک جھٹکے سے مہنگی کر دی گئیں، ایک مخصوص گروہ کو فائدہ دینے کے لیے، پراپرٹی کا کاروبار کرنے والوں کو بے تحاشہ چھوٹ دی گئی، گھر بنانا غریبوں کے لیے ناممکن ٹھہرا۔ کبھی آٹے کا بحران ، چینی مافیا کے فوائد، پٹرول کے اندر مافیا پیدا ہوئی۔ خود جو نیب کے چیئرمین نے کام کیے ۔ عارف نقوی کا بھی اربوں کا کھیل ہے۔ ڈالر دو سو تک آگیا ۔ بیس ہزار ارب قرضے لیے اور ایک بھی پروجیکٹ نہیں لائے ، سی پیک کو تباہ کیا۔ افراط زر میں تیزی، غریب غریب تر ہوگیا ، کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرنے لگیں۔اس وقت دنیا میں کوئی بھی یوکرین والا بحران نہیں تھا۔

اب یہ بات مارکیٹ کو تو پتا ہے کہ خان صاحب معیشت کے لیے تباہی ہیں۔ وہ جب دیکھتی ہے کہ وہ آسکتا ہے، مارکیٹ بیٹھ جاتی ہے ،وہ دیکھتی ہے کہ وہ نہیں آسکتا، مارکیٹ اٹھ پڑتی ہے اور ڈالر نیچے آتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد اور یہ تاثر ابھرا کہ آئی ایم ایف سے پیسے مل رہے ہیں، تو مارکیٹ میں رت بدلی۔

ہم نے پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے، آئین کے ساتھ جو مذاق کیا ہے، وہ آپ کے سامنے ہے ۔ ایف اے ٹی ایف نے جب پابندیاں لگائیں تو اندر کی محفلوں میں میاں نواز شریف نے یہ کہا کہ '' ہم کب تک ایسے لوگوں کو اثاثہ سمجھیں گے جن کی وجہ سے ہم پر یہ پابندیاں لگ رہی ہیں'' وہ دن میاں صاحب کے لیے آخری دن ٹھہرا اور آج ہم یہ مان رہے ہیں کہ میاں صاحب صحیح تھے اور ہم سب اب وہ کام کررہے ہیں جس سے ہمارے اوپر ایف اے ٹی ایف کی لٹکتی تلوار اٹھ سکے۔ ہم دنیا کی کمیونٹی میں ایک ذمے دار ملک کی حیثیت سے جانے پہچانے جاسکیں۔ خود دنیا چاہتی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہو، قانون کی حکمرانی ہو۔

جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے جو نیم جمہوریت کی ساخت بدلی اور ہائبرڈ جمہوریت متعارف کرائی، اس سے پہلے سیدھی آمریت لاتے تھے یا آرٹیکل 58(2)(b) کا اطلاق صدر پاکستان سے کرواتے تھے،وہ ہائبرڈ جمہوریت اب کے بار نہیں چل پائی وہ چل پاتی اگر معیشت چل پاتی۔ ایوب خان کو خدمات کے عوض امریکا سے USAID ملتی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کی خدمات افغان جہاد تھا، اسی لیے ڈالر پاکستان میں آئے ، ایک مخصوص گروہ نے پیسے کمائے۔ جنرل مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خدمات پیش کیں اور ڈالر حاصل کیے ، جب کہ طالبان کے مختصر گروہ نے افغانستان کو تباہ کرنے کے عوض دولت کمائی اور ہزاروں لاکھوں افغان اس دولت پر قربان کردیے گئے ۔

پاکستا کی حالیہ ہائبرڈ جمہوریت کو، جو ماضی کے انھی آمروں کا تسلسل تھی، کہیں سے کچھ نہیں ملا، بلکہ ان کے جو ساتھی تھے جس نے پی ٹی آئی متعارف کروائی، فنڈز بھیجے ، اربوں روپے کے، جیسا کہ عارف نقوی وغیرہ ۔ ہمیں خان صاحب نے دنیا سے کاٹ کے رکھ دیا۔ ہماری خارجہ پالیسی شاہ محمود قریشی کے زمانے کی ، آپ کے سامنے ہے، انتہائی ناکام رہی اس کے برعکس صرف چند مہینوں میں حنا ربانی کھر اور بلاول بھٹو نے بہت ہی اچھی کارکردگی دکھائی اور سو فیصد سچ ہے کہ جو معاشی تباہی ابھی تک اس حکومت سے سنبھل نہیں پائی جارہی، وہ خان صاحب کی مہربانی ہے اور یقینا اب پھر سے لگتا ہے کہ وہ سنبھلنے جارہی ہے۔

اب ریاست چلانا بہت حساس معاملہ ہے، ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ آیا ہمیں ناکام ریاست بن کر روس کے ساتھ کھڑا ہونا ہے یا آزاد ریاست بن کر، آئین پر چل کر جمہوری عمل کو شروع کریں، یہ جو جہادی ہیں جنھیں ہم نے اثاثہ سمجھا ہوا تھا ہم یقینا ان سے جان چھڑانے کے لیے سنجیدہ اقدام کر رہے ہیں۔ پاکستان ایک نئی منزل کو یقینا پہنچتا نظر آرہا ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں، پاکستان پیپلز پارٹی تو خود پی ایم ایل نون یا مولانا فضل الرحمان یہ سب سنجیدہ سیاست کرنے والے لوگ ہیں، یہ اس ملک کو اس بھنور سے نکال سکتے ہیں اور خود اسٹبلیشمنٹ بھی ان سے ملک کے مفادات کے لیے مل بیٹھ کے کام کرے اور کسی بھی پولیٹیکل انجینئرنگ کو اب ہمیشہ خیر آباد کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں