بلوچستان اثاثہ یا بوجھ
بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب سے آنے والی تباہ کاریوں پر کسی جانب سے کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے
بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا جب کہ آبادی کے حوالے سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ یہ بے پناہ معدنی دولت سے مالا مال ہے، اس کی ساحلی پٹی کا محل وقوع نہایت اہم ہے اور عظیم قدرتی بندرگاہ بھی اس صوبے میں موجود ہے۔
منطقی اعتبار سے بلوچستان کو پاکستان کا سب سے ترقی یافتہ صوبہ ہونا چاہیے تھا، چوں کہ ہمارے ملک میں ہر کام عموماً منطق کے برعکس کیا جاتا ہے اسی لیے بلوچستان معاشی لحاظ سے انتہائی پس ماندہ ہے اور یہاں بدترین غربت پائی جاتی ہے۔ اس وقت برسات نے اسے جس طرح تباہ حال کیا ہے وہ ہم سب کے بلوچستان ترقی کی دوڑ میں کیوں پیچھے رہ گیا۔
اس کی ایک سے زیادہ وجوہ ہیں۔ تاہم اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اس کی معدنی دولت اور ساحلی پٹی اور گوادر کی بندرگاہ جسے اس کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہی بہت سے طاقتور عناصر کی کشش کا مرکز بن چکی ہے۔ جہاں بھی معدنی دولت اور بہترین محل وقوع پر بندرگاہ واقع ہوتی ہے عموماً وہاں سرمایہ کاری ہوتی ہے جو لوگوں کی خوشحالی کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ بلوچستان کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔
بعض طاقتیں اس کے معدنی وسائل کو محض اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہیں اور بعض علاقائی طاقتیں ایسی بھی ہیں جن کی آنکھوں میں بلوچستان ایک کانٹا بن کر کھٹکھتا ہے کیوں کہ اس کی ترقی خلیج کے چند ملکوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ بلوچستان اگر پرامن ہو جاتا ہے اور یہاں ترقی کا عمل شروع ہو جاتا ہے تو یہ صوبہ کاروبار، تجارت اور سیاحت کا بہت بڑا مرکز بن جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض طاقتیں اور ملک کے اندر موجود ان کے حلیف اس صوبے کو عالمی اور علاقائی تجارت کا مرکز نہیں بننا دینا چاہتے ہیں۔
لہٰذا ان کے مفاد میں یہی ہے کہ بلوچستان کو عدم استحکام سے مسلسل دوچار رکھا جائے۔ آزادی کے فوراً بعد سے یہاں بحران پیدا کیے جاتے رہے اور صوبے کو کبھی پرسکون نہیں ہونے دیا گیا۔ ملک میں فوجی آمریت ہو یا نیم جمہوری سویلین حکومت، بلوچستان ہر دور میں مسائل سے دوچار رہا۔ سویلین ادوار میں اس صوبے میں پائی جانے والی محرومی اور بے چینی کو دور کرنے کی کوششیں ضرور کی گئیں لیکن وہ پائیدار اور دیرپا ثابت نہیں ہوسکیں۔ مکالمے کے بجائے طاقت سے بات منوانے کے طویل عمل کے باعث حالات آج پیچیدہ شکل اختیار کرچکے ہیں۔
عذاب اور مسائل کا شکار یہ صوبہ ان دنوں قدرتی آفت کی زد میں آیا ہوا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے غیر متوقع اور غیر معمولی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے بھیانک سیلاب نے چند اضلاع کو چھوڑ کر پورے بلوچستان کو جس تباہی سے دوچار کیا ہے، اس کی تاریخ میں کوئی مثال کم ہی ملتی ہے۔
دل کو جو بات زیادہ دکھی کرتی ہے وہ یہ ہے کہ بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب سے آنے والی تباہ کاریوں پر کسی جانب سے کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ جب تک صورت حال انتہائی خراب نہیں ہوئی اور بین الاقوامی میڈیا نے اس کے بارے میں خبریں نہیں دیں اس وقت تک ہم نے کچھ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ کسی کو اس امر کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ اس صوبے کے عوام پر کیا عذاب گزر رہا ہے۔
ان کو خوراک اور پینے کا صاف پانی دستیاب ہے یا نہیں، بزرگوں، بچوں اور بیمار لوگوں کی حالت زار کیا ہے، وہ کس اذیت اور بے چارگی کے عالم میں ہیں۔ ارباب اختیار کی اپنی ترجیحات ہیں، حکومت خود کو بچانے کی تگ و دو میں مصروف ہے، سیاسی اور معاشی بحران نے ہنگامی حالات پیدا کر رکھے ہیں۔
ایسے میں مقامی انتظامیہ بھی نیم دلی سے اپنے فرائض ادا کر رہی ہے۔ 1947 میں جب پاکستان میں وجود میں آیا تھا تو اس وقت مغربی پاکستان، مشرقی پاکستان سے 70 فی صد زیادہ امیر تھا اور آج بنگلہ دیش پاکستان سے 45 فی صد زیادہ امیر ہو چکا ہے۔وہاں غربت میں کمی ہوئی، اور فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔
ہماری صورت حال اس کے برعکس ہے۔یہ محض چند اعداد و شمار ہیں جنھیں بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جسے ہم نے بوجھ سمجھا وہ دراصل ہمارا کتنا بڑا اثاثہ تھا۔ بلوچستان کے بارے میں یہ رویہ اختیار نہ کیا جائے۔ آج کی اس حقیقت کو مان لیا جائے کہ صرف جمہوریت کی طاقت ہی وفاقی ریاستوں کی اکائیوں کو متحد رکھ سکتی ہے۔