مقابلہ
یہ قدرت کا ایک اشارہ ہے کہ ایک امکان جب ختم ہوتا ہے تو اسی وقت دوسرے امکان کا آغاز ہو جاتا ہے
مغرب کی طرف پھیلی ہوئی پہاڑیوں کے اوپر سورج ڈوب رہا تھا۔ آفتابی گولے کا آدھا حصہ پہاڑ کی چوٹی کے نیچے جا چکا تھا اور آدھا حصہ اوپر دکھائی دیتا تھا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد پورا سورج ابھری ہوئی پہاڑیوں کے پیچھے ڈوب گیا۔
اب چاروں طرف اندھیرا چھانے لگا، سورج دھیرے دھیرے اپنا اُجالا سمیٹتا جا رہا تھا۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سارا ماحول گہری تاریکی میں ڈوب جائے گا، مگر عین اس وقت جب کہ یہ عمل ہو رہا تھا، آسمان پر دوسری طرف ایک اور روشنی ظاہر ہونا شروع ہوئی۔ یہ بارہویں کا چاند تھا جو سورج کے چھپنے کے بعد اس کی مخالف سمت سے چمکنے لگا اور کچھ دیر بعد پوری طرح روشن ہو گیا۔ سورج کی روشنی کے جانے پر زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک نئی روشنی نے ماحول پر قبضہ کرلیا۔
یہ قدرت کا ایک اشارہ ہے کہ ایک امکان جب ختم ہوتا ہے تو اسی وقت دوسرے امکان کا آغاز ہو جاتا ہے۔ سورج غروب ہوا تو دنیا نے چاند سے اپنی بزم روشن کرلی۔ بعینہ افراد اور قوموں کے لیے بھی ابھرنے کے امکانات کبھی ختم نہیں ہوتے۔ زمانہ اگر ایک بار کسی کو گرا دے تو خالق کائنات کی اس دنیائے آب و گل میں اس کے لیے مایوس ہونے کا کوئی سوال نہیں ہے، وہ نئے مواقع استعمال کرکے دوبارہ اپنے ابھرنے کا سامان کرسکتا ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ آدمی ہوش مندی اور دانش مندی کا ثبوت دے اور مسلسل جدوجہد سے کبھی نہ گھبرائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا عجیب امکانات کے ساتھ بنائی ہے۔
یہاں مادہ فنا ہوتا ہے تو وہ توانائی بن جاتا ہے۔ تاریکی آتی ہے تو اس کے بطن سے ایک نئی روشنی برآمد ہو جاتی ہے، ایک مکان گرتا ہے تو دوسرے مکان کی تعمیر کے لیے زمین خالی کردیتا ہے۔ یہی معاملہ انسانی زندگی کے واقعات کا ہے۔ یہاں ہر ناکامی کے اندر سے ایک نئی کامیابی کا امکان ابھر آتا ہے۔ دو قوموں کے مقابلے میں ایک قوم آگے بڑھ جائے اور دوسری قوم پیچھے رہ جائے تو بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ اس کے بعد ایک اور عمل شروع ہوتا ہے۔ آگے بڑھی ہوئی قوم کے اندر عیش پرستی اور سہولت پسندی آ جاتی ہے۔ دوسری طرف پیچھے رہ جانے والی قوم میں محنت، لگن، عزم اور جدوجہد کا نیا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی اس دنیا میں کسی کے لیے پست ہمت یا مایوس ہونے کا سوال نہیں ہے۔ حالات خواہ بظاہر کتنے ہی ناموافق دکھائی دیتے ہوں، اس کے آس پاس آدمی کے لیے ایک نئی کامیابی کا امکان لازمی موجود ہوگا۔ دانا اور دور بیں آدمی نئی امکانی کامیابی کے پس منظر اور پیش منظر سے آگاہی حاصل کرکے اپنی محنت، لگن، اخلاص نیت اور عزم صمیم اور شبانہ روز جدوجہد کے ذریعے اپنی کھوئی ہوئی بازی کو دوبارہ جیت لیتا ہے، غیر متوقع طور پر کامیابی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
آپ اس پس منظر میں حکمراں اتحاد اور اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ پی ڈی ایم میں شامل بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) جو گزشتہ دو تین دہائیوں سے پنجاب میں چھائی ہوئی تھی اب اسے بہت زیادہ جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔ جب ایوان حکومت میں داخل ہوئی تو مشکل معاشی فیصلوں کے باعث اس کی شہرت اور عوامی مقبولیت میں کم کے تجزئیے سامنے آنا شروع ہو گئے۔
تمام حکومتی وسائل رکھنے اور پی ڈی ایم کی 10 جماعتوں بشمول پی پی پی کی پشت پناہی کے باوجود پنجاب کے 20 حلقوں کے ضمنی انتخابات میں صرف 4 سیٹیں ہی جیت سکی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن نے منصفانہ اور شفاف الیکشن کرائے اور کسی قسم کی دھاندلی نہیں کی۔ہار اپنی جگہ مگر شفاف الیکشن کا کریڈٹ مسلم لیگ ن کو ضرور جاتا ہے۔
حکومت میں آنے کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی نے ضمنی انتخابی معرکے کو آسان لیا کہ ہم حکومت میں ہیں عوام ہمارے حق میں ووٹ دیں گے۔ مریم نواز نے بھرپور انتخابی مہم چلائی اس کے باوجود مطلوبہ نشستیں (ن) لیگ حاصل نہ کرسکی۔ جس انداز میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے شفاف الیکشن کرائے وہ قابل تحسین ہے۔
اب پنجاب میں مسلم لیگ ق اور پی ٹی آئی کی مشترکہ حکومت ہے جس میں پی ٹی آئی بڑی اتحادی ہے،دیکھنا یہ ہے کہ آیندہ الیکشن میں یہ حکومت مسلم لیگ ن کی حکومت کی طرح شفاف الیکشن کراتی ہے یا اس کے خلاف دھاندلی کے الزامات لگتے ہیں،یہ تو خیر آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ چھ آٹھ ماہ قبل جب پی ڈی ایم کی جماعتیں اپوزیشن میں تھیں تو مسلم لیگ (ن) نے پنجاب کے تقریباً تمام ہی ضمنی الیکشن میں حکمراں جماعت پی ٹی آئی کو شکست دی تھی اور پنجاب میں اپنی مقبولیت کا بھرپور فائدہ اٹھایا تھا۔
ادھر پی ٹی آئی کے ساتھ بالکل مختلف صورت حال نظر آتی ہے۔ حکومت میں ہونے کے باوجود بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور تباہ کن معاشی صورت حال کے باعث عمران خان اپنی عوامی مقبولیت کھو رہے تھے۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات میں حکومتی وسائل رکھنے اور پنجاب میں بزدار حکومت ہونے کے باوجود شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد توقع یہ کی جا رہی تھی کہ عمران خان کی مقبولیت کا سورج غروب ہو گیا۔ وہ ناکامی کی گھاٹیوں میں اترتے جا رہے ہیں، لیکن عمران خان نے اپنی شکست کو فتح میں بدلنے کے لیے ایک جاندار بیانیہ گھڑا اور اسے اس بھرپور طریقے سے عوام کے ذہن و قلب میں اتار دیا کہ انھوں نے ناکامی سے اپنی کامیابی کا راستہ تلاش کرلیا اور اپوزیشن میں ہونے کے باوجود پنجاب کے ضمنی انتخابات میں 15 سیٹیں جیت کر کھوئی ہوئی بازی کو جیت لیا۔
اب عمران خان کے سامنے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق فارن فنڈنگ کیس کی صورت میں ایک نیا معرکہ درپیش ہے۔ فیصلے میں عمران خان پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں جن کی وضاحت دینا ان پر لازم ہو گیا ہے۔ فیصلے پر حکومتی اتحاد شادیانے بجا رہا ہے۔ عمران خان کی نااہلی کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ وفاقی کابینہ نے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے تحت کارروائی کی منظوری دے دی ہے۔ ڈکلیریشن سپریم کورٹ بھیجنے کی باتیں کی جا رہی ہیں، جب کہ عمران خان کا موقف ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے میں واضح تضادات ہیں، میں نے ایسا کیا غلط کر دیا کہ نااہلی کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ عمران خان کے چاہنے والوں کے لیے یہ دھچکا ہے ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ عمران خان فائٹر ہے وہ یہ مقابلہ بھی جیت لے گا۔ بقول منیر نیازی:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا