زباں فہمی 150 ہَیگا موجود ہے گا
دل چسپ بات یہ ہے کہ جہاں بھی ’ہے گا‘ یا ’ہیگا‘ رائج ہے، بول چال میں ہے اور بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہے
QUETTA:
زباں فہمی نمبر 147 (تذکرہ امروہہ کے شعراء کا، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، سنڈے میگزین، مؤرخہ 17جولائی 2022ء) میں یہ پیرا، ہماری واٹس ایپ بزم زباں فہمی اور بزم تحقیق برریختہ میں ایک نئی گفتگو کا باعث بنا جسے بحث کا درجہ بہرحال نہیں دے سکتے۔ پہلے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
رئیس امروہوی نے بھی برملا اس اَمر کا اعتراف کیا کہ "اردو کا پہلا مثنوی نگار، میرا ہم وطن، اسمٰعیل امروہوی تھا"۔(مجلہ حضرت سید حسین شاہ شرف الدین شاہ ولایت، 1976، ص ۱۱)۔اسمٰعیل امروہوی کا نمونہ کلام پیش خدمت ہے:
وطن امروہہ میرا ہے شہر کا نام
اسی جائے پر میرا ہے گا قیام
(قدیم اردوبشمول دکنی میں 'ہے گا' مستعمل تھا، بعد میں متروک ہوگیا اور مدتوں بعد، پاکستان ٹیلی وژن کے کٹھ پتلی تماشا فن کار، فاروق قیصر نے اپنے پروگرام کے ذریعے زندہ کیا)۔
خاکسارنے یہ ہرگز نہیں کہا تھا کہ یہ لفظ بولا ہی نہیں جاتا،ہاں متروک ہواہے تو تحریر، خصوصاً معیاری زبان میں، مگر احباب نے یہی مطلب اخذ کیا ور یکے بعد دیگرے میری معلومات میں اضافہ کیا یہ "ہَیگا" یا ہے گا، ابھی تک موجود ہے گا، فلاں فلاں شہروں اور اُن کے تارکین کی بول چال میں۔ پروفیسر امجد نذیر نازکؔ صاحب نے فیصل آباد سے ای میل کے ذریعے انکشاف فرمایا کہ یہ پنجابی میں بدستور مستعمل ہے، مگر وہ بھی یہ نہ بتاسکے کہ معیاری یا ادبی پنجابی میں استعمال ہنوز ہوتا ہے کہ نہیں، جبکہ میرے کالم میں واضح طور پر درج تھا; قدیم اردوبشمول دکنی میں، مراد تھی معیاری وادبی زبان سے۔
ممتاز شاعرہ محترمہ آمنہ عالم نے بزم زباں فہمی میں اس بابت اظہار خیال کی ابتداء کرتے ہوئے کہا کہ یو۔پی بشمول دِلّی والوں کے یہاں مستعمل ہے۔ راقم کے دوست، رکن بز م زباں فہمی عزیزم نوید الظفر سہروردی نے بتایا کہ یو۔پی میں علی الخصوص بلند شہر اور مظفر نگر کے باسی 'ہے گا' اور ہیں گے' عام بولتے ہیں۔
بزم تحقیق برریختہ میں محترم لقمان سنبھلی نے سنبھل (ہندوستان) سے ارشاد فرمایا کہ ہمارے یہاں سنبھل میں 'ہے گا' کثرت سے بولتے ہیں اور سنبھل، امروہہ اور مرادآباد سے متصل ہے۔ اسی واٹس ایپ حلقے میں تائید کی، جناب عبدالرحمن سیف نے دیوبند سے۔ ہماری بزم کے معرز رکن محترم سلیم فاروقی نے اس کے فصیح ہونے کا سوال اٹھایا۔ خاکسارنے وضاحت کی کہ یہ معاملہ بول چال کا ہے اور اہل زبان ہی کسی لفظ یا ترکیب کے فصیح یاغیر فصیح کا فیصلہ کرنے کے مُجاز ہوتے ہیں، البتہ لسانی تحقیق میں ایسے جزوی امور بھی نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔
لندن سے تشریف لانے والے ممتاز شاعر محترم غالبؔ ماجدی نے راقم کی تائید کی اور کہا کہ"مقامی یا علاقائی زبانوں کا معاملہ، اردوپر محمول نہیں کیا جاسکتا۔ 'ہیگا' کا معاملہ ہمارے بہِار کے 'ٹھو' بمعنی عدد جیسا ہے جو کبھی بھی معیاری زبان کا حصہ نہیں بنا"۔
اس ساری نکتہ آرائی سے قطع نظر، دل چسپ بات یہ ہے کہ جہاں بھی 'ہے گا' یا 'ہیگا' رائج ہے، بول چال میں ہے اور بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہے،بعینہ اسی طرح جیسے انکل سرگم (فاروق قیصر مرحوم) کے کردار 'ہیگا' کا تھا، وہ یوں کہا کرتا تھا;"ہیگا، موجود ہے گا، جیسے دودھ میں پانی ہے گا"۔ (یہ الگ بات کہ راقم لسانی تخریب وتشکیل کے اس شعوری عمل میں 'کلیاں' اور 'انکل سرگم شو' کے خالق فن کار کا مخالف تھا)۔ آئیے آج اسی بہانے تکیہ کلام پر کچھ خامہ فرسائی کرلیتے ہیں۔
تکیہ کلام سے مراد وہ لفظ، ترکیب، فقرہ یا جملہ ہے جو کسی بھی شخص کے منھ سے، اثنائے گفتگو، غیرشعوری طور پر، باربار اور بکثرت ادا ہو۔ اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ یہاں رک کر یہ بات بھی یاد دلاتا چلوں کہ تکیہ کلام معیاری،کتابی وادبی زبان میں بدرجہ اتم موجود ہے اور تقریباً تمام اصناف سخن میں،نثر میں، حتیٰ کہ دینی ومذہبی ادب میں اس کا استعمال عام ہے۔
فرہنگ آصفیہ میں تکیہ کلام کی تعریف اس طرح بیان ہوئی ہے:" ف+ع۔ اسم مذکر۔سخن تکیہ;بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ موقع بے موقع کسی ایسے لفظ کو کہ جو اُن کی زبان پر چڑھا ہوا ہو، ہر ایک کلام کے بعد بولتے ہیں۔ پس اِسی کو تکیہ کلام اور سخن تکیہ کہتے ہیں"۔
نوراللغات میں اس کی تعریف یوں درج کی گئی: "مذکر، جس بات کی بار بار کہنے کی عادت ہو، بعض لوگوں کو ایک بات کہنے کی عادت پڑجاتی ہے، مثلاً کیا نام، جو ہے سو ہے، خدا تم کو نیکی دے ؎ ہر وَقت داغؔ کا یہی تکیہ کلام ہے +میرے حضور،مجھ کو تونگر بنائیں گے;شعورؔ نے باِضافت کہا ہے ؎ کیوں تکیہ کلام نہ ہوجائے کوئی لفظ+جب گفتگو میں ہو نہ سہارا کسی طرح"۔
اردو لغت بورڈ کی مختصر اُردو لغت کا بیان بھی ملاحظہ فرمائیں:"اسم مذکر، بولتے میں سہارے کے لیے، کسی لفظ یا جملے کے باربارکہنے کی عادت یعنی گفتگو میں جہاں کہیں رُکتے ہیں تو وہ لفظ یا جملہ، بلاارادہ، زبان سے نکل جاتا ہے، کوئی بھی بات یا جملہ جسے دورانِ گفتگو، بلاارادہ، باربار دُہرایاجاتاہو"۔حسن اللغات (فارسی۔اردو) کے مؤلف نے لکھا: " ف۔ وہ لفظ یا بات جوکوئی آدمی اپنی گفتگو کے دوران، باربار استعمال کرے"۔انگریزی میں تکیہ کلام کو Catch word/Catchwordکہتے ہیں، جبکہ پاکستان کی دیگر زبانوں میں اس کا نام معلوم نہ ہوسکا۔
بعض لوگ کسی وجہ سے کہیں کھوئے ہوئے ہوتے ہیں (ذہنی اعتبارسے) تو ابتدائے کلام سے انتہاء تک، وقفے وقفے سے پوچھتے ہیں ;اور سب خیر ہے؟ (بعض سندھی حضرات بھی یہی جملہ اپنی زبان میں اتنی کثرت سے دُہراتے ہیں کہ مخاطب سوچ میں پڑ جاتا ہے)۔
ایک پرانا تکیہ کلام تھا، اللہ کی قسم۔یا۔قسم اللہ کی،یا قسم خدا کی، آج بھی بعض افراد کی زبان میں نمایاں تکیہ کلام ہے۔اسی تکیہ کلام کی ایک شکل "وَاللہ"(عربی سے ماخوذ) اور دوسری شکل "بَخدا"(فارسی سے ماخوذ) ہے۔جدید دورمیں زبان کے شعور سے عاری، نئی نسل (بلکہ ہماری عمر کے بعض لوگ بھی) بخدا اور باخدا میں تمیز نہیں کرپاتے۔زباں فہمی میں یہ فرق ایک سے زائد بار واضح کیا جاچکا ہے: بہ خدا=بخدا یعنی خداکی قسم،(لفظی مطلب خدا کے نام سے یا خدا سے)اور باخدا=خدا کے ساتھ۔یہاں ضمنی تفصیل یہ ہے کہ عربی زبان میں حرف واؤ کا استعمال محض قسَمیہ ہی نہیں، بلکہ تنبیہ اور خبردار کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔یہ تنوع ہمیں قرآن مجید کی مختلف آیات میں نظر آتا ہے۔بولی ٹھولی کے فرق سے یہ "مولا قسم" بھی بن جاتی ہے۔
بعض لوگ محض 'قسم سے' کہتے ہیں تو کوئی 'ماں قسم' (شےِدی مکرانی لوگ اکثر کہتے ہیں)، پھر کوئی اپنی محبوبہ یا بیوی کو وقتی طور پر قائل کرنے یا رام کرنے کے لیے کہتا ہے ;تمھاری قسم۔اسی طرح 'تمھارے سرکی قسم' بھی کم وبیش تمام بعض لوگ کسی وجہ سے کہیں کھوئے ہوئے ہوتے ہیں (ذہنی اعتبارسے) تو ابتدائے کلام سے انتہاء تک، وقفے وقفے سے پوچھتے ہیں ;اور سب خیر ہے؟ (بعض سندھی حضرات بھی یہی جملہ اپنی زبان میں اتنی کثرت سے دُہراتے ہیں کہ مخاطب سوچ میں پڑ جاتا ہے)۔ایک پرانا تکیہ کلام تھا، اللہ کی قسم۔یا۔قسم اللہ کی،یا قسم خدا کی، آج بھی بعض افراد کی زبان میں نمایاں تکیہ کلام ہے۔
اسی تکیہ کلام کی ایک شکل "وَاللہ"(عربی سے ماخوذ) اور دوسری شکل "بَخدا"(فارسی سے ماخوذ) ہے۔جدید دورمیں زبان کے شعور سے عاری، نئی نسل (بلکہ ہماری عمر کے بعض لوگ بھی) بخدا اور باخدا میں تمیز نہیں کرپاتے۔زباں فہمی میں یہ فرق ایک سے زائد بار واضح کیا جاچکا ہے: بہ خدا=بخدا یعنی خداکی قسم،(لفظی مطلب خدا کے نام سے یا خدا سے)اور باخدا=خدا کے ساتھ۔یہاں ضمنی تفصیل یہ ہے کہ عربی زبان میں حرف واؤ کا استعمال محض قسَمیہ ہی نہیں، بلکہ تنبیہ اور خبردار کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔یہ تنوع ہمیں قرآن مجید کی مختلف آیات میں نظر آتا ہے۔بولی ٹھولی کے فرق سے یہ "مولا قسم" بھی بن جاتی ہے۔بعض لوگ محض 'قسم سے' کہتے ہیں تو کوئی 'ماں قسم' (شےِدی مکرانی لوگ اکثر کہتے ہیں)، پھر کوئی اپنی محبوبہ یا بیوی کو وقتی طور پر قائل کرنے یا رام کرنے کے لیے کہتا ہے ;تمھاری قسم۔اسی طرح 'تمھارے سرکی قسم' بھی کم وبیش تمام رشتوں میں قربت اور قلبی تعلق کا احساس دلانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
بعض لوگ ہر کس وناکس کو میری جان کہہ دیتے ہیں، بعض جانُو، الغرض یہ بھی نظر اَنداز کردیتے ہیں کہ رشتہ اور تعلق کیا ہے۔تکیہ کلام کی مزید مثالیں: 'ہائے اللہ'، (زنانہ بولی)، 'اُف اللہ'(زنانہ بولی)، 'ہائے میرے مالک'، ہائے میرے مولا،'اللہ نہ کرے'، 'خدانہ کرے'، 'اللہ معاف کرے'،اللہ کے ولی، اللہ لوک(پنجابی)، اللہ آپ کا بھلا کرے، اللہ خیر!، آپ کے مُنھ میں (اس پر ایک بہت ناگفتہ بہ قسم کی مثال یاد آرہی ہے جو ہمارے لڑکپن میں ریڈیو پاکستان کے ایک ڈرامے میں ایک کردار کا تکیہ کلام تھا)، 'گستاخی معاف!'، "سمجھے؟" یا "سمجھے مطلب؟"، 'گولی مارو'، " سُناں جی" (پرانی عورتوں کا اپنے شوہروں سے تخاطب)، "اجی سُنتے /سُنتی ہو"، "اری نیک بخت" (شوہروں کا بیویوں سے تخاطب)(پنجابی میں "بھلی لوکی اے" /تلفظ میں 'پلی')، "بھاگ بھری"(پنجابی)، خان صاحب، خان بہادر صاحب، صاحب (صاب/صَیب)جی، بیگم صاحب (صاب)، بدمعاش، شیطان، شیطان کہیں کا، ہاں جی (پنجابی، بجائے اردو'جی ہاں')، نہیں تو نا سہی (پنجابی: نئیں تے ناں سہی)،بھولے بادشاہ۔
دیگر تکیہ ہائے کلام (ہائے لگا کر جمع بنانا فارسی سے آیا ہے)جی فرمائیے(پروفیسر ڈاکٹر اسلم فرخی، ٹیلی فون پر کال وصول کرتے ہوئے کہتے تھے، "جی فرمائیے")، یا "فرمائیں جی(پنجابی)،مٹی پاؤجی(پنجابی) لوکرلوگل(پنجابیت)، ہاں جی(پنجابیت: بجائے اردو کے، جی ہاں)، واہ کیا خوب، جانے بھی دو، غصہ تھوک دو،، قسم سے، کمال ہے، اللہ جھوٹ نہ بلوائے/خدا جھوٹ نہ بلوائے، توبہ توبہ"،ہائے میں مرگئی (پنجابی: ہائے وے میں مرجاواں)،میں صدقے، میں واری،مطلب یہ کہ (نیز مَلّے یہ کہ;یہ ہمارے ایک رشتے دار اس قدر کثرت وسرعت سے بولا کرتے تھے کہ ناواقف آدمی ہکا بکا رہ جائے)،جونسا، جونسی،جونسے (زباں فہمی میں ماقبل مذکور)۔
غصے کی حالت میں بھی بعض تکیہ کلام بکثرت استعمال ہوتے ہیں جیسے "جہنم میں جاؤ"، "جہنم میں جائے"، "اللہ کی مار!"(زنانہ بولی)، "نگوڑماری(زنانہ بولی)، " نَوج"(زنانہ بولی)،پاجی، پاجی کہیں کا۔
ڈراما سیریل "انکل عرفی"میں اداکار جمشید انصاری (مرحوم) کا 'چقو ہے میرے پاس' اور "زیر زبر پیش" اور "کرن کہانی"میں 'زور کس پر ہوا'اور 'قطعی نہیں' بہت مشہورومقبول ہوئے۔دُہرائے بِنا نہیں رہا جاتا کہ جب خاکسار،پاکستان ٹیلی وژن، کراچی میں ملاقات کے وقت،مرحوم کو "پی ٹی وی کا شریف آدمی" کہتا تو محفل میں سب سے پہلے اُن کا مسکراتا چہرہ عجیب انداز سے کھِل اٹھتا اور اظہار ِتشکر فرماتے تھے۔ ڈراماسیریز "ایک حقیقت، ایک افسانہ" میں نثار قادری (ایڈیٹر) کا "ماچس ہوگی، آپ کے پاس؟"۔ڈراما'باادب با ملاحظہ ہوشیار' میں مرکزی کردار بادشاہ کا "انصاف ہوگا، ضرورہوگا"۔
ایک مشہور ڈرامے میں اداکار سہیل اصغرکا سرائیکی تکیہ کلام "صدقے تھی واں"(قربان جاؤں یا صدقے واری)،ڈراماسیریز "اندھیرا اُجالا" میں اداکار قوی خان کا "بولو، بولو"۔ اور اسی ڈرامے میں اداکار عرفان کھوسٹ کا "ڈیھ (دس)جماعت پاس ہوں، ڈَریکٹ (ڈائریکٹ) حوالد ارہوں، کوئی مذاق نہیں ہوں میں (پنجابیت)"۔کسی فلم میں مصطفی قریشی کا "نواں آیا ہے سوہنڑی اے"(پنجابی)، اداکار لہری کا "گولی ماردوں گا" (یہی مکالمہ قوی کی ایک فلم میں بھی اُن کا تکیہ کلام تھا)،اداکار لہری کا A cup of tea is a cup of tea and a business is a business۔اب جبکہ پورا ایک جملہ ہی انگریزی کا دَر آیا ہے تو کیوں نہ ایسے انگریزی تکیہ ہائے کلام کا ذکر کیا جائے جن کا چلن اَب اردو گو طبقے (خصوصاً برگروں)میں عام ہے:
You know, Oh, no!, O' my God, O' my gosh/ O' gosh!, God damn it!, Oh, I see, God knows/God knows better, Let's see, Wonderful!, Shut up!, Actually, Literally, Virtually, Exactly, By the way, By God, Of course, For God's sake, For Heaven's sake, Sweet heart, Lovely, My love, Darling, Baby/My baby, My lord, Shit, Naughty, Silly, Boss, Bro, Boss, Sis, Sister
بعض اہل سیاست کی بعض مکرر کہی ہوئی باتیں بھی تکیہ کلام کے ضمن میں آتی ہیں، مگر فی الحال اس آلودہ ماحول میں ان کا ذکر بھی نامناسب ہے۔آخر میں یہ عرض کردوں کہ مجھے "تکیہ کلام" کے موضوع پر کوئی کتاب یامبسوط مقالہ کہیں نظر نہیں آیا، اگر کسی نے اس بارے میں تحقیق کی ہوتو براہ کرم مجھے آگاہ فرمائیں۔