سیاسی فیصلے
پی ٹی آئی اپنے خلاف اس فیصلے سے کچھ پریشان بھی ہے اورکچھ خفا بھی
لاہور:
جب سے الیکشن کمیشن کی جانب سے فارن فنڈنگ کیس کافیصلہ سنایاگیاہے ملکی سیاست میں کچھ غیرمعمولی ہلچل سی مچی ہوئی ہے۔
پی ٹی آئی اپنے خلاف اس فیصلے سے کچھ پریشان بھی ہے اورکچھ خفا بھی۔ اس کے پاس اپنے دفاع میں سوائے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف بیان بازی کے کچھ بھی نہیں ہے، وہ چیف کو اپنامخالف اورجانبدار قرار دی رہی ہے اور انھیں نامزدکرنے کے اپنے فیصلے کو ایک بہت بڑسیاسی بلنڈربھی سمجھ رہی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی تعریف میں ساتوں آسمانوں کے قلابے ملانے والے عمران خان آج اُن میں سو سو برائیاں تلاش کرتے پھررہے ہیں۔
آٹھ سال تک کیس ٹلتارہااورہم سب جانتے ہیں کہ کیس کی اس غیر معمولی طوالت کی وجہ اوراسباب کیاتھے۔کون باربار تاریخیں لیتارہااورکون اپنے وکیل بدلتارہا۔ جب کسی کادامن صاف وشفاف ہوتو وہ کبھی بھی کیس کو لمبا نہیں کرناچاہے گا بلکہ اس کی کوشش تو یہ ہوگی کہ فیصلہ جلد سے جلد سنایا جائے۔
یہی بات اس کیس میں فریقوں کے طریقہ کار سے واضح ہوجاتی ہے۔ اکبر ایس بابر جو کسی مخالف سیاسی پارٹی کے رکن بھی نہ تھے بلکہ پی ٹی آئی کے پرانے اوردیرینہ ممبر اورکارکن تھے ۔وہ شروع دن سے اس کیس سے منسلک رہے اورانتھک کوششوں سے فیصلے کے دن کاانتظار کرتے رہے،جب کہ دوسرے فریق کی طرف سے ہمیشہ کیس کی سنوائی سے فرار کی راہیں اختیارکی جاتی رہیںاور جب اُسے یہ یقین ہوچلاکہ فیصلے کو اب مزید ٹالا نہیں جاسکتاتو وہ چیف الیکشن کمشنر کی غیر جانبداری کو داغدار کرنے کی کوششوں میں لگ گیا۔
الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے نتیجے میں اپنے اوپرپڑنے والے دباؤ کو کچھ کم کرنے کے لیے پی ٹی آئی اب جارحانہ سیاست کی راہ اختیار کرنے جارہی ہے۔ اس مقصد سے اس نے چودہ اگست کو اسلام آباد میں ایک بڑا جلسہ کرنے کااعلان کرڈالاہے،وہ ایک طرف عام انتخابات کامطالبہ بھی کرتی دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف قومی اسمبلی کی نوسیٹوں پرہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی حصہ لینے کے لیے پر تولتی بھی نظرآتی ہے۔اپنے سیاسی حریفوںکوسخت اور ٹف ٹائم دینے کے لیے وہ احتجاج کے ساتھ ساتھ ہرآپشن استعمال کرناچاہتی ہے۔
خان صاحب نے نو کی نونشستوں پراپنے آپ کو نامزد کرکے بظاہرایک بہت بڑی سیاسی چال چلی ہے ، کیا یہ کامیاب ہو جائے گی، کیونکہ وہ ابھی تک قومی اسمبلی کے منتخب نمایندے ہیں ،ان کااستعفیٰ ابھی تک منظور نہیں ہوا ہے اس لیے جب تک وہ استعفیٰ منظور نہیں ہوجاتاوہ کسی اور انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے ہیں۔
اُن کے دوستوں اور ساتھیوں نے انھیں شاید یہ بات نہیں بتائی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ اوراُن کے ہمنوا سب اس فیصلے کو ایک بہت بڑا کارنامہ قرار دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ایک طرف وہ قومی اسمبلی سے استعفیٰ بھی دینا چاہتے ہیں تو دوسری طرف اس کے ضمنی انتخاب میں بھر پور طریقے سے حصہ بھی لیناچاہتے ہیں۔
اسی طرح وہ حکومت پر نئے الیکشن کروانے کا دباؤ بھی ڈال رہے تو ساتھ ہی ساتھ اپنی دونوں صوبائی حکومتیں اوراسمبلیاں بھی نہیں چھوڑناچاہتے ہیں،وہ اگر واقعی نئے الیکشن کے اتنے خواہاں ہیں تو اُن کے پاس سب سے آسان طریقہ تو یہی تھاکہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کو وہ توڑ دیتے اورحکومت کو مجبور کردیتے کہ وہ فوراً نئے انتخابات کروائے۔
لیکن لگتاہے وہ خود بھی ابھی فوری انتخابات نہیں چاہتے ہیں۔ بس احتجاج اورجلسوں کے ذریعے اپنے ووٹروں کے لہوکوگرم رکھناچاہتے ہیں۔ خان صاحب کے بارے میں یہ بات سوفیصد درست اورصحیح معلوم ہوتی ہے کہ وہ احتجاج اوراپوزیشن کی سیاست کے بہت بڑے ماہر ہیں۔ وہ حکمرانی سے زیادہ اچھی سیاست اپوزیشن میں رہ کرکرسکتے ہیں۔ حکومت جب ملی تو وہ کوئی نمایاں کارکردگی نہیں دکھاپائے۔ اور وزیراعظم کے عہدہ سے نکلتے ہی وہ ایک بار پھر کامیاب سیاستداں کے روپ میں نظر آنے لگے۔
اُن کی عوامی پذیرائی سے ہرکوئی متاثر ہوجاتاہے ،وہ صرف اپنی سحرانگیز باتوں اورجوشیلے بیانوںسے بڑے بڑے اجتماعات اورجلسے تو کرسکتے ہیںلیکن جب حکمرانی ملے توکارکردگی نہیں دکھاپاتے ہیں۔آج اُن کی کرشماتی شخصیت سے متاثر ہونے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے، لیکن جب تک انھیں کسی غیبی قوت کاسہارا نہیں ملاوہ اپنی اس کرشماتی شخصیت سے کسی بڑے حلقے کومتاثر نہیں کرپائے تھے۔2011 تک ہر الیکشن میں وہ دو تین نشستوں سے زیادہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے تھے۔
آج بھی جب اُن کے لیے عوامی پذیرائی کاڈنکابج رہاہے لیکن وہ کوئی ٹھوس اورواضح پالیسی اختیار کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں، وہ تذبذب اور غیر یقینی کاشکار ہیں۔ کبھی لانگ مارچ اورجلسے کرنے کااعلا ن کرتے ہیں توکبھی چھ دن کاالٹی میٹم دیکر دودو مہینوں تک خاموش ہوجاتے ہیں۔ صوبائی اسمبلیاں توڑنا بھی نہیں چاہتے ہیں اورملک بھر میں نئے انتخابات کامطالبہ بھی بڑے زورشور کے ساتھ کرتے ہیں۔
وہ کبھی نونو نشستوں سے ضمنی الیکشن لڑنے کا عندیہ بھی دیتے ہیں توساتھ ہی ساتھ ضمنی الیکشن کے شیڈول کو بھی عدالتوں میں چیلینج بھی کرڈالتے ہیں۔ اُن کی پوری کوشش ہے کہ یہ حکومت سکون سے کام نہ کرسکے۔ ڈالر جب مہنگاہورہاتھاتووہ اسے لے کرعوام کی حمایت سے مالامال ہورہے تھے لیکن اب جیسے ہی ڈالر واپس اپنی اصل قیمت پرجانے لگاہے تو اُن کی سیاست میں مایوسی کافیکٹر شامل ہونے لگاہے۔ایسے میں حکومت کواگر IMFکے قرضے کی قسط مل گئی تو حالات اُن کی گرفت سے باہر ہوجائیںگے۔
یہ سوچ کروہ ایک بارپھرعوام کو سڑکوں پرلانے کا پروگرام ترتیب دے رہے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس طرح خود کوالیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلوں کی زد سے بچاکر سرخرو ہوپاتے ہیں یاپھر حکومت پردباؤ ڈال کراُسے نئے الیکشن کرانے پر مجبور کرسکتے ہیں۔اگر نئے الیکشن ہوگئے تو خان صاحب کے لیے حالات سازگار ہوسکتے ہیں۔اس کے لیے انھیں اپنی دونوں صوبائی اسمبلیوں سے باہر نکلناہوگا، لیکن وہ کسی ٹھوس یقین دہانی کے بغیر یہ رسک لینا ہرگز نہیں چاہتے ہیں۔ شاید یہ وجہ ہے کہ وہ اس وقت تذبذب کاشکار ہیںاور زبردست عوامی حمایت کے باوجود کوئی ٹھوس اورحتمی فیصلہ کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔