سوچ بچار کریں
اب سوچ بچارسے تھوڑا آگے نکل کرکچھ کرنا چاہیے کیوں کہ سوچ بچار کی تو اب بھنویں تک سفید ہوچکی ہیں
جناب چوہدری شجاعت حسین ویسے تو ''کہنے'' سے زیادہ ''کرنے''میں یقین رکھتے ہیں یعنی کلام سے زیادہ کام دکھاتے ہیں لیکن کبھی کبھی جب کہنا چاہتے ہیں تو دو الفاظ میں مشکل سے مشکل بات کہہ ڈالتے ہیں۔ وہ ایک ادیب نے جوش ملیح آبادی کے بارے میں کہاہے کہ جب وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو دو مصرعوں کی رباعی میں کہہ دیتے ہیں اورجب نہیں کہنا چاہتے ہیں تو ستراسی بندکی نظم کہہ دیتے ہیں ۔
ہمارے چوہدری صاحب کی فصاحت وبلاغت بھی کچھ کچھ جوش صاحب سے ملتی ہے مثلاً اب کے انھوں نے یہ ''رباعی''کہی ہے کہ ... حالات سدھارنا سیاستدانوں کی ذمے داری، اختیارات رکھنے والے تمام لوگ معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے ''سوچ بچار'' کریں۔
بات صاف ہے اورہم حسب معمول یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ ، سمجھ میں نہیں آتا کہ ''کیا''کہا ہے لیکن جو بھی کہا ہے خوب کہا ہے کیوں کہ چوہدری صاحب کی بات میں بہت بڑی بات بلکہ فلسفہ ہے اور اس فلسفے کی کنجی دوالفاظ میں ہے ''سوچ بچار''۔ چوہدری صاحب کا مطلب یہ معلوم ہوتاہے کہ ''اختیارات'' والے ''سوچ بچار''کریں لیکن اس میں ایک ''فی''ہے کہ اگر اختیارات والے سوچ بچار کریں گے تو پھراختیارات کون استعمال کرے گا وہ تو پڑے پڑے سڑ جائیں گے، ویسے بھی سوچ کے ساتھ بچار کالفظ خود ہی اعلان کر رہا ہے کہ سوچ ہے ہی بیچاروں کا کام۔اب بھلا اختیارات والے کیسے سوچ بچار کریں۔
اس سلسلے میں ایک دانا رازنے کہا ہے کہ امریکا میں ایک دماغوں کا ڈاکٹر ہے جو اکثرپاکستانی دماغوں کاعلاج کرنا پسند کرتاہے ۔ایک دن اس کے ایک دوست نے پوچھا کہ ''آخر پاکستانی دماغوں میں ایسی کیاخاص بات ہے'' ڈاکٹرنے کہا ''خاص بات یہ ہے کہ پاکستانی دماغ بالکل صحیح وسالم ہوتے ہیں یعنی ان سے کام نہیں لیا گیا ہوتا،میں صرف کھول کر اورجھاڑ پونچھ کر لمبا چوڑا بل بنا دیتا ہوں جو ویسے پاکستانی حکومت ہی نے اداکرنا ہوتا ہے ''۔
دوست نے ڈاکٹر سے کہا کہ ''تم ان کو بتا کیوں نہیں دیتے کہ تھوڑا بہت دماغوں سے کام لیا کرو''۔ ڈاکٹر بولا، ''کہا تھا ایک بہت بڑے دماغ سے ۔لیکن اس نے کہا کہ پاکستان میں کام نہ کرنے پر ہی تنخواہ ملتی ہے، کام کرنے والوں کو پسند نہیں کیا جاتا''۔خیر یہ تو ایک الگ دم ہل گئی ہے، اصل سوچ بچار اسی سوچ بچار پر ہی کرنا ہے،چوہدری صاحب نے اپنی اس ستربند کی نظم میں اگر غورئیے تو کچھ بھی نہیں کہا یا یوں کہیے کہ وہ کہا ہے جس کی قطعی ضرورت نہیں کہ پچھترسال سے سارے لوگ۔ سارے لوگوں سے یہی سارا کچھ کہہ رہے ہیں ۔
اختیارات والے تمام لوگ معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے سوچ بچار کریں۔پچھترسال سے یہی توکر رہے ہیں اختیارات رکھنے والے لوگ۔ہرصبح سوچ بچار ہرشام سوچ بچار ہمارا تو ہے ہی کام سوچ بچار۔
ہمارے خیال میں تو اب سوچ بچارسے تھوڑا آگے نکل کرکچھ کرنا چاہیے کیوں کہ سوچ بچار کی تو اب بھنویں تک سفید ہوچکی ہیں،اورسوچ بچار سے آگے جو کچھ کرنا ہے وہ اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ اختیارات والے لوگ جیسے چوہدری صاحب کا خاندان اورکچھ نہ کریں صرف ان کے ہاں جو دولت سڑرہی ہے وہ ملک کو معیشت ٹھیک کرنے کے لیے قرض حسنہ کے طورپر دے دیں مثلاً اگر صرف چوہدری اورشریف خاندان بھی اپنی فالتو دولت پنجاب کو قرض حسنہ کے طورپر دیں تو پنجاب کی معیشت چھلانگیں لگاسکتی ہے۔
اسی طرح اگر پورے ملک کے اختیارات والے لوگ قرض حسنہ کا یہ سلسلہ چلادیں تو ملک کو آئی ایم ایف وغیرہ کے پاؤں پڑ کر ''قرض ہنسنا''نہ لینا پڑے۔اورہم صرف قرض حسنہ کی بات کررہے ہیں، عطا کرنے، خیرات کرنے یا واپس کرنے کی بات نہیں کررہے ہیں ، ورنہ اگر بات حق کی ہوتو ہم سب کو پتہ ہے کہ یہ بے پناہ مال کہاں سے آیا ہے یاآتا ہے صرف حق بحق دار رسید ہوجائے گا۔
سب کچھ ہے تیرا دیا ہوا
سب کچھ ہے تجھ سے لیا ہوا
پشتومیں کھوئی ہوئی چیزڈھونڈنے پربھی نہیں ملتی، خاص طور پر بچوں اورخواتین میں یہ طریقہ ابھی حال ہی تک مروج تھا جب گمشدہ چیزڈھونڈنے کاہرطریقہ ناکام ہوجاتاتھا یالوگ ڈھونڈتے تھک جاتے تھے تو دوفقرے دہرائے جاتے تھے ۔
پیریا نو ماما گانو
خپل مال موواخلی خپل مال راکڑی
ترجمہ۔اے جنات ماموؤں۔تم اپنا مال لے لواورہمارامال واپس کردو۔
ہم بھی اپنے جنات ماموؤں سے یہی گزارش کرتے ہیں کہ اپنی چیزلے لو اورہمیں ہماری چیزواپس کردو۔تم کو کرسی چاہیے، وہ لے لوبلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لے چکے ہو تو اب ہمارا رزق تو ہمیں واپس کردو ، یہ تو انتہائی ظلم ہے ۔یہ بھی تمہاری اور وہ بھی تمہارا۔چٹ بھی تمہاراپٹ بھی تمہارا۔
یہ کرسی بھی لے لو،یہ شہرت بھی لے لو
مگرہم کو دے دو وہ کاغذکی کرنسی ،وہ جیون کا پانی