قائم نقوی اور اختر شمار
قائم نقوی لاہور کی ادبی زندگی کا ایک اہم کردار تھے برسوں وہ سرکاری ادبی مجّلیٰ ’’ماہِ نو‘‘ کے اسسٹنٹ اور پھر ایڈیٹررہے
ISLAMABAD:
اس کالم کو ہونا تو حالیہ دورۂ امریکا کے احوال کی چوتھی قسط تھا مگر درمیان میںدو خبریں ایسی آگئیں کہ اس سلسلے کو وقتی طور پر روکنا پڑرہا ہے۔ قائم نقوی اور اختر شمار عہدِ حاضر کے دو نمایندہ شاعر ہی نہیں بلکہ قریبی احباب بھی تھے کہ جن سے تعلقات کا عرصہ تین سے چار دہائیوں تک پھیلا ہوا تھا۔
میں چونکہ خود امریکا سے واپسی پر کورونا کی دوسری اننگز بھگت رہا ہوں اس لیئے نہ تو ان کے جنازوں میں شامل ہوسکا اور نہ ہی ان کی رحلت کی تفصیلات سے آگاہی ہوسکی، ایک دو دوستوں کے فون اور فیس بک سے اس قدر ہی پتہ چل سکا کہ قائم نقوی ریڈیو پاکستان میں کربلا کے حوالے سے کوئی ریکارڈنگ کروا کے دوستوں کے ساتھ ریڈیو کی کینٹین میں چائے پینے کے لیئے گئے اور وہیں دیکھتے ہی دیکھتے یکدم عالمِ بالا کو روانہ ہوگئے یہ تو علم تھا کہ اُن کی صحت کے کچھ مسائل چل رہے ہیں مگر اُن کی عمومی صحت اور طبیعت کی خوش مزاجی دیکھ کر قطعاً یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ اس قدر زیادہ بیمار ہیں۔
قائم نقوی لاہور کی ادبی زندگی کا ایک اہم کردار تھے برسوں وہ سرکاری ادبی مجّلیٰ ''ماہِ نو'' کے اسسٹنٹ اور پھر ایڈیٹررہے، حلقہ اربابِ ذوق کی سیاست میں بھی وہ اور اُن کے ساتھی بہت نمایاں رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ ایک ادبی رسالہ نکال کر ادب سے اپنی محبت اور کمٹ منٹ کا ثبوت دے رہے تھے شاعری میں وہ غزل اور غزل کی روائت کے دلدادہ تھے عام طور پر چھوٹی بحروں میں بہت ڈھنگ سے شعر کہتے تھے، اپنے مزاج کی طرح شاعری میں بھی وہ دھیمی لَے میں بات کرتے تھے اور اُن کی بیشتر شاعری روحِ عصر کی ترجمان نظر آتی ہے البتہ کہیں کہیں وہ زندگی کے بنیادی سوالوں کو تصوف کی آ نکھ سے دیکھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
کیا کوئی دے سکے پتہ میرا
بھید مجھ پر بھی کب کُھلا میرا
ریزہ ریزہ ہوئے ہیں خواب میرے
پھر بھی قائم ہے حوصلہ میرا
کھلی کھڑکی سے دن بھر جھانکتا ہوں
میں ہر چہرے میں تجھ کو ڈھونڈتا ہوں
جہاں انسان پتھر ہو چکے ہیں
میں اُس بستی میںکیسے جی رہا ہوں
جہاں سے کل مجھے کاٹا گیا تھا
وہیں سے آج میں پھر اُگ رہا ہوں
............
ہمارا قتل ہوا دفتروں کی کربل میں
ہم اپنے نقش فقط فائلوں میں ڈھونڈتے ہیں
............
بارشوں کی زد میں آکر ڈھہہ گئے کچے مکاں
اور تھوڑی دیر کو موسم سہانا ہوگیا
............
باہر اندر عذاب ہے قائم
ہم نے کیا کیا عذاب دیکھے ہیں
اختر شمار جنوبی پنجاب کی شاعر خیز فضا میں ہوش سنبھالنے کے بعد جب چند برس قبل لاہور آئے تو ان کے مزید جوہر کھلنا شروع ہوئے بہت برسوںتک انھوں نے تازہ ادبی خبروں پر مشتمل خبرنامہ حیرت انگیز کامیابی اور سلیقے کے ساتھ چلایا اور اپنے آپ کو ہر ممکن لوکل سیاسی جھگڑوں اور اختلافات سے الگ رکھتے ہوئے ایک ا چھے ایڈیٹر کا حق ادا کیا۔ تعلیمی و تدریسی میدان میں بھی وہ ہمہ دم کچھ نہ کچھ کرتے نظر آئے۔ مصر کی الازہر یونیورسٹی کے شعبہ اُردومیں بھی کچھ برس خدمات سرانجام دیں اور آج کل ایف سی کالج کے صدر شعبہ اردو کے طور پر کام کر رہے تھے۔
اُن کا شعر گوئی کا ایک اپنا مزاج اور انداز تھا۔ اپنی خوش قامتی، خوش لباسی اور خوش وضعی سے وہ ہمیں محفل میں نمایاں نظر آتے اُن سے اور اُن کی شاعری سے ملاقات ہمیشہ ہی ایک خوش کن تجربہ رہی۔ وہ احترام کرنا اور کروانا دونوںکے گر جانتے تھے اور لاہور کی ادبی محفلوں میں انھیں بہت عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ۔ان کے بہت سے اشعار بھی نئی نسل کے پسندیدہ اور مرغوب تھے اور وہ مسلسل ان میں اضافہ بھی کرتے رہتے تھے آیئے ان کے جستہ جستہ اشعار سے اُن کو یاد کرتے ہیں۔
بعد مرنے کے میں کھلا اُس پر
ایک دلچسپ انتظار تھا میں
............
ابھی سفر میں کوئی موڑ بھی نہیں آیا
نکل گیا ہے یہ چپ چاپ داستان سے کون
............
اَبر کی سمت بہ اندازِ صدف دیکھتے ہیں
غم کے مارے ہیں فقط تیری طرف دیکھتے ہیں
............
میرے معیار کا تقاضا ہے
میرا دشمن بھی خاندانی ہو
............
اُس کے نزدیک غم ترکِ وفاکچھ بھی نہیں
مطمئن ایسا ہے وہ جیسے ہوا کچھ بھی نہیں
اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ہیں
اُس کو کھو کر تو میرے پاس رہا کچھ بھی نہیں
کل بچھڑنا ہے تو پھر عہدِ و فا سوچ کے باندھ
ابھی آغاز ِ محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں
میں تو اس واسطے چپ رہوں کہ تماشا نہ بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گِلا کچھ بھی نہیں
............
اک ستارے کی رفاقت جو میّسر ہوتی
یہ جو گردش ہے مرے پاؤں کی ٹھوکر ہوتی
............
ہمارے پاس اک لمحہ نہیںہے
اُسے فرصت ہی فرصت ہے کریںکیا
ہم اُس سے بچ کے چلنا چاہتے ہیں
مگر وہ خوب صورت ہے کریںکیا!