باران رحمت سے تباہی کیوں

ہر سال بارشوں کا لاکھوں کیوسک پانی ریلوں کی شکل میں سمندر میں گر کر ضایع ہوجاتا ہے، امسال بھی یہی ہوا


[email protected]

کراچی: پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں ایک طرف لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہوتے ہیں اور دوسری جانب بارشیں اور سیلابی ریلے سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں۔ بلاشک وشبہ بارشیں اللہ رب العزت کی رحمت ہیں، لیکن ہم نے اپنی بد اعمالیوں، بدانتظامیوں، نالائقیوں اور نااہلیوں کی وجہ سے اس رحمت خداوندی کو اپنے لیے زحمت بنا رکھا ہے۔

ابھی دوماہ قبل تھر اور تھل کے علاقوں میں بدترین قحط سالی سے انسان تو انسان، جانوروں پربھی عرصۂ حیات تنگ ہوچکا تھا۔ جاندار پانی کی بوند بوند کو ترس رہے تھے، مذکورہ علاقوں میں کئی لوگ اس قحط سالی کا شکار بن گئے، ہزاروں کی تعداد میں مویشی مر گئے۔ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے اور پھر مون سون کا سیزن شروع ہوا، پاکستان کے بیشتر شہری و دیہی علاقوں میں غیر معمولی بارشوں نے تباہی مچا دی، سیلابی ریلے بستیوں کی بستیاں بہا کر لے گئے۔

یہ غیر معمولی بارشیں باران رحمت ثابت ہوسکتی تھیں مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا اور سارے کا سارا پانی نہ صرف ضایع ہوگیا بلکہ اس پانی نے سیکڑوں افراد کی جانیں بھی لے لیں، لاکھوں افراد بے گھر اور کروڑوں بری طرح متاثر ہوئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جتنا پانی آسمان سے برسا اس کی ایک ایک بوند کو محفوظ کیا جاتا، بعد ازاں اسے استعمال میں لایا جاتا، مگرہمیشہ کی طرح ایسا کچھ نہیں ہوا۔ آخر کیوں؟ آج کے کالم میں اسی موضوع پر گفتگو ہوگی اوراس مسئلے کا سنجیدہ حل بھی پیش کرنے کی کوشش ہوگی۔

ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلیاں عالمگیر مسئلہ بن چکی ہیں، جو تیزی کے ساتھ دنیا کے بیشتر ممالک کو اپنے اثرات کی لپیٹ میں لے رہی ہیں، بد قسمتی سے ان متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے۔ پاکستان میں اس وقت اگر بارشوں کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں تو دنیا کے کچھ حصوں خاص طور پر یورپ، مڈل ایسٹ، سینٹرل ایشیا میں گرمی کے ریکارڈ بھی ٹوٹ رہے ہیں۔ عالمی ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کا درجہ حرارت ایک فیصد سے کچھ زیادہ بڑھ چکا ہے۔ جس کے انتہائی منفی اثرات ہم دیکھ رہے ہیں۔

اگر یہ دو تک بڑھ گیا تو کیا ہوگا کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان میں بڑی تیزی سے رونما ہورہے ہیں، حالیہ غیر معمولی بارشیں اور سیلاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ گلگت بلتستان میں کبھی زیادہ بارشوں کی توقع نہیں کی جاتی تھی اب وہاں بھی اوسط سے زائد بارشیں ہو رہی ہیں۔ 2020ء میں کراچی میں شدید بارشیں ہوئیں اور اب تقریباً دو سال بعد ویسے ہی بارشیں ہو رہی ہیں، جس نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حب کے انفراسٹرکچر کو بری طرح تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ موجودہ صورتحال انتہائی گھمبیر ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق رواں ماہ کی 26 تاریخ تک پاکستان میں مجموعی طور پر اوسط سے 192 فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ پاکستان میں جولائی میں اوسط بارشیں 51.5 ملی میٹر ہوتی ہیں تاہم اس سال یہ 150.1 ملی میٹر رہی ہیں۔

سب سے زیادہ اوسط بارش بلوچستان میں ہوئی جہاں پر جولائی میں اوسط بارشیں 24.4 ملی میٹر ہوتی ہیں جب کہ اس سال جولائی میں 132.4ملی میٹر بارش ہوئی جو کہ 443 فیصد زیادہ ہے۔گلگت بلتستان میں اوسط بارش گیارہ ملی میٹر ہوتی ہے جب کہ اس سال اب تک تیرہ ملی میٹر بارش ہو چکی ہے جو کہ 17 فیصد زائد ہے۔ خیبر پختونخوا میں اوسط بارش 84.4 ملی میٹر کے بجائے 107.3ملی میٹر ہوئی ہے۔

ملک بھر میں مون سون کی ان غیر معمولی بارشوں کا پانی جب زمین پر پڑا تو اس نے سیلابی ریلوں کی شکل اختیار کرلی اور ملک بھر میں تباہی مچا کر رکھ دی۔ بلوچستان میں ڈیرہ بگٹی، جعفرآباد، نصیر آباد، خضدار، گوادر، جھل مگسی، کچھی، ہرنائی، کوہلو، کیچ، قلات، لسبیلہ، سبی، بارکھان، چاغی، ژوب اور دکی میں تباہی مچ گئی۔ کے پی کے میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ملاکنڈ ڈویژن کے ہیں جہاں نو اضلاع میں نقصان ہوا ہے جن میں سوات، چترال، دیر، شانگلہ، بونیر کے علاقے شامل ہیں۔ ہزارہ ڈویژن میں مانسہرہ اور بالائی علاقے جیسے کاغان اور ناران کے قریبی دیہاتوں میں بھی سیلابی ریلوں سے نقصان پہنچا ہے جب کہ اکثر مقامات پر لینڈ سلائڈنگ سے سڑکیں تباہ ہو گئی ہیں۔

صوابی اور بونیر میں مکانات گرے ہیں جن میں جانی نقصانات بھی ہوئے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں گزشتہ ماہ ڈیرہ غازی خان کے علاقوں میں رودھ یعنی پہاڑی نالوں میں آنے والے سیلاب سے نقصان پہنچا تھا جب کہ اب دریائے سندھ کے قریب آباد شہر اور دیہات متاثر ہو رہے ہیں۔ بارشوں اور سیلابی ریلوں سے اب تک ملک بھر میں اڑھائی سو سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، اربوں روپے کی سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچا ہے۔

این ڈی ایم اے اور فلاحی و دینی جماعتیں متاثرہ علاقوں میں بے یار و مددگار لوگوں کی امداد اور بحالی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اپنی روایات کے مطابق پاک فوج کے دستے بھی ان سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ چند دن پہلے بلوچستان میں متاثرین سیلاب کی امدادی سرگرمیوں کے دوران پاک فوج کے افسران جس میں میں کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی، ڈائریکٹر جنرل پاکستان کوسٹ گارڈز میجر جنرل امجد حنیف ستی، انجینئرنگ کور کے بریگیڈیئر محمد خالد کے علاوہ عملے کے تین ارکان پائلٹ میجر سعید احمد، پائلٹ میجر محمد طلحہ منان اور نائیک مدثر فیاض نے جام شہادت نوش کیا۔ اس المناک حادثے پر پوری قوم اشکبار اور سوگوار نظر آئی۔

ہر طبقے سے تعلق رکھنے والوں نے اس حادثے میں شہید ہونے والوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ بلاشبہ پاک فوج کے افسران نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے سیلاب میں گھرے لوگوں کی مدد کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ پوری قوم کو اپنے ان شہداء پر فخر ہے۔

ہر سال بارشوں کا لاکھوں کیوسک پانی ریلوں کی شکل میں سمندر میں گر کر ضایع ہوجاتا ہے، امسال بھی یہی ہوا۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو پاکستان زیرِ زمین پانی استعمال کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے جہاں کی 60 سے 70 فیصد آبادی بالواسطہ یا بلا واسطہ ضروریاتِ زندگی کے لیے اسی پانی پر انحصار کرتی ہے تاہم تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ اور بدانتظامی کی وجہ سے پانی کا یہ ذخیرہ تیزی سے سکڑ رہا ہے۔ ماہرینِ آبپاشی اور زراعت کے مطابق پاکستان کے گنجان آباد اور زرعی پیداوار کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کو بھی پانی کی قلت کا سامنا ہے۔

سندھ، بلوچستان اور کے پی کے میں بھی صورتحال تسلی بخش نہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ ایک کروڑ سے زائد آبادی والے شہر لاہور میں پینے کا صاف پانی محض اگلے دس برس میں ختم ہو سکتا ہے۔ لاہور میں زیرِ زمین پانی کی سطح سالانہ اوسطاً اڑھائی فٹ نیچے جا رہی ہے۔ کئی مقامات پر پانی کی سطح 100 فٹ سے بھی نیچے جا چکی ہے جو کہ قدرتی حد سے کم ہے اور یہ پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔

پینے کے قابل پانی حاصل کرنے کے لیے زمین میں پانچ سے سات سو فٹ تک بورنگ یا کھدائی کی جا رہی ہے۔ اگر بارشوں کے اس پانی کو ہم بورنگ سسٹم کے ذریعے زمین کے اندر منتقل کردیں تو اس سے ناصرف زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوگی بلکہ یہ محفوظ پانی ہمارے لیے سالہا سال تک رحمت ہی رحمت بن کر ہمیں زندگی بخشتا رہے گا۔ بورنگ سسٹم بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کا نہایت آسان اور سستا ترین طریقہ ہے۔ اگر حکومت اس سلسلے میں قدم آگے بڑھائے اور باقاعدہ قانون سازی کرے تو آنے والی نسلیں بھی ہمیں دعائیں دیں گی۔ بورنگ سسٹم کے ذریعے شہروں، شاہراہوں، بازاروں ، گلیوں، کھیت کھلیانوں، انڈر پاسز اور پارکوں میں ہی نہیں بلکہ ہر گھر کے اندر ایک خاص نشیبی جگہ بور کرایا جائے، تاکہ بارش ہو تو اس کا پانی اس بور کے ذریعے زیر زمین منتقل ہوجائے۔ امریکا اور یورپ کے بہت سے ممالک خاموشی سے اس سسٹم کو اپنا رہے ہیں۔

ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی بورنگ سسٹم کے ذریعے بارش کے پانی کو محفوظ کیا جارہا ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ کم از کم آٹھ انچ کا بور کرایا جائے جس کی گہرائی اڑھائی سو سے تین سو فٹ ہونی چاہیے۔ جب اتنا گہرا بور ہوگا تو بارش کا پانی خودبخود اس کے ذریعے زمین کے اندر چلا جائے گا۔

اس سے عمارت یا عمارت کی بنیادوں کو قطعی طور پر کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اس سے بارش کا پانی ضایع ہونے سے بچ جائے گا بلکہ زیر زمین میٹھے پانی کی سطح بھی بلند ہوجائے گی۔ اگر پاکستان میں اس طریقہ کار کو قانونی شکل دے دی جائے اور حکومت خود بھی اسے اپنائے تو سیلاب آئے گا نہ کوئی دیہات ڈوبے گا۔ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہر جہاں غیرمعمولی بارشیں غیر معمولی حالات پیدا کردیتی ہیں اس سے بھی بچا جاسکتا ہے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جن جن علاقوں سے سیلابی ریلے گزرتے ہیں ان نشیبی علاقوں میں چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنائے جائیں جن میں سیلاب کے پانی کو جمع کیا جاسکے اس سے ناصرف پانی محفوظ ہوگا بلکہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی بچا جاسکتا ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ماہرین کے مطابق ملکوں اور خطوں کے مابین آیندہ جنگیں پانی پر ہوں گی، دنیا کے بیشتر ممالک نے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے پانی کو محفوظ کرنے کے طریقوں پر کام شروع کر دیا ہے ہمیں بھی اس جانب سنجیدگی سے آگے بڑھنا ہوگا ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔