14اگست اور پاکستان
ہمارے حکمران بھی دنیا کے لیے بالکل اُسی طرح مثال بن جاتے جس طرح ایک جھوٹ بولنے پر صدر نکسن کو گھر بھجوادیا جائے
جشن آزادی کا مہینہ شروع ہوتے ہی عجیب سی کیفیت کا احساس ہوتا ہے، ہر طرف سبزہلالی پرچموں کی بہارسے تازگی کا احساس ہوتا ہے، احساس ہوتا ہے کہ ہم ایک آزاد معاشرے میں پرورش پا رہے ہیں۔ اور 14اگست والے دن تو ہر طرف نغموں کا جس طرح سماں بندھ جاتا ہے محسوس ہی نہیں ہوتا کہ اس ملک میں کسی قسم کی پریشانی بھی ہے یا نہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ہر چیز بہترین چل رہی ہے، لیکن جیسے ہی 14اگست یعنی جشن آزادی کا دن اپنے اختتام کو پہنچتا ہے پریشانیاں گھیر لیتی ہیں۔
غریب آدمی کو روزگار کی پریشانی، تنخواہ دار کو بجٹ میں رہ کر گزارہ کرنے کی پریشانی۔ جب کہ حکومتوں کو معیشت کی پریشانی۔ یہ تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ ہم ڈیفالٹ کرتے کرتے بال بال بچے ہیں، ورنہ اس وقت حالات مختلف ہوتے۔ لیکن اب بھی مصائب کے بادل چھٹے نہیں ہیں بلکہ ارد گرد ہی منڈلا رہے ہیں۔
یہاں میثاق معیشت کیا ہونا ہے، یہاں تو جب ایک پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو دوسری پارٹی کے لوگوں کو چن چن کر جیلوں میں ڈالتی ہے، جب کہ دوسری پارٹی جب اقتدار میں آتی ہے تو پہلی والی پارٹی کے رہنماؤں سے گن گن کے بدلے لیے جاتے ہیں۔ اور پورے ملک میں غدار غدار کی صدائیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم پاکستان میں نہیں بلکہ غداروں کی سرزمین پر رہ رہے ہیں! اس لیے یہاں یہ کہنا بجا ہے کہ 14اگست ہم تم سے شرمندہ ہیں کہ یہاں ہم اصل مسائل سے بے خبر ہر اختلاف کرنے والے کو غدار بنا دیتے ہیں۔
اگر کوئی نواز شریف کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ وہ ن لیگ کے خلاف ہے یا نواز شریف کی ذات کے خلاف ہے۔سیاست میں اختلاف ہوتا ہے۔ اسی طرح آصف زرداری کی پالیسی کے خلاف بات کی جاسکتی اوراسی طرح عمران خان کی غلط پالیسیوں کے خلاف بات کی جاسکتی ہے۔یہی سیاست کہلاتی ہے۔
اس لیے میرے خیال میں ہر سیاسی جماعت پاکستان کا حُسن ہے، کوئی پارٹی کبھی بری نہیں ہوتی۔ کوئی سیاستدان غدار نہیں ہوتا، میرے خیال میں غدار تو وہ ہوتا ہے جوریاست کے خلاف ہو۔ جو پاکستان کے خلاف ہو اور سیاستدانوں میں تو ایسا شاید ہی کوئی ہو جو پاکستان کے خلاف ہو۔جو بندہ کسی پارٹی کی پالیسیوں کے خلاف ہو، وہ غدار کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر میں چند ایک ججز کے خلاف ہوں تو میں غدار نہیں ہوں، اگر میں چند سیاستدانوں کے خلاف ہوں تو غدار نہیں ہوں، اگر میں چند افسروں کے خلاف ہوں تو میں غدار نہیں ہوں۔ اس لیے غدار کا لفظ ہماری سیاسی لغت میں سے نکل جانا چاہیے۔
میں نہیں سمجھتا کہ نوازشریف پاکستان کے خلاف ہے، آپ اُن پر کرپشن کے الزامات لگا سکتے ہیں، اُن پر دیگر الزامات لگا سکتے ہیں مگر وہ خدانخواستہ پاکستان کے خلاف ہوگا۔ زرداری صاحب یا مولانا فضل الرحمن کے بھی یہی حالات ہیںاور پھر ہمارا ماضی بھی ہم سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ پاکستان میںعبدالولی خان کو غدار کہا گیا، پھر جی ایم سید کو غدار کہا گیا، اکبر بگٹی کو غدار کہا گیا ، عطاء اللہ مینگل کو غدار کہاگیا، محترمہ بے نظیر بھٹو کو غدار کہا گیا، حتیٰ کہ ایوب خان نے فاطمہ جناح کو غدار قرار دیا ، اس لیے غدار کے لفظ پر ہی پابندی لگائی جانی چاہیے ۔
اے کاش کہ ہمارے حکمران بھی دنیا کے لیے بالکل اُسی طرح مثال بن جاتے جس طرح ایک جھوٹ بولنے پر صدر نکسن کو گھر بھجوادیا جائے، جس طرح جھوٹ بولنے پر صدر کلنٹن کا مواخذہ ہو جائے،جس طرح تحفے میں ملی دو عینکیں ڈکلیئر نہ کرنے پر کینیڈین وزیراعظم کی تفتیش ہوئی، وہ جرمانہ بھرے، جس طرح سلووینیا کا سیاستدان ایک سینڈ وچ چوری کرنے پر پارلیمنٹ کی رکنیت کھو بیٹھا ،جس طرح سرکاری خرچ پر ناشتہ کرنے پر فن لینڈ کی وزیراعظم نے انکوائریاں بھگتیں، جس طرح صوابدید سے زیادہ فنڈز اپنے حلقے میں خرچ کرنے پر برطانوی پارلیمنٹرین کی رکنیت چلی جائے، جس طرح انتخابات میں زیادہ پیسے خرچ کرنے پر فرانسیسی صدر سرکوزی کو سزا ہو جائے، جس طرح کورونا رولز کی خلاف ورزی برطانوی وزیراعظم کو لے ڈوبی لیکن پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔